وہ قوم پرست رہنما شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی ، جنھیں
بنگلہ دیش کا ’بنگلہ بندھو‘ یعنی ’بابائے قوم‘ قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی
قیادت میں ہی بنگلہ دیش پاکستان سے علیحدہ ہوا تھا اور وہ 1971 میں ملک کے
پہلے صدر بنے تھے۔
بنگلہ دیش کے بابائے قوم کی بیٹی شیخ حسینہ نے تقریباً دو دہائیوں تک بنگلہ
دیش پر حکومت کی اور وہ ملک میں سب سے طویل دورانیے کے لیے وزیراعظم رہنے
والی سیاسی رہنما تھیں ۔
دوران طالب علمی سے ہی شیخ حسینہ نے خود کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایک سٹوڈنٹ
رہنما کے طور پر منوا لیا تھا۔
اپنے آخری ادوار کے دوران حکمرانی شیخ حسینہ کو اکثر بنگلہ دیش کی معیشت کو
ترقی دینے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے لیکن حالیہ برسوں میں ان پر آمرانہ طرز
حکمرانی اختیار کرنے کے الزامات انٹرنیشنل اور نیشنل کے پرنٹ اور الیکٹرونک
میڈیا میں لگتے رہے ہیں۔
سنہ 1975 میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں شیخ مجیب الرحمان اور ان کے خاندان
کے متعدد اراکین کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس حملے میں صرف شیخ حسینہ اور ان
کی چھوٹی بہن ہی بچ پائے تھے کیونکہ وہ اس وقت ملک میں نہیں تھیں۔
شیخ حسینہ نے اس دوران انڈیا میں جلاوطنی کاٹی اور 1981 میں واپس بنگلہ دیش
لوٹیں اور اپنے والد کی جماعت عوامی لیگ کی سربراہ مقرر ہو گئیں۔
جنرل حسین محمد ارشاد کی فوجی حکومت کے دوران دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ
مل کر جمہوریت کی حمایت میں احتجاجی مظاہرے کیے۔
اس تحریک نے شیخ حسینہ کو مقبولیت کی بلندی پر پہنچا دیا اور وہ ایک قومی
رہنما بن کر اُبھریں۔وہ 1996 میں پہلی مرتبہ ملک کی وزیراعظم بنیں۔ اس
دوران انھوں نے انڈیا کے ساتھ پانی کی شیئرنگ کی ڈیل طے کی اور ملک کے جنوب
مشرقی علاقوں میں لڑنے والے عسکریت پسندوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط
کیے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی حکومت پر ( پاکستان حکمرانوں کی طرح ) نہ صرف
کرپشن کے الزامات لگتے رہے بلکہ وہ انڈیا سے زیادہ قربت کی وجہ سے تنقید کا
نشانہ بھی بنتی رہیں۔
سنہ 2001 میں وہ اپنی سابق اتحادی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی رہنما
بیگم خالدہ ضیا سے الیکشن میں شکست کھا گئیں اور انھیں وزیرِ اعظم کا منصب
چھوڑنا پڑا۔
بنگلہ دیش کی سیاست پر یہ دونوں خواتین تقریباً پچھلی تین دہائیوں سے چھائی
رہیں اور انھیں ملک میں ’جنگجو بیگمات‘ کے نام سے پُکارا جتا تھا
بنگلہ دیش آزاد ہونے کے بعد اسکا شمار دنیا کے سب سے زیادہ غریب اور
پسماندہ ممالک میں ہوتا تھا لیکن سنہ 2009 کے بعد شیخ حسینہ کی قیادت میں
ملک کی معیشت میں بہتری آتی ہوئی نظر آئی۔
حالیہ برسوں میں اب اس کا شمار خطے میں سب سے زیادہ تیزی سے آگے بڑھتی ہوئی
معاشی طاقتوں میں ہوتا ہے، جس کی ترقی کی رفتار انڈیا سے بھی تیز ہے۔ ورلڈ
بینک کے مطابق گذشتہ ایک دہائی میں تقریباً ڈھائی کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے
باہر آئے ہیں۔( جبکہ پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد افراد غربت کی لیکر کراس
کرگئے)
ملک میں سب سے زیادہ ترقی کپڑوں یعنی گارمنٹس کے شعبے میں نظر آئی اور
بنگلہ دیش میں بنائے گئے کپڑے کو یورپ، شمالی امریکہ اور ایشیا تک رسائی
