چہرہ دیکھو مہرہ نہ دیکھو ، مہرے نے لاکھوں کو لوٹا

سنگھ پریوار کو اپنے نظریہ ، تنظیم ، کارکنان اوران کے نظم و ضبط پر بڑا ناز ہوا کرتا تھا۔ سنگھی دیگر سیاسی جماعتوں پر طنز کیا کرتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ اصول و نظریہ سے عاری ایک خاندان ہےجس کے آس پاس اقتدار کی خاطرایسے ابن الوقت جمع ہوگئے ہیں جن کے اندر بد نظمی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ۔ اترپردیش کی سیاست گواہ ہے کہ وہ الزامات بی جے پی پر من عن صادق آتے ہیں۔ اترپردیش کے حالیہ انتخابات میں عوام نے ہندوتوا کو مسترد کرکےنظریہ کاگلا گھونٹ دیا۔ اس شکست کا فائدہ اٹھاکر یوگی کا کانٹا نکالنےوالے امیت شاہ نے تنظیم دودھڑوں حصوں میں منقسم کردیا۔ حلیف جماعتوں کے بعدخود بی جے پی لوگوں نے یوگی کی کھلے عام مخالفت کرکے اوردونوں نائب وزیر اعلیٰ نے کابینی نشستوں میں غیر حاضر رہ کر نظم و ضبط کی دھجیاں اڑادیں ۔ کیشو پرشاد موریہ دہلی جاکر امیت شاہ اور مودی سے ملتے رہے مگر اپنی کابینہ کی میٹنگ میں نہیں پھٹکے۔ آر ایس ایس کی تربیت کا اگر یہی اثر ہے تو پھر اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یوگی اور شاہ کی سرد جنگ نے آر ایس ایس کے دعووں کی پول کھول دی ہے۔

ملک میں چھپنّ انچ کی چھاتی پیٹنے والا ہندو ہردیہ سمراٹ کی اپنے چانکیہ کی مدد سے ایک وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کی خاطرکی جانے والی سازشوں کی ناکامی ان کے وشو گروکی شبیہ کو شرمندہ کرتی ہے ۔ اس کی وجہ یوگی کی مضبوطی نہیں بلکہ مودی اور شاہ کمزوری اور بزدلی ہے ۔ یوگی ادیتیہ ناتھآر ایس ایس کی شاکھا سے نہیں آئے اس لیے جب ان کو ہٹانے کر دہلی بھیجنے یا کسی صوبے کا گورنر بنانے پر غوروخوض شروع ہوا تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ وہ اپنے گورکھ ناتھ مٹھ میں لوٹ کر جائیں گے ۔ یوگی کے اندر اپنی ہندو یوا واہنی کی مدد سے انتخاب جیتنے کا دم خم تو نہیں ہے مگروہ بی جے پی کی بینڈ بجا سکتے ہیں اس لیے مودی اور شاہ کوبار بار ان کو ہٹانے سے کترا جاتے ہیں ۔ کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ یدو یورپاّ نے بھی جب پارٹی سے بغاوت کی تھی تو وہ اقتدار میں نہیں آسکے لیکن دس فیصد ووٹ کے ساتھ بی جے پی کی لٹیا ڈبو دی ۔ دوسری بار سرکار بنانے کے لیے پارٹی ہائی کمان کو ناک رگڑ کر انہیں واپس لانا پڑا ۔یوگی بھی بی جے پی کاو یساہی نقصان کر سکتے ہیں اس لیے ہائی کمان ڈرتا ہے اور وہ اس کا فائدہ اٹھا کر اسے بلیک میل کرتے ہیں ۔

