ممتاز قادری کو سزائے موت کیوں؟

سابق گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے جرم میں ممتاز قادری کو راولپنڈی کی خصوصی عدالت نے دو بار سزائے موت سنا دی۔ عدالت نے ممتاز قادری سے مخاطب ہوکر کہا کہ شریعت کے مطابق آپ نے ٹھیک کام کیا لیکن ملکی قوانین کے مطابق میں آپ کو سزائے موت سنا رہا ہوں۔ ایک سزائے موت قتل کے جرم میں اور ایک سرعام دہشت پھیلانے کے جرم میں۔ ممتاز قادری کے خلاف خصوصی عدالت اڈیالہ جیل میں لگائی گئی کیونکہ عام عدالت میں ایسی سزا سنانے کے بعد شائد جج صاحب کے لئے سکیورٹی کے شدید خطرات سامنے آسکتے تھے۔ مذہبی جماعتوں کی اکثریت نے اس سزا کے خلاف احتجاج کی کال دی، پنڈی کی وکلاء تنظیمیں بھی احتجاج میں شامل تھیں بلکہ اسی دن کیس سننے والے جج کی عدالت میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔ پہلے تو ممتاز قادری اور اس کے اہل خانہ نے درون خانہ ”کسی“ کے کہنے اور سمجھانے پر سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن بعدازاں وکلاءکے سمجھانے بجھانے اور ایک پیر صاحب کے اصرار پر اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اب ممتاز قادری نے اپیل کے لئے وکالت نامے پر دستخط کردئے ہیں۔ سزا سنائے جانے کے بعد میڈیا کا وہ کردار پھر سے کھل کر سامنے آگیا جس کے تحت کسی کو “خوش“ کرنے کے لئے یا کسی کو ”ناراض“ نہ کرنے کے لئے ایسی خبروں کا بائیکاٹ کردیا جاتا ہے۔ جس روز ممتاز قادری کو ”ملزم“ سے ”مجرم“ بنایا گیا اسی روز سے ملک کے طول و عرض میں کہیں نہ کہیں کوئی احتجاجی مظاہرہ کیا جارہا ہے لیکن سوائے ایک دو اخبارات کے پورے میڈیا نے اس کی بوجوہ صحیح رپورٹنگ نہیں کی۔ لاہور میں جی پی او چوک میں احتجاج کے طور پر آٹھ نو گھنٹے تک دھرنا دیا گیا، بیسیوں گاڑیوں کے شیشے توڑے گئے اور پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں جس میں کچھ پولیس والے اور کچھ احتجاجی مظاہرین جو مختلف مدرسوں سے آئے تھے زخمی بھی ہوئے۔ اسی طرح پنڈی اور دوسرے شہروں میں بھی ہوتا رہا۔ وہ میڈیا جو ذرا ذرا سی بات پر افسانے تراشنے اور چوبیس چوبیس گھنٹے تک اس کی کوریج اور فالواپ دکھاتا رہتا ہے اس نے اس سلسلہ میں مکمل خاموشی اختیار کئے رکھی۔ اگر میڈیا لاہور میں ہونے والے احتجاج کی تھوڑی سے بھی کوریج کرتا تو یقیناً وہ مظاہرین جن کی تعداد بارہ پندرہ سو کے قریب تھی بڑھ کر ہزاروں میں جاسکتی تھی لیکن بعض ”ناگزیر“ وجوہات کی بناءپر ایسا نہیں کیا گیا، میں حسن ظن رکھتے ہوئے یہ سوچتا ہوں کہ شائد معاشرے میں امن و امان کے مسئلہ سے بچنے کے لئے، حضور اکرم ﷺ کے اس حکم کہ راستہ بند نہ کیا جائے کی پاسداری میں اور فتنہ و فساد کو پھیلنے سے روکنے کے لئے ایسا کیا گیا ہو کیونکہ اس سارے معاملے میں یقینا عام آدمی کا کوئی قصور نہیں تھا، مال روڈ پر دس منٹ بھی ٹریفک بند ہوجائے تو میلوں لمبی لائنیں لگ جاتی ہیں یہاں تو سات آٹھ گھنٹے تک ٹریفک بند رہی، ٹریفک کی روانی متاثر ہو جائے تو مریضوں، طالب علموں اور عمر رسیدہ افراد کو خاص طور پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مسافر تو رلتے ہی ہیں، لیکن کیا واقعتا ایسا ہی تھا؟اس کا جواب میڈیا مالکان ہی دے سکتے ہیں۔