ملی۔ ملک کی اپنی دولت، قرضوں اور غیر ملکی اداروں سے معاونت کا استعمال
کرتے ہوئے شیخ حسینہ نے بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کیے، جن میں دو ارب 90
کروڑ ڈالر کی لاگت سے بننے والا ’پدما برج‘ بھی شامل ہے۔ ( جبکہ پاکستان
1971 سے آج تک ایک ڈیم بھی نہ بناسکا)
بنگلہ دیش میں حالیہ پُرتشدد مظاہرے شاید شیخ حسینہ کے سیاسی کریئر کا سب
سے بڑا چیلنج بن گئے تھے اور اس سے قبل ملک میں ہونے والے انتخابات بھی
تنازعات کا شکار ہوئے تھے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی جماعت
لگاتار چوتھی مرتبہ اقتدار میں تو آگئی تھی۔ ان کے استعفے کے مطالبات کیے
جاتے رہے لیکن شیخ حسینہ نے مزاحمت جاری رکھی۔ انھوں نے اپنے بنگلہ دیشی
عوام جو احتیجاج میں حصہ کر رہے تھے ان مظاہرین کو نہ صرف ’دہشتگرد‘ قرار
دیا بلکہ اپیل کی کہ ’ان دہشتگردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔‘( جبکہ
پاکستان کی طرح ) بنگلہ دیش میں بھی سرکاری نوکری کو اچھی تنخواہ کی وجہ سے
کافی اہمیت دی جاتی ہے تاہم تقریباً نصف نوکریاں، جن کی تعداد لاکھوں میں
ہے، مخصوص گروہوں کے لیے مختص ہیں۔سرکاری نوکریوں کا ایک تہائی حصہ ان
افراد کے اہلخانہ کے لیے مخصوص ہے جنھیں بنگلہ دیش میں ’آزادی کی جنگ کا
ہیرو‘ مانا جاتا ہے۔
تاہم ملک میں طلبہ اور دیگر احتجاجی مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ نظام
متعصبانہ ہے ( بالکل سندھ کی طرح ) اور سرکاری نوکری صرف میرٹ کی بنیاد پر
ہی ملنی چاہیے۔ طلبہ کا یہ احتجاج ایک حکومت مخالف ملک گیر تحریک میں بدل
گیا تھا. دنیا میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد بنگلہ دیش میں بھی
جنوبی ایشیاء ملکوں کی طرح مہنگائی بڑھ گئی تھی،
زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہونا شروع ہو گئے تھے اور بیرونی قرضہ تقریباً دو
گنا بڑھ گیا تھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور
غربت کی اصل وجہ شیخ حسینہ کی حکومت کی بدانتظامی ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ماضی میں ملک کی معاشی کامیابیوں کا فائدہ صرف انھیں ہی
ہوا ہے جو عوامی لیگ کا حصہ تھے۔ اس دوران ملک میں انسانی حقوق کی خلاف
ورزیاں ہوتی رہیں اور جمہوریت کا معیار گرتا گیا۔ وہ شیخ حسینہ پر آمرانہ
طرزِ حکمرانی اختیار کرنے کا الزام لگتا رہا
سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم نے اپنے سیاسی مخالفین اور میڈیا پر پابندیاں
عائد کیں۔ شیخ حسینہ اور ان کی حکومت ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ حالیہ
مہینوں میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے سینیئر رہنماؤں اور ہزاروں سیاسی
کارکنان کو شیخ حسینہ کی حکومت نے مخالف مظاہروں کے درمیان گرفتار کیا گیا۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اپنی رپورٹ میں یہی انکا کہنا
ہے کہ سنہ 2009 کے بعد ملک میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ماورائے عدالت
ہلاکتوں اور جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا ۔ شیخ حسینہ کی حکومت ان الزامات
کی دو ٹوک انداز میں تردید کرتی رہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی حکومت
غیر ملکی صحافیوں کو بھی ملک میں ان واقعات کی تحقیقات سے روکتی رہی۔
یونیورسٹی کے ہزاروں طلبہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف کئی ہفتوں
