پاکستان میں 1970ء کی دہائی کے شروعات میں لاہور اُس وقت
احتجاجی تحریکوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ ڈکٹیٹر ایوب خان کی حکومت ختم
ہوجانے کے بعد بھی جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی اس ہی لاہور شہر کی سڑکوں
اور بازاروں میں ’نظریاتی جنگیں‘ لڑتے رہے۔ بھٹو دور حکمرانی کے قیام کے
بعد ’بنگلہ دیش نامنظور‘ کے علاوہ بھی کئی تحریک کو سختی سے کچلنا پڑا۔
7مارچ 1977ء کے انتخابات کے بعد مگر پیپلز پارٹی کی انتخابات میں دھاندلی
کے خلاف تحریک چلی تو اسے ریاستی قوت سے اُس وقت قابو میں لانا تقریبا
ناممکن ہوگیا تھا . دنیا بھر کے اُس وقت انٹرنیشنل پرنٹ میڈیا اور
الیکٹرونک میڈیا یعنی ریڈیو جس میں بی بی سی، وائس آف امریکہ، آ کاش وانی ،
وغیرہ کے ذریعے بھٹو حکومت کے خلاف تحریک کی خبروں کی رواداد عوام کو ان
ریڈیو چینل سے دئی جاتیں تھیں. اس وقت جماعت اسلامی کی قیادت میں دیگر شریک
اتحادی جماعتیں اپنے جلسوں اور ریلی وغیرہ سے اُس وقت پی پی کی حکومت کے
خلاف بڑے بڑے شہروں میں برسرپیکار احتیجاج مظاہرے آئے دن بڑے زور سے کررہی
تھی، جبکہ دارالحکومت اسلام آباد بقیہ پاکستان سے ایک طرف خاموش وبے جان
جزیرہ عوام کے سامنے نظر آرہا تھا.
فقط ’ایکشن‘ دیکھنے کی تمنا میں بھٹو حکومت کے خلاف مارچ 1977ء سے جولائی
1977ء تک جماعت اسلامی و مُشترکہ اتحادی جماعتیں آئے دن حکومت کے خلاف اپنی
قوت کا مُظاہرہ کررہی تھیں. تحریک کے دوران لاہور اور کراچی و حیدرآباد اور
مُلتان جیسے شہروں میں جماعت جوش و جذبہ کے ساتھ اپنا اثر عوام میں اُجاگر
کررہی تھی اور ان بڑے شہروں میں اس جماعت کا اپنا دبدبہ بھی قائم ہورہا تھا.
دارالحکومت اسلام آباد بنے سے پہلے کراچی میں احتجاجی جلوس بآسانی وزیر
اعظم کے دفتر کے باہر پہنچ جایا کرتے تھے۔ حکومتی نظام ان جلوسوں کی وجہ سے
اکثر مفلوج ہوجاتا تھا.
جبکہ 1960ء کی دہائی میں آباد کیے گئے اسلام آباد کے محلوں اور شاہراہوں
کا ماہرین تعمیرات سے اسلام آباد کے تعمیراتی ڈیزائن کا اگر جائزہ لو تو
آگہی ہوئیگی کہ اس شہر کی تعمیر میں یہ خواہش مضمر ہے کہ احتجاجی جلسے اور
جلوس بآسانی کنٹرول کیے جاسکیں۔ یہ شہر روایتی محلے داری کی یگانگت سے
محروم بنیادی طورپر سرکاری ملازمین کا شہر ہی نظر آتا ہے جو پاکستان کے
مختلف شہروں سے یہاں آکر آباد ہوئے ہیں۔ جو اپنے روزگار کے سلسلے میں اپنے
کام سے کام رکھنے والے افراد کی اکثریت نمایاں نظر آتی ہے،
اسی ہی شہر میں جماعت اسلامی اور ان کے آتحادی جماعت نو ستارے کی پی این اے
تحریک کے دوران اقتدار پر قابض ڈکٹیٹر جنرل ضیاء مرحوم کے مارشل لاء کے چند
ہی ماہ بعد مسلکی وجوہات کی بنیاد پر ایک طویل دھرنا بھی دیا گیا تھا۔ اُس
وقت مظاہرین کو ریاستی قوت سے نہیں بلکہ مذاکرات کے ذریعے ان کے مطالبات کی
منظوری کے بعد گھر لوٹنے ہر حکمرانوں نے راضی کیا تھا۔ 1990ء کی دہائی کے
اختتام تک اس کے بعد اس طرح کے دھرنے اسلام آباد میں بہت کم نظر آئے ۔ رواں
صدی کی دوسری دہائی کے آغاز میں البتہ امپورٹیڈ علامہ طاہر القادری نے کسی
کے اشارے پر سیاست نہیں ریاست‘بچانے کے لیے اس ہی شہر میں طویل دھرنا دیا،
بعدازاں، وہ چند ماہ کے لیے کسی کہ کہنے پر کزن بھی ہوگئے اور 2014ء میں
تحریک انصاف اور ان کی جماعت نے طویل دھرنا دیا اور دنیا بھر میں اسلام
آباد میں ان دھرنوں سے صرف اور صرف مُلک کی جگ ہنسائی ہوئی کہ دارالحکومت
میں جس طرح کا کلچر ( دھوبی گاٹ، گندگی کا ڈھیر، کچرے کے پہاڑ وغیرہ) نے
دارالحکومت کا نقشہ انٹرنیشنل پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا آئے دن دنیا میں
