’ٹھنڈا مطلب کولا کولا‘ اور کولگیٹ یعنی ٹوتھ پیسٹ‘ کی
مانند جمہوریت سے بھی ایسی بہت ساری توقعات وابستہ کردی گئی ہیں کہ جن کا
اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مثلاً جب عدل و انصاف کو خطرہ لاحق ہوتا ہے یا
اظہار رائے کی آزادی کا گلا گھونٹا جاتا ہے تو اس جمہوریت کے لیے مہلک
مانا جاتا ہے حالانکہ شریعتِ جمہوریہ میں عوام کے ذریعہ منتخب ہونے والی
حکومت کو اس زیادتی کے مکمل اختیار سے نوازہ گیا ہے۔ اندرا گاندھی کی
ایمرجنسی کو درست ٹھہرانا عدلیہ کی مجبوری تھی اور اگرنریندر مودی بھی اسے
نافذ کردیں تو وہ اقدام خلافِ انسانیت ہونے کے باوجود جمہوریت مخالف نہیں
ہوگا کیونکہ اس سیاسی نظام میں عوام کی فلاح وبہبود کے نام پر عوام کی خاطر
عوام کے ذریعہ منتخب ہونے والی حکومت کو اپنی من مانی کرنے کی مکمل آزادی
ہے ۔ ایوان پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو
الیکشن کمیشن سے نکال باہر کیا جائے تب بھی وہ بیچارہ کچھ نہیں کرسکتا۔یوگی
اگر لو جہاد کے لیے عمر قید کی سزا تجویز کردے تو عدلیہ اس کے مطابق فیصلہ
کرنے پر مجبور ہوگی نیز انتظامیہ اسے نافذکرنے کی پابند ہوگا ۔
دنیا کی عظیم ترین جمہوریت امریکہ سے لے کر ذہین ترین جمہوریت اسرائیل میں
بھی اس طرح کی بے لگام قانون سازی ہوتی رہتی ہے اور وسیع ترین جمہوریت
ہندوستان بھی پیچھے نہیں ہے۔ وطن عزیز کو اس بات پر بڑا ناز ہے کہ تمام تر
اخلاقی و سماجی خرابیوں کے باوجودیہاں کوئی فوجی بغاوت نہیں ہوئی اور
انتخابی عمل کے ذریعہ اقتدار کی منتقلی ہوتی رہی حالانکہ ممبئی کی
میونسپلٹی کے الیکشن پچھلے ساڑھے سات سے محض اس لیے نہیں ہوئے کیونکہ بی جے
پی کی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔ جموں کشمیرمیں دس سال قبل انتخابات ہوئے
تھے ۔ سپریم کورٹ نے ستمبر کے اواخر تک الیکشن کروانے کی پابندی لگائی پھر
بھی کوئی ہلچل دکھائی نہیں دیتی ۔ ایک صوبے اور شہر کو استثناء مان لیا
جائے تب بھی الیکشن کے دوران ہنگامہ آرائی عام سی بات ہے۔ اترپردیش کے
پنچایت الیکشن میں تو کیمرے کے سامنے امیدواروں کا اغواء اور خاتون امیدوار
سے بدسلوکی تک ہوئی لیکن دوبارہ ووٹ نہیں پڑے۔ ان ساری زیادتیوں کوتمام
شواہد کے باوجود جائز اور مستحب سمجھا گیا کیونکہ وہ حزب اقتدار کی مرضی و
منشاء کے مطابق تھا لیکن اب تو انتخابی نتائج کی اعتباریت بھی شکوک و شبہات
کے گھیرے میں آگئی ہے۔
پچھلے دنوں اے ڈی آر اور وی ایف ڈی کی دو چونکانے والی رپورٹوں میں
انتخابی دھاندلی کو شواہد سمیت بے نقاب کیا گیا مگر کسی کے کان پر جوں بھی
نہیں رینگی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عوام ووٹ دینے کی اپنی ذمہ داری ادا کر
دینے کے بعد نتائج سے بے نیاز ہوجاتے ہیں ۔ ان کے فیصلے پر اگر کوئی ڈاکہ
ڈال کر اسے چرا لے تو بھی کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسوسی ایشن فار
ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) ہندوستانی سیاست اور انتخابی عمل پر نظر
