انٹرنیٹ کے حالیہ مسائل سے فری لانسرز کی مشکلات میں اضافہ”

اس وقت انٹرنیٹ کے حالیہ مسائل سے کلائنٹ کم ہو رہا ہے، فری لانسر کا تو نقصان ہی ہے مگر یہ پیسا ملک میں ہی آ رہا تھا، یہاں لوگوں کا عزت سے روزگار لگا ہوا ہے، مگر اس وقت جو اصل نقصان تو حکومت کا ہے.

پاکستان میں گذشتہ چند ہفتوں سے جدھر بھی جائیں ایک شکایت تو ضرور سننے کو ملتی ہے، اور وہ زیادہ تر یہ بات سامنے آرہی ہوتی ہے کہ اب ’واٹس ایپ نہیں چل رہا‘، ’انٹرنیٹ بہت سلو ہو گیا ہے۔

ملک میں اگر آپ اپنے فون سے کسی کو خصوصاً موبائل ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے واٹس ایپ کے ذریعے وائس نوٹ یا کوئی تصویر بھیجنے کی کوشش کریں، تو عین ممکن ہے کہ یہ اگلے صارف تک پہنچے ہی نہیں یا اگر آپ وصول کرنے والے ہوں تو یہ ڈاؤن لوڈ ہی نہ ہو۔

اس وقت پاکستان کی ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اس حوالے سے خاموش ہے اور تاحال اس بارے میں کوئی واضح مفضل جواب موجود نہیں ہے.اس وقت پاکستان اور دیگر پڑو انٹرنیٹ فائر وال لگائی گئی ہے جس کی وجہ سے سوشل میڈیا ایپلیکیشنز چلانے میں مسئلہ آ رہا ہے۔

واضح رہے کہ انٹرنیٹ فائر وال بنیادی طور پر کسی بھید ملک کے مرکزی انٹرنیٹ گیٹ ویز پر لگائی جاتی ہیں جہاں سے انٹرنیٹ اپ اور ڈاؤن لنک ہوتا ہے اور اس نظام کی تنصیب کا مقصد انٹرنیٹ کی ٹریفک کی فلٹریشن اور نگرانی ہوتی ہے۔ اس نظام کی مدد سے ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود مواد کو کنٹرول یا بلاک کیا جا سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ فائر وال سسٹم کی مدد سے ایسے مواد کے ماخذ یا مقامِ آغاز کے بارے میں بھی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

تاہم اس سب کے بیچ میں پاکستان اور دنیا بھر میں فری لانسنگ کے لیے مشہور پلیٹ فارم فائیور کا ایک نوٹ گردش کرنے لگا جس میں پاکستان میں موجود فری لانسرز کی پروفائل پر یہ لکھا گیا کہ ان کے ملک میں انٹرنیٹ کی بندش ہے اس لیے ان کی جانب سے کیا گیا کام تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش کا معاملہ نیا نہیں ہے اور مختلف مواقعوں پر اس کی بندش کی جا چکی ہے۔ ایسا اکثر سکیورٹی وجوہات کے باعث کیا جاتا رہا ہے جیسے نویں اور دسویں محرم کو جبکہ گذشتہ ایک سال کے دوران فروری کے عام انتخابات سے قبل پاکستان تحریکِ انصاف کے ورچوئل جلسوں کے دوران یہ بندش دیکھنے کو ملتی تھی جبکہ انتخابات کے بعد سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ملک میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

تاہم اس مرتبہ انٹرنیٹ کی ڈی گریڈیشن اور واٹس ایپ کے استعمال میں شدید مسائل نے بیرونِ ملک کی کمپنیوں کے ساتھ پاکستان میں بیٹھ کر کام کرنے والوں اور انفرادی کلائنٹس کے ساتھ فری لانسنگ کرنے والوں کی مشکلات میں بے حد اضافہ کر دیا ہے۔

لاہور میں آن لائن مارکیٹنگ کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ملک میں انٹرنیٹ کی حالیہ ڈاؤن گریڈیشن اور بار بار بندش کے باعث مشکلات کے بارے میں آئی ٹی کمپنیوں کو گذشتہ چند ہفتوں سے سامنا ہے۔
’اس وقت کے دوران مختلف پلیٹ فارمز تک رسائی میں بہت مشکل پیش آ رہی ہے اور جبکہ مختلف کمپنیوں کا کام بھی اس نوعیت کا ہے کہ اس میں مختلف پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے کام کیا جاتا ہے۔

