نازک مزاج خادم


بھارتی پنجاب کے شہرجالندھرمیں ایک محلے کے کچھ بیروزگار نو جوان فٹ پاتھ پر کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھے کہ اچانک ان کے پاس ایک نیلے رنگ کی قیمتی گاڑی رکی، گاڑی میں سے ایک خوش لباس اورپراعتماد شخص باہرآیا ۔اس شخص نے نوجوان کھلاڑیوں کواپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک ریٹائرڈ آرمی بریگیڈیر ہے ۔اس شخص نے بتایا کہ ان دنوں ہماری فوج میں نوجوانوں کو بھرتی کیا جارہا ہے لہٰذاآپ لوگ کھیل کودمیں اپنا قیمتی وقت برباد کرنے کی بجائے فوج میں بھرتی ہو جائیں۔فوج میں بھرتی ہونے سے آپ نوجوانوں کامستقبل سنورجائے گا۔نوجوانوں نے اس ریٹائرڈ بریگیڈیر سے کہاکہ وہ فوج میں بھرتی ہونے کیلئے تیار ہیں مگران کی کچھ شرطیں ہیں۔اس شخص نے نوجوانوں سے ان کی شرطوں کے بارے میں استفسارکیا تواسے بتایا گیا کہ پہلی شرط یہ کہ ہمیں کھانے میں بھنڈیاں اورکریلے پسند ہیں۔آپ کی دوسری شرط کیا ہے ، بریگیڈیر نے ان سے پوچھاجس پرانہوں نے بتایا کہ وہ یونیفارم کی بجائے صرف ا پنی اپنی پسندکاٹریک سوٹ پہناکریں گے ۔اس شخص نے کہا کہ آپ لوگوں کی یہ دونوںشرطیں کسی حد تک مانی جاسکتی ہیں ۔کیا اس کے علاوہ بھی آپ لوگوں کی کوئی شرط ہے اس شخص کے پوچھنے پرنوجوانوں نے کہاکہ جی ہاں آپ کوسب سے اہم شرط بتاناتوابھی باقی ہے اوروہ یہ ہے کہ جب کبھی دشمن سے جنگ چھڑجائے گی توہماری درخواست پر ہمیں فوراًچھٹی پربھیج دیا جائے ۔

ان دنوں کچھ اس قسم کی صورتحال ہمارے پنجاب کے نازک مزاج خادم اعلیٰ میاں شہبازشریف کے ساتھ بھی ہے ۔یوں تووہ خودکوخادم پنجاب لکھنااور کہلوانازیادہ پسندکرتے ہیں مگرلاہور سے محض ڈیڑھ گھنٹے کی دوری پرشاہ کوٹ تحصیل کے ایک خوبصورت گاﺅں کوٹلہ کاہلواں جوراقم کی جائے پیدائش بھی ہے،وہاں کے سابق ناظم فلک شیربھٹہ کے فرزندنے بھٹہ برادری کی ایک بیٹی اورڈسٹرکٹ ننکانہ کی ایک ہونہارطالبہ صبارائے کی عزت سے کھلواڑکیا تھا۔وہاں جانے کیلئے انہیں وفاقی حکومت سے ہیلی کاپٹرمانگناپڑاجونہ ملنے پروہ صدر زرداری پربرس پڑے اورانہوں نے انہیں صدرمملکت ماننے سے بھی انکار کردیا۔مگران کے ماننے یانہ ماننے سے صدرزرداری کی صحت اورآئینی حیثیت پرکوئی اثر نہیں پڑتا۔خادم پنجاب کی خدمت میں عرض ہے محمدبن قاسم گھوڑے پرسوارہوکر ہزاروں میل دور سے ایک مظلوم مسلمان دوشیزہ کی آوا ز پر راجہ داہر کے ہندوراج کی اینٹ سے اینٹ بجانے آیاتھا ۔ اگرخدانخواستہ محمدبن قاسم کوبھی کمردردکی شکایت ہوتی اوروہ بھی ہیلی کاپٹرکے انتظارمیں بیٹھا رہتاتواس صورت میں تاریخ کے اوراق میں اس کانام ایک نجات دہندہ کے طور پررقم نہ ہوتا ۔ مفلوج معیشت والے مقروض پاکستان کونازک مزاج یاآرام پسند نہیں بلکہ انتھک اور کہنہ مشق حکمرانوں کی ضرورت ہے ۔

