پچھلے سال 22 جولائی(2023) کو اخبارات میں یہ خبر شائع
ہوئی تھی کہ اتر پردیش کے مظفر نگر ضلع میں کاونڈ یاترا کے دوران، اس کے
راستے پر آنے والے ہندو دیوی دیوتاؤں کے نام سے چلنے والے تمام مسلم
آپریٹرس کے ہوٹلوں کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا ۔ ان میں ویج اور نان
ویج دونوں ہوٹل شامل تھے۔ کاونڈ یاترا کے راستے پر وہ تمام ہوٹل اور ڈھابے
جن کے مالکان یا عملہ مسلمان ہیں، تقریباً 15 دن تک بند رہے۔ یہ خبر چونکہ
یاترا کے بعد شائع ہوئی اس لیے یہ بھی درج تھا کہ اب مذکورہ ہوٹل اور ڈھابے
آہستہ آہستہ کھلنے لگے ہیں ۔دو ہفتوں سے ہوٹلوں کی بندش کے باعث ان کے (ہندو
) مالکان کو بھی مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔اس زیادتی کی وجہ مظفر نگر کے
سوامی یشویر مہاراج کا ہندو دیوی دیوتاؤں کے نام سے چل رہے ان ڈھابوں کے
خلاف احتجاج تھا کہ جن کومسلمان چلا رہے تھے۔ انہوں نے انتظامی حکام سے بات
کرکے مطالبہ کیا تھا کہ مسلمان ہوٹل چلانے والوں کے نام موٹے موٹے حروف میں
لکھے جائیں۔ اتر پردیش حکومت کے وزیر مملکت کپل دیو اگروال نے بھی انتظامی
عہدیداروں کو ہوٹل یاڈھابوں پر مسلم چلانے والوں کے ناموں کو درج کرنے کی
ہدایت دی تھی۔
یہ معاملہ مظفر نگر سٹی مجسٹریٹ وکاس کشیپ کے سامنے آیا تو انہوں نے اسے
رفع دفع کرنے کے لیے کہہ دیا کہ’’پچھلی بار کاونڈ یاترا کے دوران ایک واقعہ
سامنے آیا تھا۔ اس بار تمام ہوٹل مالکان کی میٹنگ ہوئی اور انہیں ہدایت کی
گئی کہ صرف آپ اپنا نام ظاہر کریں اور کچھ نہیں‘‘۔ امسال کانوڑ یاترا
(2024) کے شروع ہوتے ہی انتظامی حکام نے کانوڑ روٹ پر ایک بار پھر تمام
ہوٹل اور ڈھابہ چلانے والوں کو نہ صرف اپنے ہوٹلوں بلکہ پھلوں کی گاڑیوں
اور ٹھیلوں پر بھی انام کی تختی لگانے کی ہدایت دے دی ۔ اس بابت مظفر نگر
کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس ابھیشیک سنگھ نے کہا کہ کانوڑ یاترا ان کے ضلع
میں تقریباً 240 کلومیٹر کا راستہ طے کرے گی ۔ اس راستے میں کھانے پینے کے
تمام ہوٹل، ڈھابے یا ٹھیلے والوں کے نام ضرور درج کیے جائیں نیز پھلوں
،چائے کی دوکانوں اور چھوٹے دکاندار اپنے نام کے بورڈ لگائیں تاکہ کسی کو
کسی قسم کی کوئی پریشانی نہ ہو نیز ایسی صورتحال پیدا نہ ہو کہ الزامات
لگائے جائیں اور بعد میں امن و امان کاخطرہ لاحق ہوجائے۔
اس بیان میں کسی کو کسی قسم کی کوئی پریشانی ایک مبہم جملہ ہے۔ اس سے مراد
اگر کانوڑ ہے تو یہ مطلب ہوا کہ وہ کسی مسلمان یا دلت کو اونچی ذات کا ہندو
سمجھ کر اس کے ہاتھوں سے وہ کھانا نہ کھالے ؟ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی
مسلمان یا دلت کے ہاتھ کا کھانا کھالے تو کون سا آسمان پھٹ پڑے گا ؟ کھانے
کے حوالے سے کانوڈ اپنی شریعت کے مطابق سبزی کھائے اور گوشت سے پرہیز کرے
یہ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن کھلانے والا کون ہو یہ بات ان لوگوں کی سمجھ
میں نہیں آسکتی جو ہندوستان میں چھوت چھات کی روایت سے وقف نہیں ہیں۔ یہ