رکھنے والا ایک موقر ادارہ ہے۔ اس کے سربراہ پروفیسر جگدیپ چھوکر نے ایک
پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کیا کہ قومی انتخابات کے دوران 538 پارلیمانی
سیٹوں پر کئی تضادات پائے گئے۔اس میں شک نہیں کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا
بلکہ 2019 کے انتخابات میں بھی کئی سیٹوں پر اختلافات سامنے آئے تھے مگر ان
کی تعداد صرف 347 تھی ۔ اس تعداد میں اب کی بار غیر معمولی اضافہ ہوا اور
وہ بڑھ کر 538 پر پہنچ گئی ۔ یہ حیرت انگیز اعدادو شمار ہیں کیونکہ اس طرح
کےتضاد کی بنیاد پر مشکوک ہونے والی نشستیں ۹۹فیصد سے تجاوز کر جاتی ہیں ۔
مذکورہ پورٹ کے مطابق حتمی اعدادوشمار جاری کرنے میں غیرمعمولی تاخیر، حلقے
اور پولنگ اسٹیشنز کی جانب سے اعداد و شمار کا تضاد نیز انتخابی نتائج کے
اعلان میں حتمی اعداد و شمار کی بنیاد ایسے عوامل تھے جن کی بابت عام لوگوں
کے قلب و ذہن میں تشویش پیدا ہوئی ہے۔
اے ڈی آر کی تحقیقی رپورٹ کو ئی سیاسی ہوا بازی نہیں ہے۔ اس میں دعویٰ کیا
گیا ہے کہ 362 لوک سبھا سیٹوں پر جو ووٹ ڈالے گئے تھے ان کے مقابلے شمار
کیے جانے والے ووٹ کی تعداد 5 لاکھ 54 ہزار 598 ووٹ کم ہے۔ سوال یہ ہے کہ
ووٹ کہاں چلے گئے اور کس کے ایماء پر غائب کیے گئے؟ اس بار 176 نشستیں ایسی
ہیں جہاں جملہ 35 ہزار 93 زیادہ ووٹوں کی گنتی ہوئی ہے۔ یہ ووٹ کہاں سے اور
کیوں آئے ؟ یہ سوالات بھی اہم ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صرف 195 حلقۂ انتخاب
ایسے ہیں جن پر ڈالے گئے اور گنے جانے والے ووٹوں کی تعداد میں کوئی فرق
نہیں ہے۔ 2019 میں بھی ایسے تضادات موجود تھے جن میں کم سے کم 1 ووٹ سے لے
کر سب سے زیادہ 1 لاکھ 1323 ووٹ تک کا فرق تھا۔ یہ تضاد معمولی نہیں بلکہ
کل ووٹوں کا 10.49 فیصد تھا۔
صوبائی سطح پر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے راجدھانی دہلی کی تمام 7
سیٹوں پر 8159 کم ووٹوں کی گنتی ہوئی اور اتراکھنڈ کی 5 سیٹوں پر 6315 کم
ووٹ گنے گئے ۔ان دونوں مقامات پر بی جے پی نے کلین سویپ کرلیا یعنی حزب
اختلاف کا سوپڑا صاف ہوگیا مگر اے ڈی آر کی رپورٹ یوپی کی 55 سیٹوں کا بھی
ذکر کرتی ہےجہاں ڈالے گئے ووٹ کی بہ نسبت 53960 ووٹ کم گنے گئے اس کے
باوجود بی جے پی اپنی نیاّ کو ڈوبنے سے نہیں بچا سکی جبکہ 25 سیٹیں ایسی
بھی ہیں جہاں 6124 ووٹوں زیادہ گنے گئے ۔ سوال یہ ہے کہ اب تو سارا کام
مشین سے ہوتا ایسے میں فرق کیا معنیٰ رکھتا ہے؟ جھارکھنڈ کی کل 14 لوک سبھا
سیٹوں میں سے 12 سیٹوں پر 26342 کم ووٹوں کی گنتی ہوئی ۔ دو نشستیں ایسی
ہیں جن پر کل رائے دہندگی کے مقابلے 393 ووٹ زیادہ گنے گئے ۔ اس کے علاوہ
بہار کی کل 40 سیٹوں میں سے 21 سیٹوں پر 5015 ووٹوں کی زیادہ گنتی ہوئی
جبکہ 19 سیٹوں پر کل ووٹوں سے 9924 ووٹ کم گنے گئے ۔ یہ تشویشناک اعدادو
شمار چونکانے والے ہیں۔
اے ڈی آر کی رپورٹ سے قبل ’ووٹ فار ڈیموکریسی’ نے’ کنڈکٹ آف لوک سبھا
الیکشن 2024‘ نامی جائزہ پیش کیا ۔ ووٹ فار ڈیموکریسی کی رپورٹ نے بھی لوک
