اولیاءاللہ کے واقعات میں تحریر
ہے کہ حضرت حسن بصری ؒ واعظ فرمارہے تھے او رعلم وعرفان کے متوالوں کا ایک
ہجوم ان کا واعظ سن رہاتھا وہاں اتفاق سے حجاج بن یوسف ننگی تلوار اپنے
ہاتھ میں پکڑے اپنے محافظوں سمیت آنکلا حضرت حسن بصری ؒ کی مجلس میں ایک
ایسا شخص بھی بیٹھا تھا جو اپنے دن میں سوچ رہا تھا کہ آج حضرت حسن ؒ کا
امتحان ہوجائے گا کہ وہ حجاج بن یوسف کے سامنے بھی وعظ میں مشغول رہتے ہیں
یا اس کی تعظیم کے لیے وعظ چھوڑ کرکھڑے ہوجاتے ہیں اتنی دیر میں حجاج بن
یوسف حضرت حسن بصری ؒ کے بالکل نزدیک پہنچ چکا تھا اس نے چاہا کہ آپ اس کی
طرف توجہ فرمائیں اور اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوں لیکن آپ نے حجاج کی طرف
آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا اور حسب سابق اپنے وعظ میں مصروف رہے یہ دیکھ
کر وہ شخص اپنے دل میں کہنے لگا کہ حضرت حسن بصری ؒ واقعی اللہ کے ولی ہیں
کچھ دیر کے بعد آپ وعظ سے فارغ ہوگئے اتنی دیر حجاج وہی ہی کھڑا ہوا آپ کے
فارغ ہونے کے بعد حجاج نے مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا اور لوگوں کی طرف
متوجہ ہوکرکہنے لگا کہ ”اے لوگوں اگر تم کسی مرد حق کو دیکھنا چاہتے ہو تو
حضرت حسن بصری ؒ کو دیکھ لو “
قارئین ہمارے وطن میں خریدوفروخت کی ایسی منڈیاں وجود میں آچکی ہیں جہاں
ایمان فروخت ہوتے ہیں ،لوگوں کے آنسو خریدے اوربیچے جاتے ہیں ،لوگوں کے خون
پسینے کی کمائی پر مشتمل بجٹ اور ملکی وسائل سودے بازیوں کی نذر کردیئے
جاتے ہیں ،جہاں ”مفاہمت Reconciliation“کے نام پر گھٹیاسے گھٹیا کام کرکے
ڈھٹائی کے ساتھ ملکی مفاد کے ڈونگرے پیٹے جاتے ہیں ،جہاں محسن پاکستان
ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے عظیم انسان کو ماضی کا قصہ بنا دیا جاتاہے ،جہاں
اپنے مفادات کی خاطر ملکی مفادات قربان کرتے ہوئے قاتلوں اور ٹارگٹ کلر کو
کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے ،جہاں کشمیر کے مسئلے کو ”مصلحت “کا دل کش عنوان
دے کر قصہ پارینہ بنادیا جاتاہے ،جہاں لاکھوں کشمیر ی شہداءکے خون کو
”دوطرفہ تجارت “کے نام پر فروخت کردیاجاتاہے یہ سب منڈیاں ایسی ہیں کہ ان
کا تعلق ہمارے حکمران طبقے کی بے غیرتی ،بدنیتی اور ذاتی اغراض ومقاصد پر
مبنی ہے یہ حکمران چاہے لیفٹ ونگ سے ہوں یارائٹ ونگ سے ان کے مفادات مشترکہ
ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جو کسی دور میں 22بڑے گھرانوں پر
مشتمل تھی اب ایک سو کے قریب خانوادوں تک جا پہنچی ہے سیاسی وابستگیوں سے
قطع نظر حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھے یہ لوگ ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں اور
آئندہ بھی رشتہ دا ررہیں گے ۔