مسلم لیگ (ن) کے قائدین یوں توپنجاب کی تقسیم کیخلاف ہیں جوآبادی کے اعتبارسے باقی تینوں صوبوں کے مقابلے میں بڑا ہے لیکن ان کی سیاسی اورسماجی سرگرمیوں کامرکزلاہور ہے۔خادم پنجاب شہبازشریف کابیشتر وقت لاہور میں گزرتا ہے ،ا یسے میں اگردوسرے شہروں کے عوام احساس محرومی سے دوچار ہیں تویہ ایک فطری امر ہے۔ایک طرف تو مسلم لیگ (ن) کے قائدین نوازشریف اور شہبازشریف اپنے ہربیان میں وفاقی حکومت کی کرپشن پرتنقیدکرتے ہیں مگر اسی بدعنوان حکومت سے اپنے آنے جانے کیلئے ہیلی کاپٹر کی سہولت بھی طلب کرتے ہیں۔عنقریب میاں نوازشریف کوایک ہیلی کاپٹر کی فراہمی کیلئے مسلم لیگ (ن) میں فنڈریزنگ مہم شروع کی جائے گی۔

پاکستان میں ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں کوکمردرد کی شکایت ہے مگروہ خوشی خوشی عام گاڑیوں میں سفر اورعلاج کیلئے بھی پاکستان کے سرکاری یانجی ہسپتالوں سے رجوع کرتے ہیں جبکہ خادم پنجاب کے پاس آمدورفت کیلئے مہنگی اورلگژری گاڑیاں موجود ہیں اوران کااپنے میڈیکل چیک اپ اور علاج کیلئے برطانیہ آناجانالگارہتا ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ برطانیہ کی سڑکو ں پرسفر کے دورا ن میاں شہبازشریف کی کمر کوجھٹکے وغیرہ نہیں برداشت کرناپڑتے جبکہ پنجاب میں میاں شہبازشریف کو اپنی بنائی سڑکوں پرخودسفرکرنازیادہ پسند نہیں ہے ۔ابھی توخادم پنجاب کو ڈیڑھ گھنٹے کی دوری پرایک گاﺅں جاناپڑاجوبحیثیت وزیراعلیٰ ان کافرض منصبی تھا ،اگرانہیں اپنے کسی فرض کی بجاآوری کیلئے رحیم یارخان اورڈیرہ غازیخان سمیت پنجاب کے دورافتادہ شہروں یادیہاتوں میں جاناپڑگیا تواس صورت میں وہ کیا کریں گے۔ میاں شہباز شریف خودبتائیں وہ خادم پنجاب ہیں یاخادم لاہور ،کیونکہ وہ لاہورمیں تودن رات گاڑی میںسفرکرتے ہیںمگرلاہورسے باہرجانے کیلئے انہیں وفاقی حکومت سے ہیلی کاپٹرمانگناپڑتا ہے۔خادم پنجاب خودفرماتے ہیں کہ پنجاب حکومت اس وقت حالت جنگ میں ہے اوروہ دوران خطاب اہلیان وطن کوسادگی اور کفایت شعاری کادرس بھی دیتے ہیں مگر'' اوروں کونصیحت خودمیاں فضیحت کے مصداق ''خود ان کی آمدورفت پراس مقروض ملک کے کروڑوں روپے صرف ہوتے ہیں۔ صدرمملکت،وزیراعظم ،گورنرزاوروزرائے اعلیٰ کو ہیلی کاپٹرز کی مہنگی سہولت فراہم کی گئی ہے کیا پاکستان جیسا مقروض ملک اس قسم کی عیاشیوں کامتحمل ہوسکتا ہے ۔وفاق سمیت پنجاب اوردوسرے صوبوں میں کرپشن ایک عام بات ہے ۔ اگرصدرزرداری نے اپنے دوست احباب پرنوازشات کی بارش کی ہے تومیاں شہبازشریف بھی اپنے چہیتوں پرضرورت سے زیادہ مہربان ہیں تاہم ارباب اقتدارکی ان عنایات کابوجھ قومی وسائل پرپڑتا ہے۔

سپرمین یوں تو فلمی دنیا کا ایک فرضی کردارہے مگر ہمارے حکمرانوں سمیت عا م لوگ بھی اس سے کافی متاثرہیں۔سپرمین کی فلمی خوبیوں سے ہرکوئی واقف ہے جو چند لمحات میں دوسروں کی مددکیلئے ہزاروں میل دور پہنچ اورسمندر کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے۔ہمارے حکمران بھی خودکوسپرمین سمجھتے ہیں اور عوام کومتاثرکرنے کیلئے ہرمقام پرخودپہنچناان کی سیاسی ضرورت ہے ۔لیکن جوواقعات میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوتے وہاں کسی متاثرہ انسان کواس کی دہلیز پرفوری انصاف نہیں ملتا۔اللہ تعالیٰ کی قدرت اورطاقت کے بارے میں بحیثیت مسلمان ہمارے قلوب واذہان میں کسی قسم کا کوئی شبہ یاابہام نہیں ،اس قادرمطلق نے بھی مختلف کام کاج کرنے کیلئے ان گنت فرشتے بنائے جواس قادروتواناربّ کے ہرحکم کی تعمیل اوراس کی عبادت بھی کرتے ہیں۔ مگر اس کے باوجوداللہ پاک نے حضرت انسان کو کھنکھناتے ہوئے گارے سے پیداکیا،انسان کواپنانائب بنایا اوراسے اپنے بے پناہ اختیارات سونپ دیے مگرہمارے ارباب اقتدارکسی کے ساتھ اختیارات شیئرکرنے کیلئے تیار نہیں ہیں جس کانتیجہ ملک وقوم کوبھگتناپڑتا ہے۔ہمارے ہاں وزرائے اعظم اوروزرائے اعلیٰ کئی اہم وزارتوں کے قلمدان اپنے پاس رکھناپسندکرتے ہیں مگروہ ان کے ساتھ انصاف نہیں کرپاتے ۔

