مہاراشٹر:یہ فتنہ پارٹی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

امیت شاہ اور شرد پوار کے حوالے سے آج کل مہاراشٹر میں کالو بالو کا تماشا چل رہا ہے۔ شاہ نے پوار بدعنوانوں کا سربراہ کہا تو بی جے پی کے حلیف بچو کڑو نے کہا ہمیں وزیر داخلہ کے بیان پر شرم آتی ہے۔ شرد پوار بولے وہ تو تڑی پار ہے ۔ اس پر بی جے پی ریاستی صدر باون کلے نے کہا امیت شاہ کی کارکردگی پر تنقید سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے تو شرد پوار نے پھر کہہ دیا کہ ہم جیل میں اس چراغ کو دیکھ چکے ہیں۔ یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب بی جے پی کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے شاہ جی پونے آئے تھے۔ مہاراشٹر میں بی جے پی کی ذلت آمیز شکست کے حوالے سے تنظیمی نشست میں کیا ہوا یہ تو کوئی نہیں جانتا مگر خطاب عام میں شاہ جی نے اپنی تقریرسے بی جے پی کے رہے سہے امکانات کو بھی خاک میں ملا دیا۔ سب سے پہلے تو انہوں نے یہ پیشگوئی فرمادی کہ اس بار ریاستی انتخاب میں بی جے پی کو 2014 اور 2019 سے بھی بڑی جیت ملے گی ۔

یہ چمتکار کیسے ہوگا ؟ کوئی نہیں جانتا کیوں کہ ابھی حال میں ہونے والے پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی نے شیوسینا(یو بی ٹی) کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ کانگریس پہلے نمبر ہے۔ بی جے پی کی حلیف شیوسینا سے ایک سیٹ زیادہ این سی پی کو ملی اور اجیت پوار کی این سی پی تو بیچاری ایک پر سمٹ گئی۔ ایسے میں پہلے سے بڑی کامیابی شیخ چلی کا خواب ہے جو شاہ جی خود دیکھ رہے ہیں اور دوسروں کو بیچ بھی رہے ہیں لیکن انہیں کتنے خریدار ملیں گے یہ کہنا مشکل ہے۔ مہاراشٹر کے اندر صوبائی انتخابات جیسے جیسے قریب آتے جارہے ہیں سیاسی ماحول گرما رہا ہے ۔ پارلیمانی انتخاب کے نتائج نے حزب اختلاف کے حوصلوں کو بلند کردیا ہے نیز بی جے پی کی پریشانی میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ مودی اور شاہ کے اوٹ پٹانگ بیانات ہیں ۔ ابھی حال میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے پونے میں جو تقریر کی اس کے بعد پارٹی کے کارکنان دعا کررہے ہیں کہ کہیں چھوٹے میاں کے پیچھے بڑے میاں نہ تشریف لے آئیں۔

یہ دونوں حضرات جو کسی زمانے میں پارٹی کے لیے نعمت ہوا کرتے تھے اب مصیبت بن گئے ہیں ۔ پارلیمانی انتخاب کی تشہیر کے لیے 19مرتبہ وزیر اعظم نے صوبے میں آنے کی زحمت فرمائی مگر صرف 3 مقامات پر اپنے امیدواروں کو کامیاب کرسکے باقی مقامات پر وہ نہیں جاسکے اس لیے بی جے پی کو کم ازکم 9 نشستیں مل گئیں ورنہ وہ بھی نہیں مل پاتیں ۔ ممبئی کی مثال سب کے سامنے ہے گھاٹکوپر میں انہوں نے روڈ شو کیا بی جے پی امیدواراس ہورڈنگ کی مانند سڑک پر آگیا جو ان کے دورے سے محض ایک دن قبل گری تھی اور وزیر اعظم نے اس کے نیچے دب کر مرنے والوں کی خاطر ہمدردی کا ایک لفظ بھی کہنا گوارہ نہیں کیا تھا ۔ دادر کے شیواجی پارک ریلی میں وہ خوب گرجے اور برسے مگر سارا پانی سمندر میں بہہ گیا اور وہاں سے شیوسینا (یو بی ٹی) کے امیدوار کو کامیابی ملی ۔