دیکھایا اور شہر اسلام آباد کا تمسخر اُڑایا جاتا تھا. مذکورہ دھرنوں کے
بعد سے اسلام آباد اب دھرنوں کے لیے ڈیزائن ہوا وا شہر ہی دکھائی دے رہا
ہے۔ تقریباً ہر دوسرے تیسرے مہینے اب یہ شہر راولپنڈی سے کٹ جاتا ہے۔ اس کی
بے پناہ انداز میں پھیلی آبادی کو اپنے دفاتر یا روزمرہ کے دیگر فرائض سے
نبردآزما ہونے کے لیے شاہراہوں کے بجائے ’چورراستوں‘ سے معمول سے کم از کم
دو گنا وقت میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچنے میں صرف کرنا پڑتا ہے۔
جبکہ گذشتہ مہینہ ہی تحریک لبیک نے اسلام آباد کو تقریباً 5 دنوں تک مفلوج
رکھا۔ جمعہ اور ہفتے کے دن سے یہ شہر جماعت اسلامی کی احتجاجی تحریک کا
یرغمال بنا ۔ جماعت اسلامی کے نئے امیر نے نہایت ذہانت و ہوشیاری سے بجلی
کے ناقابل برداشت بلوں سے نجات اپنی تحریک کا اولین ہدف ٹھہرایا ہے۔ ان کے
لگائے شونے تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک سے ’رونق‘ بری طرح اچک لی۔ عوام
کے لیے اہم ترین اور ناقابل برداشت مسئلہ کے حل کے لیےجماعت نے اپنے آپ کو
عوام میں کیش کرانے کا بہترین مواقع ملتے ہی عوام کو دھرنے پر راضی کرنے پر
جذبات سے بھرپور عوام کے ( دلوں پر بھی دھرنا دیا ) مگر اس طرح کے دھرنے
اور احتجاج کسی کی سیاسی پوزیشن کو پیچھے دھکیلنے کو اپنی جماعت کی کامیابی
نہیں کہلاتی بلکہ عوام سے وہی 1977 والی غلطی کا ایک پیش خیمہ بنتی نظر
آرہی تھی جو آمریت کا راستہ کھولتی مگر جماعت اسلامی نے اس دفعہ دھرنا ختم
کرکے اپنی شروعات تین چار دن کی عوامی پزیرائی کوئی ہی اپنی کامیابی سمجھ
بیٹھی مگر آہستہ آہستہ ایسے عوامی عدم دلچسپی و بیزاری کا اظہار نمایاں نظر
آنے لگا پھر وہی ہمیشہ کی طرح ن لیگ سے ایک دو سیٹ پر سیٹ ایڈجیسمنٹ کا (
ماہر ) کواشارہ دیا گیا جس نے ہمیشہ کی طرح خوش اسلوبی سے دھرنے کے اختیتام
کو اپنی جماعت کی کامیابی کی طرف پہلا قدم کا علی اعلان کردیا جس مقصد یعنی
( الیکٹرک بلز) جس کے لیے اتنا بڑا دھرنا کا اسٹیج سجایا تھا وہ 24 گھنٹے
سے پہلے ہی دو روپیہ سے زائد یونٹ اضافہ کی صورت میں جماعت کی رہی سہی عزت
کو بھی پلانٹیڈ دھرنے کی صورت میں ہر محفل میں بازگشت سُنائی کا موجب خاص
بنا اب حافظ صاحب کو اپنی ہی جماعت میں ان کرداروں کو اسٹیج سے عزت و
احترام سے رخصت سفر کردینا چاہیے نہیں تو جماعت کو یہی کردار ( میاں طفیل
مرحوم ) والی جماعت جو کئی برس کے بعد حافظ نعیم اور ان جیسے جوان رفقاؤں
نے ٹریک پر ڈالدیا ہے کہیں یہ سینئیر حضرات ان سے ایسی کوئی سنگین غلطی
کرواکے منصورہ سے واپسی کا رخصت سفر نہ بندوادیں جیسے جوش جذبات کے متمنی (
منور حسن مرحوم ) سے کرائیگا کیونکہ ہر سیاسی جماعت ہو یا مذہبی جماعت اُن
میں ایسے لوگ بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں جو حافظ نعیم کی طرز سیاست کو اپنی
اپنی جماعتوں میں ایک آنکھ نہیں بھاتی حافظ نعیم جیسے لوگ اگر جماعتوں میں
یا حُکمرانی میں آگئے تو ان کی جماعت کے مفاد پرست لوگوں کے مفاد کو دھچکہ
لگے گا پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں آج پاکستان کو اس حال میں پہنچانے
والے ہر حکمراں جماعت کے مفاد پرست لوگ ہی کے منافقانہ سیاست نے پاکستان کو
کبھی سیاسی ٹریک پر نہیں آنے دیا آج جنوبی ایشیاء میں پاکستان کی سیاسی،
معاشی ، خارجی، داخلی پوزیشن سب سے کمزور ہے. اب بھی موقع ہے کہ ہماری ہر
سیاسی و مذہبی جماعتیں صیح وقت پر صیح فیصلے کرکے مُلک اور عوام کو آئے دن
کے بحرانوں سے نکال کر ایسے ترقی کی طرف رواں دواں کرسکتی ہیں.
|