سے احتجاج کررہے تھے. سنہ 1971 میں پاکستان سے علیحدگی کے بعد سے ملک میں
پبلک سیکٹر ملازمتوں کا ایک تہائی حصہ جنگ میں حصہ لینے والے سابق فوجیوں
کے لواحقین کے لیے مختص ہے۔
حسینہ شیخ کی حکومت کے خلاف ’اب صرف طالب علم احتجاج نہیں کر رہے تھے. ایسا
لگتا ہے کہ ہر طبقے کے لوگ احتجاجی تحریک میں شامل ہو گئے ہیں۔‘ یہ لاوا
کافی عرصے سے پورے بنگلہ دیش کے ہر فرد میں پک چکا تھا.جنوبی ایشیا و سارک
ریجن میں بنگلہ دیش دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے
ایک ہے لیکن یہ ترقی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلبا کے لیے ملازمتیں پیدا
کرنے کا سبب نہیں بن سکی۔
تقریباً ایک کروڑ80 لاکھ بنگلہ دیشی نوجوان نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے
پھر رہے تھے. جبکہ کم تعلیم یافتہ افراد کے مقابلے میں یونیورسٹیوں سے فارغ
التحصیل افراد میں بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے۔بنگلہ دیش تیار شدہ کپڑوں کی
برآمدات کا پاور ہاؤس بن گیا ہے۔ یہ ملک عالمی منڈی میں تقریباً 40 ارب
ڈالر مالیت کے کپڑے برآمد کرتا ہے۔ اس شعبے میں 40 لاکھ سے زائد افراد
ملازمت کرتے ہیں جن میں سے زیادہ تر خواتین ہیں۔ لیکن پڑھی لکھی نوجوان نسل
کے لیے فیکٹریوں کی یہ نوکریاں کافی نہیں ہیں۔
بنگلہ دیشی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے 15 سالہ دوران حُکمرانی نے
دارالحکومت ڈھاکہ میں نئی سڑکیں، پل، کارخانے اور میٹرو ریل بنا کر کافی
حد تک ملک کو ترقی کی ٹریک پر لاکر کھڑا کردیا تھا۔ پچھلی دہائی کے دوران
ملک میں فی کس آمدنی تین گنا بڑھ گئی ہے اور عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ
گذشتہ 20 سالوں میں دو کروڑ 50 لاکھ سے زیادہ افراد غربت سے نکل آئے ہیں
اور اب بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ اس میں
سے کچھ ترقی کا فائدہ صرف حسینہ کی عوامی لیگ کے قریبی لوگوں کو ہی ہوا ہے۔
( جنوبی ایشیاء کی طرز سیاست ہے ہی اسہی طرح کی )
بنگلہ دیش میں کرپشن بہت زیادہ ہو چکی تھی ، خاص طور پر حکمران جماعت کے
قریبی لوگ اس میں زیادہ ملوث ہیں‘ ملک میں طویل عرصے سے کرپشن بغیر کسی
احتساب کے جاری تھی ۔ بنگلہ دیش میں حالیہ مہینوں میں سوشل میڈیا پر شیخ
حسینہ کے قریبی کچھ سابق اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کے
بارے میں بحث ومباحثہ چل پڑا ہے۔ ان میں ایک سابق آرمی چیف، سابق پولیس
چیف، سینئر ٹیکس افسران اور ملک میں بھرتی کرنے والے اہلکار شامل ہیں۔
سابق وزیراعظم نے بھی اپنے آخری دنوں میں کہا تھا کہ بدعنوانی ایک دیرینہ
مسئلہ ہے اور وہ اس کے خلاف کارروائی کر رہی ہیں اور اس کی جڑ تک پہنچیں گے
۔ ڈھاکہ میں اس پریس کانفرنس کے دوران سابق وزیراعظم حسینہ شیخ نے کہا تھا
کہ انھوں نے اپنے چپڑاسی کے خلاف کارروائی کی ہے جس کے اکاؤنٹ سے مبینہ طور
پر چار سو کروڑ نکلے تھے۔ وہ پریس کانفرنس میں بتارہی تھیں ’وہ میرے گھر
میں کام کرتا تھا۔ میرا چپڑاسی تھا اور اب وہ 400 کروڑ روپے کا مالک ہے۔ وہ
ہیلی کاپٹر کے بغیر کہیں آ جا نہیں سکتا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس نے اتنے
پیسے کیسے بنائے؟ میں نے یہ جاننے کے فوراً بعد ایکشن لیا۔‘تاہم انھوں نے
اس شخص کا نام نہیں بتایا۔ جبکہ بنگلہ دیشی میڈیا کا ماننا ہے کہ اتنی رقم