کانگریس یا کسی بھی علاقائی سیاسی پارٹی میں کوئی بھی رہنما اس طرح اپنے اعلیٰ کمان کو ڈرا دھمکا نہیں سکتا۔ اکھلیش یادو نے جس آسانی سے ایک برہمن ماتا پرساد پانڈے کو اپوزیشن لیڈر ، محبوب علی کو پریسیڈائنگ بورڈ ، کمال اختر کو چیف وہپ اور آر کے ورما کو ڈپٹی وہپ مقرر کردیا ایسا کرنا مودی کے لیے ناممکن ہے۔ تمام تر بلند بانگ دعووں کے باوجود2017سے بی جے پی ہائی کمان یوگی کے آگے بے بس ہےجب کیشو پرشاد موریہ کی قیادت میں اترپردیش کے اندر بی جے پی نے 404نشستیں جیت لی تھیں ۔ اس زبردست کامیابی میں گورکھپور کے رکن پارلیمان یوگی ادیتیہ ناتھ کا کوئی حصہ نہیں تھا ۔ اس وقت موجودہ وزیر داخلہ پارٹی کی صدر تھے اوروزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابی مہم کی قیادت کی تھی۔ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے وزیر داخلہ کی حیثیت سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے سب سے زیادہ انتخابی ریلیوں سے خطاب کیا تھا مگر انہیں کے سیاسی رسوخ کو ختم کرنے کے لیے مودی و شاہ نے یوگی کو وزیر اعلیٰ بنادیا تاکہ اپنی پارٹی کے ریڑھ کی ہڈی راجپوت رائے دہندگان کو خوش کیا جاسکے۔

مودی کی پہلی پسند منوج سنہا کے بجائے یوگی ٹھاکر کو وزیر اعلیٰ بنانے کا بنیادی مقصد راجناتھ سنگھ کی جڑ کاٹ کر انہیں کمزور کرنا تھا ۔ اس مقصد میں ہائی کمان کو کامیابی ہوئی اور وقت کے ساتھ راجناتھ سنگھ سے وزارت داخلہ چھین کر انہیں وزیر دفاع کا قلمدان تھمادیا گیا مگر اس کام کے لیے جس یوگی ٹھاکر کو لایا گیا وہ اب مودی اور شاہ کی خاطر ناسور بن گیا ہے۔ پانچ سال بعد جب دوبارہ صوبائی انتخاب کا موقع آیا تو کیشو پرشاد موریہ نے صاف کہا تھا کہ اگلا وزیر اعلیٰ انتخاب کے بعد طے ہوگا اور وزیر اعظم کی شبیہ پرمہم چلے گی ۔ اس الیکشن سے قبل کورونا کے زمانے میں یوگی کی نااہلی کھل کر سامنے آچکی تھی ۔ یوپی کے سواکسی صوبے میں نقل مکانی کرکے لوٹنے والے مزدوروں پر لاٹھیاں نہیں چلیں ۔ کسی ریاست میں نہ تو لاشوں کو گنگا میں بہتے دیکھا گیا اور نہ اجتماعی طور جلانے بلکہ ندی کے کنارے دفنانے کے واقعات ہوئے۔ اس کے باوجود بی جے پی انتخابات کے پیش نظر یوگی کو ہٹانے کی جرأت نہیں کرسکی ۔

2022 میں یوگی کے ہوتے یوپی انتخابات میں بی جے پی کی 55 نشستیں کم ہوگئیں پھر بھی انہیں 2024کے پارلیمانی الیکشن میں کامیابی کی خاطر یہ وزیر اعلیٰ بنادیا گیا ۔ اس دوران چونکہ یوگی ہائی کمان کی کمزوری سمجھ چکے تھے اس لیے انہوں نے بھی سازش کرکے 2022میں اپنے حریف اول کیشو پرشاد موریہ کو صوبائی انتخاب میں ہروا دیا لیکن جیسے اعلیٰ کمان یوگی ادیتیہ ناتھ کو ہٹانے میں ناکام رہا اسی طرح یوگی ادیتیہ ناتھ بھی ایک ہارے ہوئے رکن اسمبلی کو نائب وزیر اعلیٰ بننے سے نہیں روک سکے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یوگی اور شاہ کے درمیان رسہّ کشی کس قدرشدید تھی۔ آگے چل کر یوگی نے موریہ کو اسٹول پر بیٹھا کر انتظار کروایا اور یوگی کے گودی میڈیا اس خبر کو اچھال کر نائب وزیر اعلیٰ کو خوب رسوا کیا ۔ اسیّ فیصد ہندووں کا اتحاد قائم کرنے والوں کے بیچ اقتدار کی خاطر آپسی چپقلش کا یہ عالم ہے۔