یہ مسئلہ صرف بیرونِ ملک کلائنٹس تک ہی محدود نہیں ہے، اور اس میں مسائل کا سامنا ہے، اسی طرح سلو انٹرنیٹ کی وجہ سے بھی مسائل آ رہے ہیں۔‘ جبکہ کچھ کمپنیوں کے پاس تو انٹرنیٹ کے بیک اپ آپشن بھی موجود ہیں جو دیگر انٹرنیٹ سروسز کے مقابلے میں بہتر سروس فراہم کر رہے ہیں کیونکہ اب یہ مسئلہ صرف موبائل ڈیٹا تک محدود نہیں ہے۔

، جب کمپنیوں کے کلائنٹس کم ہوں گے تو اس کا نقصان براہ راست حکومت کو ہی ہوئیگا، کیونکہ ملک میں جو سرمایہ آ رہا ہے وہ کم ہو جائے گا اور عالمی مارکیٹ میں کلائنٹس پاکستان کے فری لانسرز کو ایک آپشن کے طور پر نہیں دیکھیں گے۔‘ فی الحال تو اس کا واحد حل وی پی این کا استعمال ہی ہے۔صرف ایک دو کمپنی ہی نہیں بلکہ متعدد ایسے شعبے ہیں جن میں کووڈ کے بعد سے آن لائن کام کرنا کی شروعات اُس وقت سے ہی ہوگئی تھی ۔ اسی طرح آن لائن ٹیکسی سروس فراہم کرنے والی موبائل ایپس کا استعمال کرنے والے افراد بھی اسی کرب کا شکار ہیں۔ان ڈرائیو ایپ کے تحت ہر بڑے شہر میں گاڑی چلانے والے اکثر ڈرائیور اس حوالے سے شکایت کرتے نظر آئے لنکڈ ان پر نظر دوڑائیں تو ایسی بے شمار پوسٹس موجود ہیں جن میں پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ ایسے ہی مختلف پیشے سے تعلق رکھنے والے اس وقت سب ہی مُشکل میں ہیں.

جبکہ ’پاکستان میں انٹرنیٹ کا مسئلہ کافی دیر سے چل رہا ہے اور اب یہ بہت سے مسائل کا باعث اور رکاوٹ بنتا جا رہا ہے۔ ایسا متعدد مرتبہ ہوا ہے کہ کلائنٹس کے ساتھ بات کرتے ہوئے کنکشن کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ’امید ہے کہ حکام اس مسئلے کے حل کے لیے کچھ کر رہے ہیں کیونکہ اگر یہ مسئلہ طویل مدت کے لیے رہا تو آن لائن روزگار کمانے والوں کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔‘ دیگر فری لانسرز کے مطابق اس مسئلے کا اس وقت ’ہمارے پاس حل وی پی این ہی ہے۔‘ تاہم پی ٹی اے کی جانب سے وی پی اینز کی رجسٹریشن کے عمل کا بھی آغاز کرنے کے اعلان کیا گیا ہے.

اس بارے میں سائبر سکیورٹی اور انٹرنیٹ کے مسائل پر گہری نظر رکھنے رکھے ہوئے ہیں. ۔ اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ حکومت پاکستان انٹرنیٹ فائروال لگائے جانے کے بعد اب وی پی این کو کیوں ریگولیٹ کرنا چاہتی ہے اور کیا ایسا ممکن بھی ہے؟وی پی این دراصل ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک ہے جو عام طور پر انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال کے لیے کام آتے ہیں۔ ’آج سے پہلے عام لوگوں کو یہی پتا تھا کہ وی پی این کوئی غلط چیز جسے خطرناک مواد اور ایسی سائٹس جن پر پاکستان میں پابندی ہے تک رسائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاہم اب ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کی بندش کے بعد سے لوگوں میں اس حوالے سے آگاہی بڑھی ہے۔’وی پی این دراصل ہماری شناخت چھپا لیتا ہے اور یہ بھی کہ ہم کہاں بیٹھ کرانٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں،

