کیا پلاسٹک انسان کو کھا جائے گا

کیا پلاسٹک انسان کو کھا جائے گا

ایوان اقتدارسے

پلاسٹک اپنے وجود کے تمام عرصہ میں صحت مند ماحول، زندگی، صحت، خوراک، پانی اور اچھے معیار زندگی کے حقوق کو کیسے نقصان پہنچاتا ہے۔پلاسٹک کی پیداوار کے نتیجے میں خطرناک مادے خارج ہوتے ہیں اور اس کی تقریباً تمام تر پیداوار معدنی ایندھن کے ذریعے ہوتی ہے جبکہ پلاسٹک میں بذات خود ایسے زہریلی کیمیائے مادے پائے جاتے ہیں جو انسانوں اور فطری ماحول کے لئے خطرہ بنتے ہیں۔ مزید برآں ایک مرتبہ استعمال کے بعد پھینک دیا جانے والا 85 فیصد پلاسٹک زمین میں دبا دیا جاتا ہے یا اسے ماحول میں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔علاوہ ازیں، پلاسٹک کو جلانے، اسے ری سائیکل کرنے اور دیگر ”غلط اور گمراہ کن طریقے“اس خطرے کو اور بھی بڑھا دیتے ہیں اور پلاسٹک، اس کے باریک ذرات اور اس میں موجود خطرناک مادے ہماری خوراک، پینے کے پانی اور ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں جس میں ہم سانس لیتے ہیں۔
پلاسٹک کی تھیلیوں کے ساتھ ساتھ پلاسٹک سے بنی اشیاءکا استعمال تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ یہ موجودہ دور کا ایک سنگین المیہ ہے۔ اس کے تدارک میں خاتون خانہ اہم ذمہ داری ادا کرسکتی ہے۔ پلاسٹک کی وجہ سے ماحول کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اسکے تعلق سے بیداری پیدا کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔پلاسٹک کی تھیلیاں اور پلاسٹک سے بنی اشیاءکا استعمال ایک ایسا مرض ہے جس میں ہر کوئی مبتلا ہے۔ ان کے استعمال کے مضر اثرات سے ہم سبھی واقف ہیں اس کے باوجود ہر کوئی اسے استعمال کرتا ہے۔ ہم اپنا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ہم معمولی سی معمولی کام کیلئے بھی پلاسٹک پر منحصر ہے۔ یہاں تک کہ خریداری کا تصور بھی ان کے بغیر ناممکن ہے۔ کیونکہ خریداری اور پلاسٹک کی تھیلیاں ایک دوسرے کے لازم و ملزم ہیں۔ پلاسٹک کی تھیلیوں کے ساتھ ساتھ پلاسٹک سے بنی اشیاءکا استعمال تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ یہ موجودہ دور کا ایک سنگین المیہ ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے تدارک میں خاتون خانہ اہم ذمہ داری ادا کرسکتی ہے۔ پلاسٹک کی وجہ سے ماحول کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اسکے تعلق سے بیداری پیدا کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
بیداری پیدا کرنے کے نام پر ایک بھونڈا مذاق ہوتا ہے۔ جب حالات زیادہ سنگین ہوجاتے ہیں تو انتظامیہ کی جانب سے ان پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ استعمال پر دکانداروں پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ یہ تعمیر کے بجائے تخریب کا سبب بنتا ہے۔ دکاندار بھی تھیلیاں چھپا کر رکھتے ہیں۔ خریدار بھی جہاں چوری چھپے تھیلیوں میں سامان ملتا ہے وہیں سے خریدنا پسند کرتے ہیں۔ کچھ وقت کیلئے محتاط ضرور ہوجاتے ہیں۔ پھر لوگ گھروں سے کپڑے کی تھیلیاں لے کر جاتے ہیں۔ دکاندار بھی چیزیں کاغذ کی تھیلیوں میں دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ قلیل مدت تک جاری رہتا ہے۔اس مسئلہ کا حل زور زبردستی سے نہیں بلکہ لوگوں کو ذہنی طور پر راضی کرانے ان کی رضا مندی میں ہے۔ اس کے بغیر کوئی بھی قانون کوئی بھی جرمانہ کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔ پلاسٹک کے نقصانات کے بارے میں بتا کر اور لوگوں کی ذہن سازی کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔ ان کے نقصانات کو اشتہارات کے ذریعے عوام تک پہنچائے جاسکتے ہیں۔ ان کی تباکاریوں کے پوسٹرس عوامی جگہوں پر چسپاں کیا جاسکتا ہے۔ یہ طریقے عوام کو شعوری طور پر بیدار کرنے میں کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔
پلاسٹک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ سالہا سال زمین میں رہنے کے باوجودڈی کمپوز یعنی سڑتے گلتے نہیں ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے اس کے ذرات زمین کو آلودہ کرنے کے ساتھ ساتھ زمین کی زرخیزی کو کم کردیتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ یہ کم قیمت میں تیار ہوتے ہیں لیکن ان کی ری سائیکلنگ مہنگی ہوتی ہے۔ اس لئے پلاسٹک کی تھیلیوں کو اور اس کی بنی اشیاءکو پھینک دیا جاتا ہے جو انتہائی نقصاندہ ہوتا ہے۔
ایک سروے کے مطابق، دریاﺅں اور سمندروں میں ہر سال ہزاروں ملین ٹن کا پلاسٹک کا ملبہ پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ سمندری جانداروں کیلئے خطرناک ہوتا ہے۔ سمندری جاندار اس پلاسٹک کے ملبے کو غذا کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس سے ان کی موت ہوجاتی ہے۔
اکثر و بیشتر پلاسٹک کی تھیلیاں، بوتلیں نالوں اور گٹروں میں پھنس جاتی ہیں جس کی وجہ سے پانی کا نکاس نہیں ہوپاتا اور بارش کے اوقات میں سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ پلاسٹک کا کم سے کم استعمال کریں۔ خواتین کو چاہئے کہ وہ اس کی شروعات اپنے گھر سے کریں اور پلاسٹک کے محدود استعمال کو یقینی بنائیں۔ سب سے پہلے خریداری کیلئے کپڑوں کی یا ٹاٹ سے بنی تھیلیوں کو فروغ دیں اور دوسروں کو بھی اس کو ترغیب دیں۔ یہ ایک بہترین اور کارآمد متبادل ثابت ہوسکتا ہے۔ایسی اشیاءجن کو دھو کر صاف کرکے بار بار استعمال کیا جاسکے، کو ترجیح دیں۔ اس سے بچت کرنا آسان ہوتا ہے۔ پلاسٹک کنٹینر کے بجائے کانچ کے ڈبے یا اسٹیل کے کنستر استعمال کئے جاسکتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ الماری میں پلاسٹک کے ہینگرز کی جگہ لکڑی کے ہینگرز کا استعمال کریں۔ پلاسٹک کی کنگھی، کلپس، پنس وغیرہ کے بجائے لکڑی کے ساز و سامان استعمال کریںسبزیاں اور ترکاریوں کو پلاسٹک کے ڈبوں میں رکھنے کے بجائے کانچ یا اسٹیل کے ڈبوں میں رکھ کر فریج میں رکھیں۔ گھر کی چھوٹی بڑی سبھی پلاسٹک کی چیزوں کا جائزہ لیں۔ ان میں جن چیزوں کو فوراً بدلا جاسکتا ہے، بدل لیں۔ البتہ کچھ چیزوں کا متبادل تلاش کرنا ناممکن ہے، ان معاملوں میں صبر سے کام لیں۔ جیسے دودھ پلاسٹک کی تھیلی میں آتا ہے۔ ایسی صورت میںدودھ کو فوراً پتیلی میں نکال کر دودھ گرم کرلیں۔ اگر دودھ کو فریج میں محفوظ رکھنا ہے تو کانچ کی بوتل استعمال کی جاسکتی ہے۔ یقینا ً آپ اپنے گھر کو مکمل طور پر پلاسٹک فری نہیں کرسکتیں مگر چھوٹے چھوٹے قدم ضرور اٹھا سکتی ہیں۔
Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 20 Articles with 13722 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.