بی جے پی کے اعلیٰ کمان نے جب دیکھا آمنے سامنے کی لڑائی یہ مسئلہ حل نہیں ہورہا ہے تو چور دروازے سے یوگی کو قابو میں کرنے کی مذموم کوشش کی ۔ وزیر اعظم کے خاص معتمد اے کے شرما کو آئی اے ایس کے عہدے سے قبل از وقت سبکدوش کروا کے لکھنو بھیجا گیا۔ موصوف مودی کے ساتھ نہ صرف گجرات میں تھے بلکہ انہیں دہلی کے اندر پی ایم او میں رکھا گیا تھا۔ ان کو بھیجنے کا مقصد لکھنو کے اندر طاقت کا متوازی مرکزبنانا تھا ۔ یوگی نے انہیں معمولی وزارت تھما کر ٹرخا دیا اور مودی دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ اس معاملے میں ناکامی کے بعد شاہ جی نے ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ اترپردیش کا کاروبار چلانے کے لیے سبکدوش آئی اے ایس درگا پرشاد مشرا کو چیف سیکریٹری بناکر دہلی سے بھیجا ۔ اس وقت دو مرتبہ سے زیادہ توسیع کی قانونی اجازت نہیں تھی تومشرا کے لیے ضابطہ تبدیل کیا گیا مگر کوئی فرق نہیں پڑا ۔ مشرا جی کی توسیع پر توسیع ہوتی رہی اور یوگی نفرت پھیلا پھیلا کر عوام میں اپنی مقبولیت بڑھاتے رہے یہاں تک کہ 2024 کے قومی انتخابات سر پر آگئے۔

امیت شاہ نے یوگی کر کترنے کی خاطر امیدواروں کے تقرر سے انہیں دور رکھا اس کا فائدہ وزیر اعلیٰ کو مل گیا کیونکہ جب بیشتر امیدوار ہار گئے تو یوگی نےاعلیٰ کمان کو اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرا دیا ۔ اس دوران ہار کا ٹھیکرا یوگی کے سر پر پر پھوڑنے کے لیے پہلے باہر کے حلیف انو پریہ پٹیل اور پھر سنجے نشاد سے مخالفت کروائی گئی۔ اس کے بعد اندرونی بغاوت نے سر ابھارا ۔ وزراء کی نشستوں سے اجتناب کرنے والے کیشو پرشاد موریہ نے یوگی کی بلڈوزر پالیسی کو شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ کیشو پرشاد سے یہ بھی کہلوایا گیا کہ سرکار سے اوپر پارٹی ہے تو یوگی نے جواب دیا تب پھر ہار کی ذمہ دار بھی وہی ہے ۔ اسی طرح رکن اسمبلی راجیش مشرا نے مرکز کو مداخلت کی دعوت دیتے ہوئے کہا وہ اپنا کردار ادا کرے ورنہ کمل مرجھا جائے گا۔ موتی سنگھ نامی سابق وزیر بولے کہ اپنی سیاسی زندگی میں انہوں نے اتنی بدعنوانی کبھی نہیں دیکھی۔

لکھنو کے اندر پارٹی کے صدر جے پی نڈا کی موجودگی میں یوگی پر انانیت پسندی کے الزامات لگائے گئے لیکن انہیں ہٹانے کی جرأت مودی اور شاہ پھر بھی نہیں کر سکے ۔ اب حال یہ ہے کہ اکھلیش یادو کہہ رہے ہیں کیشو اگر 100 ارکان پارلیمان کو لے کر آئیں تو وہ انہیں وزیر اعلیٰ بنادیں گے۔ اس کے بعد یہ بھی کہتے ہیں کہ کیشو پرشاد مرکزکے وائی فائی کا پاس ورڈ اور مہرہ ہیں۔ اس کے جواب میں کیشو نے بھی کہہ دیا کہ خود اکھلیش ملک دشمن کانگریس کا مہرہ ہیں ۔سچائی تو یہ ہے کہ اس مہابھارت میں فی الحال کیشو پرشاد کو ٹیشو پیپر کی مانند استعما ل کرکے کوڑے دان میں پھینک دیا گیا ہے اور اقتدار کی تبدیلی ضمنی انتخاب کے نتائج تک ٹال دی گئی ہے۔ چہرے اور مہرے کی اس جنگ کا انجام جو بھی ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ رام اور راون دونوں ہندو تھے اور مہابھارت میں دونوں جانب ایک ہی خاندان کےافراد تھے۔ فی الحال سنگھ پریوار اسی روایت کو آگے بڑھا رہا ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449406 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.