قارئین اس پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد وہ خبرہے کہ جو قومی اخبارات کی
زینت بنی جس میں انکشاف کیا گیا کہ ”نواب شاہ پلان “نامی ایک منصوبہ کے تحت
آزادکشمیر کی وزارت عظمی تبدیل کی جارہی ہے بیان کردہ تفصیلات کے مطابق
آزادکشمیر کی وزارت عظمی کی بولی لگائی گئی تھی اور لندن میں طے شدہ بولی
کے 80کروڑ روپے یا 8ارب روپے ادابھی کردیئے تھے لیکن ملک میں جب یہ خبر
پہنچی اور اپوزیشن نے میاں محمد نوازشریف کی قیادت میں اس پر سٹینڈ لینے کا
فیصلہ کیا تو راتوں رات قومی سلامتی کے مقتدر اداروں نے مداخلت کرتے ہوئے
اس نیلامی پر عمل نہ ہونے دیا اور وزار ت عظمی چوہدری عبدالمجید کے نصیب
میں لکھ دی گئی لیکن جو شخصیت یا شخصیات لین دین میں ملوث تھیں ان کا دباﺅ
اپنی جگہ برقرار تھا مظفرآباد میں الیکشن کے موقع پر پاکستان پیپلزپارٹی کے
حمایت یافتہ مسلم کانفرنس کے امیدوار عثمان عتیق جو سابق وزیراعظم
آزادکشمیر سردار عتیق احمد خان کے فرزند اور سابق صدر ووزیراعظم سردار
عبدالقیوم خان کے پوتے ہیں انہیں دس ہزار کے قریب ووٹوں سے جب شکست کا
سامنا کرنا پڑا تو ”نواب شاہ پلان “سامنے آگیا آج کے اخبارات میں اگرچہ
چوہدری لطیف اکبر وزیر خزانہ کی طرف سے ان خبروں کی تردید کی گئی ہے لیکن
اس انداز میں کہ بقول غالب کہنا پڑتاہے
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
کرتے ہیں قتل ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
قارئین ہم نے وزارت عظمیٰ کے گزشتہ انتخاب کے موقع پر کالم ”وزارت عظمیٰ
برائے فروخت “لکھا تھا جس پر بہت لے دے ہوئی تھی اور ہمیں ہلکا سا اندازہ
اب بھی ہے کہ موجودہ کالم پر بھی کچھ لوگ تلملائیں گے ،غصہ کریں گے ،ہمار
اہاتھ یا بازو مروڑنے کی کوشش کریں گے اور آخر میں چپ سادھ لیں گے لیکن
اپنے ضمیر کے مطابق جس چیز کو ہم سچ سمجھتے ہیں وہ لکھتے رہیں گے ۔قرآن پاک
میں اللہ تعالیٰ بار بار پوری انسانیت کو غور کرنے اور فکر کرنے کی ہدایت
دیتے ہیں قرآن پاک کے مختلف مضامین میں پچھلی قوموں کے احوال بیان کیے گئے
ہیں ان اقوام میں قوم ِ لوط سے لے کر بنی اسرائیل تک کے واقعات عبرت کی
داستانیں ہیں یہ اقوام کیوں تباہ وبربادہوئیں تاریخ پڑھنے کی ضرورت نہیں
صرف آج کے حالات دیکھ لیں ان قوموں جیسی تمام بیماریاں آج ہمارے معاشرے میں
سرایت کرچکی ہیں ہم بددیانت ہیں ،جھوٹے ہیں ،بے راہ رو ہیں ،کم تولنے والے
ہیں ،ملاوٹ کرنے والے ہیں ،وعدہ خلاف ہیں او ریہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسے ہی
حکمران نصیب ہوتے ہیں جیسا ہمار اقومی کردار ہے یعنی ہم پنجابی محاورے کا
اردو میں ترجمہ کریں تو یوں کہیں گے
”جیسی روح ویسے فرشتے “(پنجابی میں جیسا منہ ویسی چپیڑ یعنی جیسا منہ ویسا
تھپڑ )
قارئین اگر نواب شاہ پلان نامی کوئی چیز وقوع پذیر ہوئی تو پاکستان
