واپسی کا راستہ ناممکن؟

ہماری قوم کے پاس سوائے افواہوں کے کچھ نہیں اور تو اور ہم سچی خبروں کو چھوڑ کر جھوٹی اور من گھڑت خبروں پر زیادہ یقین رکھتے ہیں اور تو اور اب ہمار ذمہ دار میڈیا بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا شروع ہو چکا ہے ایک دوسرے کو بدنام کرنے کی خبروں کی پیچھے ہم اصل خبروں کو بھی بھول جاتے ہیں جبکہ پڑھی لکھی اور تہذیب یافتہ قوم اصل خبروں کا پیچھا ہی نہیں کرتی بلکہ انہیں انکے انجام تک بھی پہنچا کر آتی ہے ہم چونکہ علم حاصل کرتے ہیں نوکریوں کے لیے ،مفادات کے لیے یا پھر اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر ،انجینئر ،پروفیسر اور مفتی لکھوانے کے لیے ہمارا تعلیم میں اس وقت کیا حشر ہے اس پر لکھنے سے پہلے دو چھوٹی سی خبروں پر توجہ چاہتا ہوں اور پھر ہمیں اپنا احتساب بھی کرلینا چاہیے کچھ دن پہلے وزیرمعدنیات شیرعلی گورچانی کی ٹیلی فون پرمک مکا کی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں صوبائی وزیر معدنیات نے فون پر کان عباد کو دینے کی یقین دہانی کروا تے ہوئے کہا تھا کہ آپ کو معدنیات کا بلاک نیلامی کے ذریعے دیا جائے گا آپ کے لئے نیلامی کا راستہ نکالا ہے یس او پی نیلامی میں ڈال کر پلاٹ آپ کو دلوائیں گے نیلامی میں پلاٹ کی منظوری آپ کی ہوجائے گی جس پر عباد نے سوال کیا کہ آپ نیلامی کس طرح کریں گے؟ جواب میں شیر علی گورچانی بولے ہم چپ کر کے آپ کو پلاٹ دے دیں گے جو پلاٹ آپ نے کہے ہیں وہی آپ کو دیں گے اتوار کو لاہور آرہا ہوں پیر کو آپ سے ملاقات ہوگی وزیر موصوف اتنی دیدہ دلیری سے کرپشن کی باتیں کررہے ہیں کہ جیسے یہ نیکی کا کام ہو جبکہ انہوں نے اپنے دور ڈپٹی سپیکر میں بھی اپنوں کو خوب نوازا وزیر اعلی پنجاب نے اس معاملہ پر کمیٹی بنا دی ہے جو ابھی تک تو کچھ نہیں کرسکی امید ہے کہ یہ خبر بھی بہت جلد عوام کی یاد داشتوں سے غائب ہو جائیگی یہ ہے ہماری قوم کا حال اب دوسری خبر پر آتے ہیں کوئی دو دن پہلے ایک ٹی وی چینل نے سابق آئی جی جیل خانہ جات مرزا شاہد سلیم بیگ کے خلاف انکی گرفتاری کی خبر بریکنگ نیوز کے طور پر چلا دی غیر ذمہ داری کی انتہا ہے کہ اس شخص کے خلاف خبر چلائی گئی جو ہر وقت آن لائن رہتا ہے اور ہر کسی کے رابطے میں ہوتا ہے جب وہ آئی جی تھے تو انکا اخلاق اور ملنا جلنا بھی مثالی تھا انکے دور میں میاں نواز شریف بھی کوٹ لکھپت جیل میں قید رہے اور پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنما بھی پابند سلاسل رہے مگر انہوں نے اپنی پیشہ وارانہ کام پر کسی کو حاوی نہیں ہونے دیا اور نہ ہی میرٹ سے ہٹ کر کسی کو کوئی سہولت دلوائی ان کے دور میں جیلوں ، جیلوں میں بندقیدیوں اور جیلوں میں تعینات ملازمین کے لیے بے انتہا کام ہوئے جو محکمہ جیل کی تاریخ میں آج تک نہ ہوسکے اور نہ ہی کوئی کر پائے گا میاں فاروق نذیر بھی ایک بہادر اور مخلص انسان ہیں لیکن کچھ کاموں میں شاہد سلیم بیگ کا مقابلہ نہیں کر پائے جس دن مرزا شاہد سلیم بیگ کے خلاف خبر چل رہی تھی اس وقت مرزا صاحب میرے ساتھ ٹیلی فون پر بات کررہے تھے کہ اچانک انہوں نے کہا کہ یہ کیا خبر چل رہی ہے اور دوبارہ ٖون کرنے کا کہہ کر فون بند کردیا پھر انہوں نے چائے کے کپ کے ساتھ ویڈیو بنا کر جھوٹ کا بھانڈہ پھوڑ دیا خبر چلانے والے نے انہیں ٹیلی فون تک کرنا گوارا نہیں کیا جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتاوہاں اصلی اور جعلی خبروں کا محاسبہ کیا جاتا اور دونوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر دوسروں کے لیے مثال بنا دیا جاتا ہے تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ حرکت نہ کرسکے یہ سب کچھ وہاں اور ان معاشروں میں ہوتا ہے جہاں تعلیم کی شرح زیادہ ہوتی ہے اور ہم تو ویسے بھی شرح خواندگی 137 ویں نمبر پر ہے اگر سکولوں اور کالجوں میں داخلوں کی بات کریں تو اس میں بھی ہم بالترتیب 132 ویں اور 104 ویں ہے اس کا مطلب ہے کہ ہم نظام تعلیم میں دنیا کے آخری نمبروں پر ہیں اور اگر جہالت کا ذکر کریں تو اس میں شائد ہم پہلے نمبروں پر آجائیں قومی اعدادوشمار کے مطابق تعلیم کے لیے کل قومی بجٹ کا بہت کم (صرف 12%) اعلیٰ تعلیم پر جاتا ہے جس کا تقریباً 88% نچلی سطح کی تعلیم پر خرچ ہوتا ہے نچلے تعلیمی ادارے جیسے پرائمری اسکول جہاں بچے ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور بچے کو ایک مضبوط بنیاد فراہم ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں نظام تعلیم ایسا ہے کہ جو بچہ پرائمری سکول میں آتا ہے اساتذہ کے رویوں سے بھاگ جاتا ہے یا پھر اسکے گھر کے معاشی حالات اسے آگے پڑھنے سے روک دیتے ہیں پرائمری ،مڈل اورہائی حصے کو پڑھانے والے اساتذہ خود استحصال کا شکار ہیں 15/20سال تک انکی ترقی نہیں ہوتی جونیئر اساتذہ کو سینئر کے مقابلہ میں پرنسل یا ہیڈ ماسٹر بنا دیا جاتا ہے سکولوں میں بچوں کے لیے تو کیا سٹاف کیلیے کوئی سہولت نہیں ہوتی لاہور کے اکثر سکولوں کے باہر گندگی کے ڈھیر جمع ہیں آج کے ترقی یافتہ دور میں ہم لڑکیوں کے تعلیم کے خلاف ہیں یا پھر وسائل نہ ہونے کے سبب انہیں تعلیم نہیں دلواسکتے اور جو بچے ان سرکاری سکولوں اور یونیورسٹیوں سے پڑھ کر نکلتے ہیں تو پھروہ اپنی ڈگریاں ہاتھوں میں اٹھائے نوکریوں کی بھیگ مانگ رہے ہوتے ہیں خوش قسمتی سے ہم آئی تی کے شعبے میں کچھ کمانے لگے تھے تو ہماری حکومت نے انٹرنیٹ کا بھٹہ بٹھا دیا سست ترین سپیڈ کی بدولت انٹرنیشنل کمپنیاں پاکستان کو چھوڑ کر جارہی ہیں اور ملکی حالات کو دیکھ کر جو کچھ ٹیلنٹ والے لوگ بچ گئے تھے وہ بھی یہاں سے بھاگنے کی کوششوں میں ہیں رہی بات حکومت کی وہ اپنے مخالفین سے انتقام لینے اور بجلی کے بلوں کے زریعے عوام کا خون نچوڑنے میں مصروف ہے اس وقت کسی کو کسی کی کوئی پرواہ نہیں اگر کسی کو پرواہ ہے تو وہ چند لوگ ہیں جو کسی نہ کسی صورت اپنا کام کررہے ہیں ہمیں ضرورت ہے تعلیم کو عام کرنے کی کیونکہ تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے اور جب تک ہم تعلیم سے دور ہیں تب تک ہم ترقی اور خوشحالی سے دور رہیں گے ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺ نے بھی فرمایا تھا کہ علم حاصل کرو خواہ چین جانا ہمارے حکمرانوں نے ہمیں چین توکیا اپنے ہی سرکاری سکولوں میں بھی جانے کے قابل بھی نہیں چھوڑا کیونکہ روایتی تعلیم حاصل کرنا بھی اب غریب کے بچوں کے بس میں نہیں رہا اگر یہی حالات رہے تو پھر کیا بنے گا اور حالات کس طرف جائیں شائد اس بات کا کسی کو اندازہ نہیں کیونکہ جہالت سے بڑھ کر کوئی ہمارا دوسرا دشمن نہیں ہے اور دشمنی میں ہم پہلے ہی بہت آگے جاچکے اتنا آگے کہ جہاں سے واپسی کا راستہ ناممکن ہو جاتا ہے ۔
 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 818 Articles with 566461 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.