سبھا 2024 کے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے ۔ رپورٹ کے مطابق خود
الیکشن کمیشن کے ذریعہ ابتدائی ووٹنگ کے اعداد و شمار سے حتمی ووٹنگ کے
اعداد و شمار تک کل 4.65 کروڑ ووٹوں کی ہیرا پھیری ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے
بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کو ملک کی 15 ریاستوں میں 79 سیٹوں کا
فائدہ ہوا۔ یہ تعداد اگر این ڈی اے نکال کر انڈیا محاذ کی جھولی ڈال دی
جائیں تو ملک کا سیاسی منظر نامہ یکسر بدل جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ
گویا انتخابی نتائج کو اغواء کرکے اپنے حق میں کرلیا گیا ہے لیکن اس رپورٹ
کے منظر عام میں آنے کے بعد بھی مین سٹریم میڈیا کے اندر مکمل خاموشی
چھائی رہی ۔ کہیں بھی کوئی بحث دکھائی نہیں دیتی ہر سو بلکہ ہیبت ناک سناٹا
پسرا ہوا ہے کیونکہ ان صحافیوں کے ایک جانب چینل کا مالک یعنی صیاد دانہ
پانی لے کر بیٹھا ہے اور دوسری طرف سرکار ی جلاد ننگی تلوار لے کر کھڑا ہے
۔ ان دونوں کو خوش رکھنے کے لیے صحافی حضرات کو ثاقب لکھنوی کے شعر پر
معمولی ترمیم کے ساتھ عمل کرنا پڑتاہے ؎
میڈیا والو وطن میں یوں گزارا چاہئے
باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی
ووٹ فار ڈیموکریسی کے ذریعہ انتخابی نتائج اور ووٹر ٹرن آؤٹ کے عددی تجزیہ
میں الیکشن کمیشن کے ذریعہ ابتدائی ووٹنگ سے حتمی ووٹنگ کے اعداد و شمار تک
سات مرحلوں میں تمام حلقوں کے اندر 3.2% سے 6.32% تک کا فرق ریکارڈ کیا
گیا۔ اس کی روشنی میں ووٹ فیصد کا فرق آندھرا پردیش میں 12.54% اور اڈیشہ
میں 12.48% تک پہنچ گیا۔ ان دونوں ریاستوں میں صوبائی انتخاب بھی ساتھ ہوا
اور حکومت بدل گئی یعنی بی جے پی کی اپنی یا اس کے حلیف کی حکومت بن گئی جو
اس کے لیے بیساکھی کا کام کررہی ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حکمراں
محاذ یعنی این ڈی اے کو ووٹنگ فیصد میں درمیان میں ہونے والے اضافے سے
فائدہ ہوا ہے۔ اس غیر معمولی اضافہ کے نتیجے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی
قیادت والی این ڈی اے کو ملک بھر میں 79 اضافی نشستیں ملیں۔ ان میں اڈیشہ
سے 18، مہاراشٹر سے 11، مغربی بنگال سے 10، آندھرا پردیش سے 7، کرناٹک سے
6، چھتیس گڑھ اور راجستھان سے 5، بہار، ہریانہ، مدھیہ پردیش اور تلنگانہ سے
3، آسام اور اروناچل پردیش کی 2نشچستیں شامل ہیں۔ گجرات جیسی محفوظ ریاست
میں کانگریس کو کھاتا کھولنے سے روکنے کے لیے اور کیرالہ میں اپنا کھاتا
کھولنے کی خاطر ایک ایک سیٹ پر یہ کھیل کھیلا گیا ۔ اس طرح چور دروازے سے
قائم ہونے والی سرکار اب بجٹ کے ذریعہ عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈال رہی ہے۔
ایسے میں ملک کے رائے دہندگان کی زبان پر اپنے وزیر اعظم کے لیے ( مجروح
سلطانپوری سے معذرت کے ساتھ) یہ گہار ہے ؎
چرا لیا ہے تم نے الیکشن ، بجٹ نہیں چرانا صنم
بدل کے تم اپنی ہی گارنٹی، کہیں بدل نہ جانا صنم
|