اس طرح پبلک انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے جہاں ہمیں مختلف سائبر حملوں کا سامنا ہو سکتا ہے وی پی این استعمال کرتے ہوئے ایسا نہیں ہوتا۔‘ اسی طرح آپ وی پی این کے ذریعے ایسی ویب سائٹس اور مواد تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں جو عام طور پر ممکن نہیں ہوتی ہے۔ تاہم وہ مشورہ دیتے ہیں کہ ’اچھا وی پی این استعمال کرنا بھی اہم ہے اور اس حوالے سے ’پیڈ‘ یعنی معاوضے کے عوض وی پی این کا استعمال بہتر رہتا ہے۔ مفت وی پی این آپ کے لیے مسائل کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔‘رواں برس مارچ میں وی پی این کی سروسز فراہم کرنے والی سوئٹزرلینڈ کی ملٹی نیشنل کمپنی پروٹون نے کہا تھا کہ پاکستان میں گذشتہ ایک سال کے اندر وی پی این کے استعمال میں چھ ہزار فیصد اضافہ ہوا۔پاکستان میں رواں برس فروری سے ایکس پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

گذشتہ ماہ وزارتِ داخلہ نے سندھ ہائیکورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں ایکس کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے جواب دیا تھا کہ ملک میں ایکس بحال نہیں ہو سکتا۔وزارتِ داخلہ نے جواب میں مزید کہا تھا کہ ’ایکس پر ملکی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مواد اپ لوڈ کیا جاتا ہے،

ایکس ایک غیر ملکی کمپنی ہے جس سے متعدد بار کہا گیا کہ قانون پر عمل کرے۔‘جواب کے مطابق ’وزارت داخلہ کے پاس عارضی طور پر ایکس کی بندش کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ 17 فروری کو وزارت داخلہ نے ایکس فوری طور بند کرنے کو کہا تھا۔‘تاہم وی پی این کے ذریعے ایکس تک رسائی ممکن ہے اور پاکستان میں اکثر افراد اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم پی ٹی اے چیئرمین نے رواں ماہ کے آغاز میں ایک پارلیمانی کمیٹی کو بتایا تھا کہ وی پی اینز کی وائٹ لسٹنگ اور چند وی پی اینز کو ملک میں بلاک کرنے کے لیے پالیسی وضع کی جا رہی ہے جس کے بعد صرف رجسٹرڈ وی پی این ہی پاکستان میں کام کر سکیں گے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں وی پی این کو ریگولیٹ کرنے کی یہ پہلی کوشش نہیں ہے۔ اس سے قبل 2010 ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس ریگولیشن اور 2022 کی رجسٹریشن ڈرائیو کے ذریعے یہ کوشش کی جا چکی ہے۔ سائبر سکیورٹی ماہر کے مطابق ’حکومت نے اگر وی پی این کو رجسٹر کرنا ہے تو اس کے لیے اسے انٹرنیٹ فراپم کرنے والی کمپنیوں یعنی انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز (آئی ایس پیز) کے تعاون کی ضرورت ہو گی۔ تاہم نہ تو وی پی اینز پر مکمل طور پر پابندی لگائی جا سکتی ہے اور نہ ہی انھیں پوری طرح رجسٹر کرنا ممکن ہے۔ ’وی پی اینز اوپن سورس بھی مارکیٹ میں موجود ہیں اس لیے انھیں مکمل طور پر بند کرنے سے فائدہ نہیں ہو گا۔ ’وی پی اینز کی وائٹ لسٹنگ کی وجہ یہی ہے کہ نگرانی کی جا سکے کہ کون کیا کر رہا ہے اور یہ نگرانی اس طرح ممکن ہو گی کہ حکومت ان رجسٹرڈ وی پی اینز پر ڈیٹا پاکستان میں رکھنے کی شرط عائد کر سکتی ہے۔‘تاہم وی پی این کمپنیاں اگر حکومت کو اپنے ڈیٹا تک رسائی فراہم کرتی ہیں تو ممکنہ طور پر ان کی سکیورٹی داؤ پر لگ سکتی ہے، تو ایسا وہ کیوں کرنا چاہیں گی؟ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دو مرتبہ بھی وی پی این ریگولیٹ کرنے کی مہم ناکام ہوئی تھی۔پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’بولو بھی‘ کی جانب سے سنہ 2020 میں لکھے گئے ایک بلاگ میں اسی حوالے سے تفصیل سے بات کی گئی تھی۔ اس میں خبردار کیا گیا تھا کہ اس کے ذریعے حکومت کے پاس لوگوں کو ٹارگٹ کرنے یا ان کی نگرانی کرنے کی صلاحیت آ سکتی ہے جو ڈیٹا پرائیویسی کے ساتھ ساتھ اس کے تحفظ کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

 

انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ: 378 Articles with 158624 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.