برطانیہ سے نوجوان سیاستدان چودھری اصغر علی سردارنے فون پر بڑے کرب سے بتایا کہ ہمارے ہاں بھی انصاف کیلئے زنجیرعد ل ہلاناپڑتی ہے۔ جس مظلوم انسان یاخاندان کی داستان غم میڈیا میں آجائے توپھر وہاں ارباب اقتدار کوباامرمجبوری جاناپڑتا ہے۔تاہم جوواقعات میڈیا کی نگاہوں سے پوشیدہ رہ جاتے ہیں یاجولوگ ظلم کانشانہ بننے کے باوجود اپنانام میڈیا میں اچھالنا پسندنہیں کرتے وہاں یہ سپرمین نہیں جا تے حالانکہ انہیں اپنے ذرائع سے ان واقعات کی معلومات ملتی رہتی ہیں ۔چودھری اصغرعلی سردارکاکہنا تھا کہ پردیس میںبیٹھ کردیس کے حالات پرہمارے دل خون کے آنسوروتے ہیں۔برطانیہ میں کئی قوموں کابسیراہے جوکسی نہ کسی واقعہ کوجوازبناکر پاکستان پرانگلیاں اٹھاتے ہیں توہمیں ان کی سوالیہ نگاہوں کاسامنا کرناپڑتا ہے۔ لندن سے ایک سابق طالبعلم رہنماراجہ عارف نے ای میل پرپیغام بھیجا ہے کہ ہمارے معاشرے میںجہاں کسی کمزورپرظلم ہوتاہے وہاں عام طورپر وزیراعظم ،گورنریاوزیراعلیٰ ہی کیوں جاتے ہیں اس شہرسے منتخب عوامی نمائندے اورسرکاری آفیسر زکیا جھک مار تے ہیں۔کیاان کے پاس وقت نہیںیاپھرانہیں اپنے ارباب اقتدارسے اختیارات نہیں ملے ۔جس گاﺅں میںخادم پنجاب کوخودجاناپڑاوہاںسے منتخب ممبران قومی وصوبائی اسمبلی کاتعلق بھی مسلم لیگ (ن) سے ہے اوروہاں ڈی سی اواورسی پی اوکوبھی میاںشہبازشریف نے تسلی ہونے کے بعداپوائنٹ کیا ہوگا توپھرکیا انہیں اپنے ارکان اسمبلی یاسرکاری آفیسرزپراعتماد نہیں ہے یاپھرانہیںسپرمین ہونے کازعم ہے ۔

کیا پنجاب حکومت کے پاس ایسا کوئی قابل صوبائی وزیر،چیف سیکرٹری یا آئی جی پولیس نہیں جوکسی مظلوم انسان یاخاندان کواس کی دہلیز پرانصاف کی فراہمی یقینی بنائے۔ایک کمردردمیں مبتلا وزیراعلیٰ کہاں کہاں جاسکتاہے ۔وزیراعلیٰ گھرگھرجا کر اپنے ہاتھوں سے ڈینگی مچھر مارے ،آگہی کیلئے عوام میں پمفلٹ تقسیم کرے ،تعلیمی اداروں میں جائے اوروہاں ڈینگی سے بچاﺅ کیلئے لیکچر دے ،ایک ایک سرکاری ہسپتال کادورہ کرے اوروہاں انتظامات کاجائزہ لے ،ٹائروں کے گوداموں پرچھاپے مارے یہ سب شعبدہ بازی ہے ۔جہاں نیت میں کھوٹ ہووہاں نتیجہ بھی کھوٹا نکلتا ہے۔ حکمران عوام کومتاثرکرنے میں تو کامیاب نہیں ہوتے مگران کی کارکردگی ضرورمتاثرہوجاتی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعلیٰ سمیت صوبائی وزیروںسے اضافی وزارتیں واپس لی جائیںاوروزراءکی کارکردگی دیکھتے ہوئے انہیں برقراررکھا یاہٹایاجائے۔وزیراعلیٰ اپناکام کریں اور اپنے وزیروں سمیت اپنے ماتحت سرکاری آفیسرزکوان کاکام کرنے دیں۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139669 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.