ہم پتھر کے زمانے میں جانے کو
ہیں، اس جدید سائنسی دور میں ہم سا بھی کوئی ہوگا،جو آگے کی بجائے پیچھے کو
جاتا ہے؟ آج سے دس برس قبل امریکہ نے ہمیں دھمکی دی تھی کہ افغان جنگ میں
ہمارا ساتھ دو ورنہ ’پتھر کے زمانے میںپہنچادیئے جاؤ گے‘، ہم پتھر کے زمانے
سے گھبرا گئے ، ہم نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور خود کو پتھر کے
زمانے میں جانے سے بچالیا۔ لیکن کیا خبر تھی کہ دس سال بعد ہم نے وہ وقت
دیکھنا ہے جس کی ہمیں دشمن نے دھمکی دی تھی ، اس وقت تو اتنی گنجائش تھی کہ
اگر ساتھ دو گے تو بچ جاؤ گے، مگر اب تو کسی نے کوئی دوسری گنجائش رکھی ہی
نہیں اور نہ ہی ہمیں کسی شرط پر اس قدیم زمانہ میں دھکیلاجارہاہے۔
ہمیں اندھیرے تاریک غاروں میں دفن کیا جارہا ہے، لیکن ہمارا قصور نہیں
بتایا جاتا، ہمیں دنیا کی سہولتوں سے محروم کیا جارہاہے مگر ہمیں اس کی وجہ
نہیںبتائی جاتی، ہمیں لوڈشیڈنگ کے عذاب سے دو چار کیا جارہا ہے لیکن اس کی
کوئی وضاحت ضروری نہیں جانی جاتی۔پہلے تو یہ کہاجاتا تھا کہ ڈیم میں پانی
کی سطح خطرناک حد تک کم ہوگئی ہے، اس لئے بجلی کی پیداوار میں کمی قدرتی
امر ہے، یارلوگ اس دلیل کو سن کو خاموش ہورہتے تھے کہ خدائی کاموں میں عمل
دخل ممکن نہیں تھا، مگر اب کیا دلیل ہے کہ پورا ملک ہی ڈیم کی صورت ہے ،
اور ڈیم بھی ا یسا کہ کناروں سے ابل رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ بجلی بنانے
والی کمپنیوں کو بلوں کی ادائیگی نہیں کی جارہی جس کی وجہ سے نوبت یہاں تک
پہنچتی ہے، کیا انصاف ہے کہ عوام میں سے کسی غریب کا بل دوسرے مہینے میں
داخل ہوجائے تو ان کو بجلی منقطع کردینے کی نہ صرف خبر سنائی جاتی ہے بلکہ
محکمہ کے اہلکار اوزار اٹھائے میٹر کاٹنے نکل کھڑے ہوتے ہیں، اور بڑے بڑے
اداروں اور مخصوص افراد کے بل لاکھوں کو بھی پہنچ جائیں تو کوئی پوچھتا
نہیں۔
بجلی کی قیمتوں کو دیکھیں تو آسمان سے باتیں کررہی ہے، چند روز کے بعد ہی
قیمتوں میں اضافے کی خبر سنا کر مظلوم عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا
اہتمام کیا جاتا ہے، اگر اس قیمت میں بجلی چوبیس گھنٹے موجود رہے اور عوام
بے احتیاطی کے ساتھ اس کا استعمال کرتے رہیں تو کچھ ہی مہینوں میں عوام کی
ایک معقول تعداد بجلی کے میٹروں سے ہاتھ دھو بیٹھے گی، تب وہ مستقل قسم کی
لوڈشیڈنگ کے نظارے دیکھیں گے۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ کے نتائج سے یقینا حکمران بھی آگاہ ہوں گے ، اگرچہ
حکمرانوں کو ایک مخصوص حصار میں رہتے ہوئے بہت سے گھمبیر معاملات سے بے خبر
رکھا جاتا ہے، لیکن یہ لوگ آتے تو عوام میں سے ہی نا، یہ الگ بات ہے کہ
مسند اقتدار پر بیٹھ کر ان کا دل ودماغ عوامی مسائل و مصائب سے نا آشنا
ہوجاتاہے۔ جدیددور میں جہاں بجلی کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چلاجاسکتا، عوام
ہاتھ پر ہاتھ دھرے انتظار میں بیٹھے ہیں، انتظار کی گھڑیاں اس قدر طویل
ہوچکی ہیں کہ شیڈول نامی کسی چیز کا اب کوئی ذکر ہی نہیں،گھنٹوں کا حساب
کتاب اب پرانی باتیں ہیں، اب پہروں کا تصور ابھر رہاہے، نئی نسل کو پہروں
کا اندازہ ہی نہ ہوگا۔ اب کاروبار بند، روزگارختم، کارخانے ناکارہ، اب ہر
چیز اس قدر مہنگی ہو جائے گی کہ قوت خرید وہاں تک رسائی حاصل نہیں کرسکے گی۔
پتھر کے زمانے کا ہم نام تو بہت آسانی سے لے لیتے ہیں، مگر تب یہ سہولتیں
نہ تھیں، قناعت پسندی تو اب بھی ہوسکتی ہے،اب بھی ہم اچار اور چٹنی سے روٹی
کھاسکتے ہیں، (پیاز کا یہاں ذکر نہیں کہ اس کی قیمت دوبارہ محو پرواز ہے)
تھوڑا کھالیں گے، بھوک کاٹ لیں گے ، مگر ہم اپنے گھر کا کرایہ کہاں سے دیں
گے؟ دودھ کا بل کیسے پورا ہوگا ؟ دیگر ضروریات کاکیا بنے گا؟پتھر کے زمانے
میں اس قدر کمرشل ازم نہیں آیا تھا، مگر اب ہر انسان کا بال بال ماحول کی
مجبوریوں میں جکڑا ہواہے، واپسی ناممکن ہے، اب بچے بھوک مریں گے تو لوگ ان
کو کھانے کو دوڑیں گے جن کے پاس ہر آسائش موجود ہے، تب انقلاب آئے گا، وہی
خونی انقلاب جس کا تذکرہ خادم پنجاب سمیت مختلف لوگوں سے سنتے ہیں، جس کا
سب کو انتظار ہے ، کیا جانئے کہ یہ انقلاب اسی لوڈشیڈنگ کی تاریکیوں سے ہی
پھوٹ پڑے؟ |