پیپلزپارٹی یاد رکھے کہ اس کی تباہی کی بنیاد وہیں پر رکھ دی جائے گی او
رکشمیر سے شروع ہونے والا احتجاج کا سلسلہ پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں
لے لے گا ۔چوہدری لطیف اکبر اورہم نواجس طریقے سے اس بات کی تردید کررہے
ہیں غالب ہی کی زبان میں ہم کہیں گے
سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
جلوہ زار ِ آتش ِ دوزخ ہمارا دل سہی
فتنہ ءشور ِ قیامت کس کی آب وگل میںہے
قارئین آج کشمیری قیادت بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ،سردار عتیق احمد خان
،سردا رخالد ابراہیم ،سردار سکندرحیات خان ،راجہ فاروق حید رخان ،شاہ غلام
قادر اور دیگر کا یہ فرض بنتاہے کہ وہ ایک جگہ بیٹھ کر اس زہریلے منصوبے کو
ناکام بنائیں اور چوہدری یاسین جن کا اس حوالے سے نام لیا جارہا ہے انہیں
چاہیے کہ وہ بذات خود اس کی تردید کرکے اپنے صاف ستھرے دامن کو کسی بھی داغ
دھبے سے بچائیں چوہدری یاسین انتہائی سنجیدہ ،مدبر اور دیانت دار سیاستدان
ہیں ہمیں امید ہے کہ وہ اس گناہ بے لذ ت سے بچیں گے اور نواب شاہ پلان صرف
سکینڈل کی حدتک محدود رہے گا فریال تالپور اور رضوان قریشی کانام آزادکشمیر
کی سیاست میں زورو شور سے گونج رہا ہے یہ گونج اپنی جگہ پر بے شک برقرار
رہے لیکن خدارا کشمیر کی سرزمین کو خریدوفروخت اور ایمان کی منڈی نہ بنایا
جائے ہادیء برحق حضرت محمدﷺ نے فرمایاتھا کہ ”انسان کا پیٹ قبر کی مٹی ہی
بھر سکتی ہے “کروڑوں یا اربوں روپے کے سودے کرنے والے یاد رکھیں کہ قارون
اپنے ڈھیروں خزانوںسمیت سرزمین مصر میں مٹی کاحصہ بن چکاہے اور آپ نے بھی
اسی مٹی کی خوراک بنناہے اپنی قبر کو دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا مت
بنائیں ہمارے ایک دوست ڈاکٹر سی ایم حنیف اکثر کہاکرتے ہیں ”وقت اچھا ہو یا
برا گزر جاتاہے انسان کو چاہیے کہ اپنے کردار کوکبھی نہ گرائے کیونکہ وقت
تو گزر جائے گا لیکن کردار میلا ہوگیا تو تاریخ کا حصہ بن جائے گا ۔۔۔بقول
اقبال
کہتاہے زمانے سے یہ درویش ِجوانمرد
جاتاہے جدھر بندئہ حق تو بھی ادھر جا
میں کشتی وملاح کو محتاج نہ ہوں گا
چڑھتا ہوا دریا ہے اگر تو تو اتر جا
توڑا نہیں جادو مری تکبیر نے تیرا ؟
ہے تجھ میں مکر جانے کی جرات تو مکر جا
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
مریض نے ڈاکٹر سے کہا کہ جناب میں اس بیماری سے اتنا تنگ آچکاہوں کہ جی
چاہتاہے کہ اپنا خاتمہ کرلوں
ڈاکٹر نے برجستہ کہا
”ارے نہیں بھائی آپ ایسا نہ کیجئے گا آخرمیرا تجربہ کس دن کام آئے گا “
قارئین لگتاہے کہ ہماری بیمارقوم پر بھی ہمارے مسیحا سیاستدان کچھ ایسے ہی
تجربات کررہے ہیں
”اے آنکھوں والوتم دیکھتے کیوں نہیں ہو “امیدہے کہ ہماری گزارشات درد دل سے
سنی جائیں گی ۔۔۔ |