ممتاز قادری کا کیس اب ہائی کورٹ میں جانے والا ہے، سزائے موت کنفرم ہوتی ہے یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن پہلی عدالت سے سزاسنائے جانے کے بعد جو ٹریلر ہم نے دیکھا ہے اس کی روشنی میں ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ اگر ایک مسلمان کے طور پر دیکھیں تو حضور اکرم ﷺ کی محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے، کوئی ان کی شان میں گستاخی کرے، یہ کسی کمزور سے کمزور ایمان رکھنے والے مسلمان کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا، اسی کا اظہار وزیر داخلہ رحمان ملک بھی کرچکے ہیں، دوسری بات یہ کہ جب حکومتی ادارے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا نہیں ہوتے تو پھر عوام کو معاملات اپنے ہاتھ میں لینے سے نہیں روکا جاسکتا، اگر حکومت اور ریاست سلمان تاثیر کے توہین رسالت قانون کے خلاف بیان کا نوٹس لے لیتی، ان کو گورنری سے ہٹا کر ان کے خلاف تحقیقات شروع کردی جاتیں تو شائد ایسی نوبت نہ آتی لیکن ہم نے دیکھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت اور اس کے عمائدین نے ان کا دفاع شروع کردیا تھا، ایسے میں اگر کسی کا ایمان جاگ گیااوروہ خواب غفلت سے ہوش میں آگیا تو میں سمجھتا ہوں یہ فرض عین تھا جو ممتاز قادری نے پوری امت کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ فرض ادا کیا۔ ممتاز قادری کے خلاف سزا سنائے جانے پر احتجاج ٹھیک لیکن اصل لڑائی اور جنگ عدالتوں میں لڑی جائے گی۔ ممتاز قادری کے اہل خانہ اور ان کی حمائت کرنے والی سیاسی و مذہبی جماعتوں کو وکلاءکے انتخاب اور بعد ازاں کیس کی پیروی کی تیاری کرنی چاہئے، مجھے یقین ہے کہ اعلیٰ عدالتیں صرف ملکی قوانین نہیں بلکہ شریعت اور ملکی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے دانشمندانہ فیصلہ کریں گی۔ احتجاج میں بھی کچھ ضروری عناصر کو سامنے رکھنا چاہئے کہ اس سے کسی کو ناحق تکلیف نہ ہو، کسی کی ذاتی یا قومی املاک کو نقصان نہ پہنچے، آپ اگر ایک سڑک روک کر دھرنا دے کر بیٹھ جاتے ہیں تو احتجاج ریکارڈ ہوجاتا ہے، اس سے زیادہ کچھ بھی کرنا شائد ہمارے اپنے اور ملک کے لئے نقصان دہ ہو، لاہور میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں جن گاڑیوں کے شیشے توڑ دئے گئے اور لوگوں کی ذاتی املاک کو نقصان پہنچایا گیا ان کا تو کوئی قصور نہیں تھا! ہمیں محبت رسول کے ساتھ ساتھ اطاعت رسول پر بھی بہت زیادہ زور دینا چاہئے، جنگ اور جہاد کے بھی کچھ راہنما اصول ہیں، احتجاج کے بھی پر امن طریقے موجود ہیں لیکن ابھی تو اس کیس کے حتمی فیصلے میں بہت وقت ہے، اپنی ”توانائیاں“ اور اپنے ”پتے“ اس وقت تک بچا کر رکھنے کی ضرورت ہے، سپریم کورٹ تک پہنچنے اور اس کے فیصلے میں اچھا خاصا وقت باقی ہے، اللہ کے آخری نبی و پیغمبر حضرت محمد ﷺکے ارشادات کی روشنی میں اس قوم کو فتنہ و فساد سے پچانے کی ذمہ داری علماءکرام کے کندھوں پر بھی ہے۔

آخر میں ایک ضروری بات جسے میں حق سمجھتا ہوں اور اس کا اظہار کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ ملک ہم نے بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا، لاکھوں جانیں اور عصمتیں لٹا کر حاصل ہونے والا ملک جو اس وقت تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے، اس کی سلامتی پر کوئی آنچ آئے، یہ ہرگز ہرگز قابل قبول نہیں ہے لیکن اس سرزمین اور اس ملک سے بھی زیادہ اہم اور ضروری حضور اکرم ﷺکی عزت و ناموس ہے جس پر کوئی بھی سمجھوتہ کسی بھی مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے لئے کافی ہے، اس لئے ریاست کے متعلقہ اداروں اور حکومت کو مستقبل میں ایسے کسی بھی مسئلے سے بچنے کے لئے ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ ہماری عدالتیں جو آجکل ”ازخود نوٹس“ لینے میں بہت مشہور و معروف ہیں، ان کو اس معاملہ کا بھی نوٹس لینا چاہئے کہ توہین رسالت قانون میں کسی قسم کی تبدیلی یا سزا میں کمی نہیں ہونی چاہئے البتہ ایک نہایت اہم بات یہ کہ جھوٹا الزام لگانے والے کے لئے بھی کڑی سے کڑی سزا رکھنی چاہئے کیونکہ کچھ لوگ یقینا اس قانون کو ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ایسا بھی ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ علماءکرام کو بھی اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ملک میں کسی قسم کی افراتفری نہ ہو۔ وما توفیقی الا باللہ!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222590 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.