لوک سبھا کی انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے سب سے بڑی غلطی پونے میں شرد پوار کو بھٹکتی آتما کہہ کر کی تھی ۔ اس تضحیک آمیز لہجے نے این سی پی کو دس میں آٹھ نشستیں جیتنے میں بڑی مدد کی ۔ اسی طرح انتخابی مہم کے دوران بی جے پی مہاراشٹر کے سابق صدر چندر کانت پاٹل بارامتی گئے جہاں سے اجیت پوار کی اہلیہ سنیترا پوار مہایوتی کی اور شرد پوار کی بیٹی سپریہ سولے مہاوکاس اگھاڑی کی امیدوار تھیں۔ اپنی تقریر کے دوران چندر کانت پاٹل نے جوش میں آکر کہہ دیا کہ ’’ سیاست دراصل ہلکی اوروزن دار چیز میں تمیز کرنے کا ترازو ہے۔ ہمارے لئے شرد پوار کی شکست اہم ہے۔ ‘‘انہوں نے اپنا آخری ہدف یہ بتایا کہ ’’ مجھے اور میرے کارکنان کو شرد پوار کی شکست چاہئے بس۔‘‘ شرد پوار کے آبائی وطن میں جاکر ان کے خلاف اس طرح کا بدزبانی نے عوام کو بی جے پی اور این سی پی ( اجیت) دونوں سے بدظن کردیا ۔

اجیت پوار کو اس حماقت کا اندازہ ہوا تو انہوں نے چندر کانت پاٹل کے بیان پر برہمی کا اظہار کیا۔ وہ بولے ’’ چندر کانت پاٹل کے بیان کا کوئی مطلب نہیں تھا۔ وہاں سپریہ سولے اور سنیترا پوار کے درمیان مقابلہ تھا ۔ پھر شردپوار کو شکست دینے کا سوال کہا ں سے آ گیا؟ ‘‘اجیت پوار نے یہ بھی کہا تھاکہ ’’چندر کانت پاٹل سے جب بعد میں ملاقات ہوئی تو ہم نے ان سے کہہ دیا کہ آپ پونے پر اپنی توجہ مرکوز کریں بارامتی کو ہم اور ہمارے کارکنان دیکھ لیں گے۔‘‘ اجیت پوار نے کہا چندر کانت پاٹل کا وہ بیان غلط تھا۔ انہیں ایسا نہیں بولنا چاہئے تھا لیکن وہ بول گئے۔ یہ بات ان کو بعد میں معلوم ہوئی۔ اس کے بعد اجیت پوار نے بارامتی کے اندر لگے وہ تمام بینر اتروا دئیے جن پر مودی وغیرہ کی تصاویر تھیں اور پھر بی جے پی رہنماوں کے بغیر نئے بینر لگوائے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ سپریا سولے جن کی جیت کا امکان پچاس ہزار ووٹ کے فرق سے تھا وہ بڑھ کر ڈیڑھ لاکھ ہوگیا ۔ اپنی ان غلطیوں سے اگر مودی اور شاہ سبق سیکھتے تو ابھی حال میں پھر سے پونے میں شرد پوار کو بدعنوانوں کا سرغنہ نہیں کہتے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی غلطی کو علی الاعلان تسلیم تو کبھی نہیں کرتی مگر اپنے رویہ میں اصلاح ضرور کرتی رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال آئین کے حوالے سے اس کے تازہ بیانات اور رویہ ہے ۔ وزیر اعظم کا اس کو چومنا چاٹنا اور ایمرجنسی کو آئین سے جوڑ کر شور شرابہ کرنا وغیرہ اسی قبیل کی حرکتیں ہیں لیکن شرد پوار کے معاملے میں وہ اس طرح کی پختگی نہیں دے پارہی ہے۔ وزیر داخلہ شرد پوار کو بدعنوانوں کا سرغنہ کہنا بیک وقت کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ پہلا تو یہ کہ شرد پوار اگر بدعنوانی کے سرغنہ ہیں تو ان کی سرپرستی میں سیاست کرنے والا بھانجااجیت پوار دودھ کا دھلا کیسے ہو گیا ؟ بی جے پی کو بدعنوانی سے اس قدر دشمنی ہے تو اس نے شرد پوار کو پدم و بھوشن کے اعزا ز سے کیوں نوازہ ؟ نیز وزیر اعظم نریندر مودی نے پوار کی تعریف و توصیف میں یہ کیوں کہا کہ وہ ان کی انگلی پکڑ کر سیاست میں آئے ہیں؟ شردپوار کو ایک طرف بلا واسطہ اپنا استاد ماننا اور پھر اپنے سیاسی گرو کی تضحیک و توہین کرتے ہوئے انہیں بھٹکتی آتما کہنا کس بات کی علامت ہے؟ یہ بتاتا ہے کہ مودی جی کا ذہنی توازن بگڑ گیا ورنہ وہ ایسے متضاد بیانات دے کر اپنی دماغی دیوالیہ پن کا ثبوت نہیں دیتے۔

