گزشتہ سے پیوستہ : جب جسٹس اسلم ریاض حسین لاہور ہائی
کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز تھے تو جسٹس مشتاق حسین کو 13 جولائی
1977 کو لاہور ہائی کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیا گیا جبکہ چیف جسٹس
اسلم ریاض حسین کو پنجاب کا قائم مقام گورنر مقرر کر دیا گیا انہوں نے 16
جولائی 1977 کو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا عہدہ چھوڑ دیا اور اسی دن
جسٹس مشتاق حسین سے قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے کا حلف لیا۔ لاہور ہائی
کورٹ کے چیف جسٹس پنجاب کے قائم مقام گورنر بن گئے، جنہوں نے ایک قائم مقام
چیف جسٹس سے حلف لیا جو چھ ماہ تک اپنے قائم مقام عہدے پر رہے۔ 16 جنوری
1978 کو جسٹس مشتاق حسین نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف لیا۔ آئین اس بات کی
اجازت نہیں دیتا کہ چیف جسٹس کا آئینی عہدہ اتنی طویل مدت تک خالی رکھا
جائے۔ قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر عارضی طور پر اور صرف مخصوص حالات میں
ہوتا ہے ۔ طویل عرصہ قائم مقام چیف جسٹس مشتاق حسین رہنے والے جج کی جانب
سے بھٹو کے مقدمہ سننے والے بینچ کی سربراہی نے قابل جواز بدگمانیوں کو جنم
دیا۔
بھٹو نے بارہا دعویٰ کیا تھا کہ جسٹس مشتاق حسین ان کے خلاف تعصب رکھتے ہیں
اور وہ انکے تعصب سے متاثر ہیں اور یہ کہ انہیں مقدمے کی سماعت نہیں کرنی
چاہیے مگر بھٹو کے اعتراضات کو مسترد کیا جاتا رہا۔ کیونکہ جہاں تعصب ہوتا
ہے وہ غیر جانبداری اور درست فیصلہ سازی کو خراب کرتا ہے۔ یاد رہے فیصلوں
کی قبولیت کو جنم دینے کے لیے غیر جانبداری ضروری ہے۔ یہ محض کچھ اہمیت کا
حامل نہیں ہے بلکہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے
بلکہ بلاشبہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ بھٹو نے سپریم کورٹ میں
ایک درخواست جمع کرائی جس میں کہا گیا کہ جسٹس مشتاق حسین ان کے ساتھ
متعصبانہ رویہ رکھتے ہیں اور ان کے خلاف تعصب بھی رکھتے ہیں۔ 24 ستمبر 1977
کو سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے درخواست خارج کردی کہ پہلے اسے ٹرائل کورٹ
میں دائر کیا جائے۔
بھٹو نے سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جسٹس مشتاق حسین کی بینچ سے
علیحدگی کی بابت متعدد بنیادوں پر مبنی درخواستیں دائر کیں جیسا کہ (1)
جسٹس مشتاق حسین ،پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف متعصب تھے اور اس سلسلے میں
ان کے اخبارات میں شائع شدہ بیانات کا حوالہ دیا گیا۔ (2) ضمانت کی منسوخی
کی درخواست جو کہ 13 ستمبر 1977 کو ہائی کورٹ کے جسٹس صمدانی نے منظور کی
تھی، جسٹس مشتاق حسین کی تشکیل کردہ پانچ رکنی ٹرائل کورٹ کے سامنے رکھی
گئی اور 8 اکتوبر 1977 کو ضمانت منسوخ کر دی گئی، چونکہ ضمانت ہائیکورٹ نے
دی تھی تو جسٹس مشتاق حسین کی سربراہی میں قائم ٹرائل کورٹ ہائیکورٹ کی
جانب سے دی گئی ضمانت فریقین کو نوٹس جاری کئے بغیر منسوخ نہیں کرسکتی تھی۔
(3) چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ قبول کرنے کے بعد جسٹس مشتاق حسین کا قائم
مقام چیف جسٹس کا عہدہ ختم ہو گیا کیونکہ آئین کے مطابق چیف الیکشن کمشنر
کوئی دوسرا عہدہ نہیں رکھ سکتا۔ (4) مقدمے کی سماعت کے دوران متعصبانہ رویے
اور تعصب کی مخصوص مثالوں کا بھی ذکر کیا گیا۔ (5) ملزمان کو نوٹس دیئے
بغیر مقدمے کی سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ منتقلی نے جسٹس مشتاق حسین کے تعصب
اور جانبداری کی مزید تصدیق کی (6) انہی حقائق پر نجی شکایت کا مقدمہ ہائی
کورٹ کے بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تاہم جسٹس مشتاق حسین نے
اسے اپنے تشکیل کردہ بینچ کے سامنے رکھ دیا۔ (7) اور یہ کہ جسٹس مشتاق حسین
نے آئین کے تحت حلف نہیں اٹھایا تھا بلکہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے
حکم نامے کے تحت حلف اٹھایا تھا، اس لیے انہیں آئین کے تحت لاہور ہائی
کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس یا چیف جسٹس نہیں سمجھا جا سکتا۔
پانچ رکنی ٹرائل کورٹ بنچ نے متفقہ طور پر بھٹو کی طرف سے دائر درخواستوں
کو خارج کر دیا۔ حیران کن طور پر جس جج کے خلاف درخواست دائر کی گئی وہی جج
اس درخواست کو سن رہا تھا۔ جسٹس آفتاب حسین نے حکم نامہ لکھا جس کے ذریعے
بھٹو کی درخواستیں خارج کر دی گئیں۔ جسٹس مشتاق حسین نے حکم نامے پر صرف دو
الفاظ لکھے ۔۔۔"میں متفق"۔۔۔ اس حکم نامے پر دستخط کرنے والے جج صاحبان نے
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 216 کی بجائے جسٹس مشتاق حسین
کا بطور چیف الیکشن کمیشن مارشل لاء کے تحت حلف اٹھانے کو جائز قرار دیا
اور اسکی وجہ بیان کرتے ہوئے ججز نے لکھا کہ اگر جسٹس مشتاق حسین ایسا نہ
کرتے تو یہ نتیجہ نکلتا کہ پاکستان میں اعلی عدلیہ کا وجود باقی نہیں رہا۔
جج کی بینچ سے ہٹانے کی درخواست پر اس طرح کی عصبیت کا اظہار مکمل طور پر
ناجائز اور غیر ضروری تھا۔ جج بھول گئے کہ آئین کی پاسداری ان کی بنیادی
ذمہ داری ہے۔ ججوں کی طرف سے اس طرح کی بے چینی کا اظہار آئین، اور اس کی
پاسداری کی ضرورت کو مجروح کرتا ہے۔ عدالتی حکم نامہ کا شہریوں اور سیاسی
ڈھانچے پر تباہ کن اثر پڑا۔ جس نے مطلق العنان حکمرانی کو قبول کیا اور
غلامی کی زنجیروں کو اُتارنا مشکل بنا دیا۔ (جاری ہے۔۔۔)
|