ایران کی شہادت پر عوام کے شبہات

ہنیہ کے چلے جانے سے کیا حماس ختم ہو جائے گا؟ ہنیہ کو قطر سے بلوا کر ایران نے شہید کیا؟ اسرائیل نے ہنیہ کو ایران کے بجائے قطر میں کیوں نہیں مارا؟

فلسطین کے مزاحمتی تحریک (حماس) کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے جہاں فلسطین اور اس کے حامی مسلمانوں کو نہایت دکھ اور افسوس ہے، وہیں کچھ لوگوں کی جانب سے یہ خدشہ بھی کیا جا رہا ہے_ کہ: کیا ہنیہ کے چلے جانے سے حماس ختم ہو جائے گا یا شکست کھا جائے گا؟ یہ سوال عموماً ان لوگوں کی جانب سے کیا جارہا ہے، جن کو حماس کی حقیقت اور ان کے نظریات کا علم نہیں۔ اس شبہ کے جواب کیلئے اول حماس کے نظریات کو جاننا ہوگا:-

دراصل حماس محض کوئی گروہ نہیں جس میں کچھ لوگ مل کر اسرائیل کے خلاف لڑ رہے ہوں؛ بلکہ یہ ایک تحریک ہے، جو نظریات کی بنیاد پر لڑ رہے ہیں۔ ان کے نظریہ کی اگر بات کی جائے تو یہ اسرائیل کو ایک ناجائز اور ظالم ریاست تصور کرتے ہیں (جس نے ان کو اپنے گھروں سے در بدر کرنے کے ساتھ ان پر نہایت مظالم ڈھائے ہیں)، جن کے خلاف یہ جہاد کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں میں اسرائیل کے ترجمان نے بھی اپنے بیان میں کہا تھا کہ "حماس (باقی گروہوں کی طرح) کوئی عام سا گروہ نہیں، بلکہ یہ نظریہ کی بنیاد پر قائم ایک تحریک ہے، جس کو شکست دینا آسان نہیں"۔

اس میں شک نہیں کہ اسماعیل ہنیہ ایک تجربہ کار سربراہ کے طور پر اپنے خدمات انجام دے رہے تھے، جس کی نگرانی میں حماس نے دشمن کو ناکوں تلے چنے چبوائے۔ لیکن یاد رہے کہ کسی کے چلے جانے سے وہ تحریک ختم نہیں ہو جاتی۔ اگر ہنیہ صاحب شہید بھی ہوگئے تو پیچھے اور بھی کافی سارے تجربہ کار رہنما موجود ہیں، جو اس عہدے کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس وقت (سابق حماس سربراہ) خالد مشال اور (جنگجو ونگ کے موجودہ ناظم) یحییٰ سنوار اس عہدے کیلئے سر فہرست ہیں۔

علاوہ ازیں، کچھ لوگوں کی جانب سے یہ اعتراض بھی کیا جا رہا ہے_ کہ: یہ ایران کا ہی چال تھا، جس نے حماس سربراہ کو قطر سے اپنے ملک بلوا کر شہید کر دیا۔ لیکن یہ محض ایک اعتراض ہی ہے، جس کا کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ بلکہ اگر حقیقت دیکھا جائے تو وہ اس کے بالکل برعکس ہے، جس کا اہل علم کو خوب اندازہ ہے_ کہ کس طرح (لبنان میں موجود) حزب اللہ اور حماس کو ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہنیہ کی شہادت کے بعد ان کی بیٹی کی جانب سے بھی وضاحت کی گئی کہ "ان کے والد کو ایران نے نہیں، بلکہ امریکہ کی مدد سے اسرائیل نے ہی مارا ہے۔ اور ساتھ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ: ایران نے ان کے والد کی جتنی مدد کی ہے اتنی کسی عرب ملک نے بھی نہیں کی حالانکہ وہ ہمارے زیادہ قریب ہیں"۔ ہنیہ کی بیٹی کی جانب سے دیے گئے وضاحت سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو ایران نے نہیں بلکہ اسرائیل نے ہی شہید کیا ہے۔

لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اگر اسرائیل نے ہی مارنا ہوتا، تو قطر میں کیوں نہیں مارا (ایران میں ہی کیوں مارا)؟ تو قطر میں مارنا شاید اتنا آسان نہیں تھا، جس کی وجہ قطر کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات ہیں۔ کیونکہ قطر ان چند عرب ممالک میں شامل ہے، جو اسرائیل کے وجود کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں اس طرح کی کاروائی کرنے سے ردعمل زیادہ آتا۔ اس کے برعکس ایران کی امریکہ اور اسرائیل سے مخالف سب کے سامنے عیاں ہے؛ جس کی وجہ سے اسرائیل نے ہنیہ کو قطر کے بجائے ایران میں ہی مارنا بہتر سمجھا۔
 

سید اویس احمد
About the Author: سید اویس احمد Read More Articles by سید اویس احمد : 5 Articles with 2239 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.