مہاراشٹر ریاستی تنظیمی نشست میں امیت شاہ نے یہ انکشاف کیا کہ صوبے میں جب بھی بی جے پی کی سرکار آتیہے مراٹھا ریزرویشن ملتا ہے اور جب شرد پوار کی حکومت بنتی ہے تو مراٹھا ریزرویشن ختم ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ فی الحال مہاراشٹر کے اندر کون برسرِ اقتدار ہے اور مراٹھوں کو ریزرویشن کیوں نہیں مل رہا ہے؟ اس کو اگر یہ کہہ کر ٹالا جائے کہ ریاستی سرکار نے تو دیا مگر عدالت نے روک لگا دی تو یہ سوال پیدا ہوگا کہ اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے والا کون ہے؟ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ نائب وزیر اعلیٰ کے خاص آدمی نے عدالت میں جاکر اس پر روک لگائی اسی لیے ریزرویشن کی تحریک چلانے والے جرانگے پاٹل فڈنویس کو اپنا دشمن نمبر ایک مانتے ہیں۔ اس معاملے تو سلجھانے کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت مراٹھوں کے لیے ریزرویشن تحدید کو بڑھائے اور پسماندہ طبقات کو متاثر کیے بغیر ان کو ریزرویشن دے۔ غریب ترین طبقات کے لیے وہ ایسا کرچکی ہے مگر مراٹھوں کے لیے نہیں کرتی الٹا انہیں دیگر پسماندہ طبقات سے لڑا کر اس کی آگ پر روٹیاں سینکتی ہے لیکن مراٹھا سماج اس کھیل کو سمجھ چکا ہے اور بی جے پی کے دام میں نہیں پھنسے گا ۔

شرد پوار کو برا بھلا کہنے کے بعد امیت شاہ ادھو ٹھاکرے پر تنقید کرتے ہوئے کہ وہ اورنگ زیب فین کلب کے چہیتے ہیں ۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ مرکزی حکومت کی ایک بیساکھی ٹی ڈی پی ہے جس کے رہنما چندرا بابو نائیڈو کی نماز پڑھتے ہوئے ویڈیو وائرل ہورہی ہے اور وہ کھلے عام مسلم ریزرویشن کے حامی ہیں۔ اس لیے دوسروں پر تنقید کرنے سے قبل اپنے بغل میں جھانک کر بھی دیکھ لینا چاہیے ۔ اس طرح کے اول فول بیانات کے بعد مہاراشٹر کی سیاست میں فی الحال نہایت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ بی جے پی والے دل سے نہیں چاہتے کہ مودی یہاں آکر اپنی بدزبانی سے رائتہ پھیلائیں اور پھر شاہ اس میں گئو موتر اور گوبر ملائیں ۔ ان دونوں نے مہاراشٹر کے اندر بی جے پی والوں کی نیند حرام کررکھی ہے مگر کسی میں مجال نہیں ہے کہ ان کے خلاف لب کشائی کرے ۔ اس کے برعکس مہا وکاس اگھاڑی کے لوگ چاہتے ہیں کہ مودی اور شاہ زور شور کے ساتھ انتخابی مہم میں حصہ لے کر رائے کو عامہ کو بی جے پی کے خلاف کریں ۔ اس لیے کہ مہا وکاس اگھاڑی کو کامیاب کرنے میں شردپوار ، ادھو ٹھاکرے اور نانا پٹولے مل کر وہ کام نہیں کرسکتے جو مودی، شاہ اور فڈنویس کی تریمورتی کرسکتی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی کا یہ ترشول کمل کو کتنا زخمی کرتا ہے اور اس کی لاش کو کس کھائی میں لے جاکر دفن کردیتا ہے؟ مودی اور شاہ کے لیے بی جے پی کے کارکنان یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ پڑھتے ہیں؎
یہ فتنہ پارٹی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2103 Articles with 1331490 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.