سرکاری ٹھیکوں کی لابنگ کے لیے رشوت لے کر ہی اکٹھی کی جا سکتی تھی۔
بنگلہ دیش میں انسداد بدعنوانی کمیشن نے سابق پولیس چیف نظیر احمد کے خلاف
تحقیقات کا آغاز کیا ہے جنھیں حسینہ واجد کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ ان
پر مبینہ طور پر غیر قانونی طریقوں سے لاکھوں ڈالر کمانے کا الزام ہے تاہم
وہ ان لزامات کی تردید کرتے ہیں۔ملک میں مہنگائی سے لڑتے عام شہریوں نے اس
خبر پر خاصا سخت ردِعمل دیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ
بدعنوانی کے علاوہ گذشتہ 15 سالوں کے دوران ملک میں جمہوری سرگرمیوں کے لیے
آزادی بھی کم ہو گئی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیا کی ڈاریکٹر نے دعویٰ کیا کہ ’گذشتہ تین
انتخابات میں ایک مرتبہ بھی قابل اعتبار آزادانہ اور منصفانہ پولنگ نہیں
ہوئی۔‘ ’شیخ حسینہ کو شاید اندازہ نہیں ہے کہ اپنا لیڈر خود منتخب نہ کر
پانے کے جمہوری حق سے محرومی، بنگلہ دیش کے لوگوں میں کس حد تک عدم
اطمینانی کا باعث بن رہی تھی ۔‘ مرکزی اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی
این پی) نے 2014 اور 2024 میں یہ کہتے ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا کہ
حسینہ کے دور میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ممکن نہیں ہیں اور وہ چاہتے
ہیں کہ انتخابات ایک غیر جانبدار نگراں انتظامیہ کے تحت کرائے جائیں۔
حسینہ واجد نے ہمیشہ سے اس مطالبے کو مسترد کیا تھا ۔ انسانی حقوق کی
تنظیموں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گذشتہ 15 سالوں میں 80 سے زائد افراد جن میں
سے اکثریت حکومتی ناقدین ہیں، لاپتہ ہو چکے تھے اور ان کے اہل خانہ کو ان
کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ ملک میں ایسے خدشات پائے جاتے تھے کہ
حسینہ واجد بہت حد تک آمرانہ طرزِ حکومت کو اپنا چکی تھیں اور حکومت پر
اختلاف رائے اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے لیکن
سابق حکومتی وزرا ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں.
حکومت اور حکمران جماعت کے خلاف غصہ کافی عرصے سے پک رہا تھا ۔ ’لوگ اب
اپنا غصہ دکھا رہے تھے۔ اور اگر ان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تو وہ
احتجاج کا سہارا لے رہے تھے ۔‘ حسینہ واجد کے وزرا کا کہنا ہے کہ مظاہرین
کے اشتعال انگیز اقدامات کے باوجود حکومت نے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا
تھا. ان کا دعویٰ ہے کہ ان مظاہروں کو ان کے سیاسی مخالفین اور اسلام پسند
جماعتوں نے بڑھکاوا دیا تھا اور انھوں نے ہی تشدد کا آغاز کیا تھا۔ ’حکومت
مظاہروں میں شامل طلبا سے رابطے میں تھی ۔ اگر کوئی معقول دلیل ہے تو ہم
سننے کو تیار تھے۔‘ طلبا کا یہ احتجاج شاید جنوری کے وسط سے جس کی شروعات
ہوئی تھی مگر حسینہ شیخ کے دور حُکمرانی نیں اس صورتحال کا حل نہیں نکالا
گیا اور اس پر حکمرانوں اور ان کے حواریوں نے کوئی زیادہ دلچسپی اپنی نہ
دیکھائی جس کی وجہ سے ایک اچھی معشیت کو پروان چھڑانے والی حکومت ان طلباء
تحریک بری طرح بہا کر لیگئی.
اب بنگلہ دیش میں پائیدار حُکمرانی ، کرپشن سے پاک اور عدم تشدد و انصاف پر
مُبنی ان سب کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ نئی حکومت بدامنی وغیرہ سے کس
طرح نمٹتی ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ عوام کے بڑھتے ہوئے غصے کو کم
کرنے کے لیے کیا راستہ اپناتی ہیں۔
|