عجیب حماقت ہے کہ پچھلے سال دو مسلمان کانوڑ یاترا میں شامل ہوئے تو ان کی
خوب تعریف و توصیف کی گئی اور دلتوں کو بڑے ذوق و شوق سے اس میں شامل کیا
جاتا ہے مگر ان کے ہاتھ کا چھوا کھایا نہیں جاتا۔ چھوت چھات اس قدر غیر
عقلی نظریہ ہے کہ جو آم یا سیب مسلمان کے باغ میں اگا ہے ، جسے مسلمانوں
نے کھاد پانی دیا ہے ۔جس پھل کو مسلمانوں نے توڑا اور ہول سیل مارکیٹ میں
بیچا ہے اسے ہندو ٹھیلے والے سے خرید کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے پوتر پھل
کھایا ہے اور ہندو کے کھیت میں اگنے والا اناج اگرمسلمان فروخت کرے تو یہ
اسے ناپاک سمجھتے ہیں۔ ایسے احمق لوگوں کے بارے میں کیا کہا جائے کہ دلتوں
سے مندر اور مورتی بنواتی ہے اور پھر انہیں کا داخلہ ممنوع کرکے خود کو
اعلیٰ و ارفع سمجھتی ہے۔
کانوڈیا یاتری چونکہ لوٹ مار کے لیے مشہور ہیں اس لیے اب ان کے لیے ہندو
اور مسلمان کے درمیان فرق کرنا بہت آسان ہوجائے گا کیونکہ دوکان کے اوپر
جلی حروف میں نام لکھا ہوگا ۔ اس لیے ہدف سامنے ہونے کے سبب دنگا فساد کا
خطرہ بڑج جائے گا لیکن پولیس کے فرمان میں امن و امان کے خطرے کو ٹالنے کی
بات کہی گئی ہے مگر اس کے تعلق سے ایک باریک نکتہ یہ ہے کہ کانوڈیاترا میں
شامل غنڈے بدمعاش کئی بار کھا پی کر یونہی نکل جاتے ہیں ۔ اس کے بعد اگر
ہوٹل کے عملے کا ان سے جھگڑا ہوجائے اور وہ مسلمان ہو تو اس کو فرقہ وارانہ
رنگ دے دیا جاتا ہے۔ اس فرمان کے بعد تو کاونڈ کا مسلمان کی ہوٹل میں جانا
بجائے خود جرم ہوجائے گا یعنی اگر وہ کچھ کھانے کے لیے آئے تو وہ بھی لوٹ
مار میں شمار ہوگا۔ اس لیے جہاں مسلمان دوکاندار کاونڈیوں کے ذریعہ ملنے
والے منافع سے محروم ہوجائیں گے وہیں ان کی لوٹ پاٹ سے بھی محفوظ رہیں گے ۔
ویسے جگہ جگہ چونکہ انتظامیہ ان کے لیے لنگر کا اہتمام کرتا ہے اس لیے
انہیں کسی ہوٹل میں کھانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ الاّ یہ کہ سرکاری کھانا
نہایت گھٹیا درجہ کااور بدمزہ ہو یا کانوڑخود سبزی کے بجائے گوشت کھانا
چاہتا ہو۔
یہ بات عجیب نہیں ہے کیونکہ ہندو سماج کی اکثریت اب بھی گوشت خور ہے۔ ممبئی
کے مسلم ہوٹلوں اور کھاو گلی میں تو ہندو لوگ اب پورے خاندان کے ساتھ آکر
بیف کے سیخ پراٹھے کھانے لگے ہیں ۔ اس طرح کی مشقت طلب یاترا میں برہمنوں
کے نازو اندام کے پلے نوجوان تو شرکت نہیں کرتے۔ ایسے کرم کانڈ پسماندہ اور
دلت طبقات کے بیروزگار نوجوانوں کو بہلانے کے لیے کیے جاتےہیں ۔بیروزگاروں
کے اس لشکرکا انتخابی مہم میں بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ فرقہ وارانہ
فسادات کے دوران ان کو لوٹ مار کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ وہ لوگ
گئورکشکوں کی گینگ بناکر مویشی تاجروں سے ہفتہ وصول کرتے ہیں تو انہیں تحفظ
فراہم کیا جاتا ہے اور کانوڈ یاترا کے دوران ان پر پھول برساکر ان کا
جذباتی استحصال کیا جاتاہے ۔ اس طرح وہ اپنی غربت و مسکنت بھول کر پھولے
نہیں سماتےکیونکہ سرکار کی جوتیاں چاٹنے والاانتظامیہ ان کی خدمت کرتا ہے
بلکہ پیر دبا کر تصویریں کھنچواتا ہے۔
ویسے یہ بھی ایک خوش آئند حقیقت ہے کہ پچھلے چند سالوں کے دوران کانوڑ
یاترا میں شرکاء کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک
دلتوں کے اندر اپنے تشخص کا احساس کا پیدا ہونا ہے۔ دلتوں کے اندر جب سے یہ
بیداری آئی ہے انہوں نے ہندو تہوار منانا بند کردئیے ہیں ۔ پچھلے سال کسی
مہم کے حوالے دیوالی کے دوران ممبئی کی ایک دلت بستی میں جانے کا اتفاق ہوا
تو وہاں سناٹا پسرا ہوا دیکھ کر حیرت ہوئی کیونکہ عام تاثر تو یہ ہے کہ
سارے ہندو بشمول دلت دیوالی مناتے ہیں ۔ ان لوگوں نے بتایاچونکہ وہ ہندو
نہیں ہیں اس لیے دیوالی سے ان کا کوئی سروکار نہیں ہے۔ آج کل کے دلت رام
نومی کے بجائے بودھ پورنیما اور شیوجینتی کی جگہ امبیڈکر جینتی منانے لگے
ہیں۔ ایک زمانے میں اترپردیش کے بہت بڑے دلت رہنما کانشی رام کے نام میں
رام تھا اب نئی نسل کا چندر شیکھر آزاد خود کو راون کے لقب سے متعارف
کرواتا ہے۔ اس مرتبہ چار سو پار کے خوف سے دلتوں نے بی جے پی نواز رہنماوں
کا ساتھ چھوڑدیا جواس کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ کانوڑ یاترا کے راستے میں
اب دھابوں پر دلتوں کے نام کر اگر ان کے ساتھ چھوت چھات یا لوٹ مار کا
معاملہ ہوا تو دلت سماج بی جے پی سے اور بھی دور ہوجائےگا ۔
کانوڑ یاترا میں عقیدتمند کم اور اوباش نوجوان زیادہ ہوتے ہیں ۔ ان کے لیے
ڈی جے کے شور میں ناچنا گانا اہم ہوتا ہے۔ اس بار بھی یوپی اور ہریانہ کی
ڈبل انجن سرکاروں نے ڈی جے پر پابندی لگاکر اس پر سختی سے عمل درآمد کرنے
کا اعلان کررکھا ہے۔ اس طرح پہلے ہی رنگ میں بھنگ پڑ گیا ہے ۔ناچ گانے اور
ہلڑ بازی کے علاوہ کھانا پینا بھی یاترا کی موج مستی بڑھاتی تھی مگر اب
راستوں میں مسلم ہوٹلوں کا بند ہونے یا ان میں سبزی کا پروساجانا نوجوانوں
کو یاترا سے دور کردےگا اور وہ دن دور نہیں جب کانوڑ یاترا یادِ ماضی بن
جائے ۔ حکومتِ ہند میں اگر ہمت ہے تو وہ کشمیر کی امرناتھ یاترا کے تعلق سے
بھی اس طرح کا فرمان جاری کروائے اور اپنے کٹھ پتلی لیفٹننٹ گورنر سے اسے
نافذ کرے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ امرناتھ یاترا ہی بند ہوجائے گی ۔
مسلمانوں کے سبب اتر پردیش میں اوندھے منہ گرنے والی بی جے پی اس قدر کم
ظرف ہے کہ اس کے اندھ بھگتوں نے ایودھیا میں ہارنے کے بعد وہاں کے
رہنےہندووں پر لعن طعن کے بعد رام بھگتوں کو اپنے کھانے پینے اور پوجا پاٹ
کا سامان ساتھ لے کر جانےکی تلقین کی تاکہ بی جے پی کو ووٹ نہیں دینے والے
ایودھیا کے باشندوں سے کوئی چیز خریدی نہ جائے۔ خود اپنے ہم مذہب لوگوں کے
تئیں اس قدر تنگ دلی کا مظاہرہ کرنے والوں سے آخر مسلما ن یا دلت کسی خیر
کی توقع کیسے کرسکتے ہیں؟ لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے اب ان کے دن بھر گئے
ہیںاور اترپردیش میں تو یہ ظاہر ہے کہ آپس میں برسرِ پیکار سنگھ پریوار اب
خود ایک دوسرے کی قبر کھود رہا ہے۔
|