ملک امیر،عوام غریب

97ارب ڈالر،پاکستانی عوام کی لوٹی ہوئی دولت سوئس بینکوں میں

مملکتِ پاکستان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ وہ نعمت عظمٰی ہے جس کا جتنا شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے۔ دنیا میں بہت کم ممالک ایسے ہیں جہاں قدرت نے اپنی تمام نعمتیں یکجا کر کے یہاں کے بسنے والوں کو اپنی زندگی بہترین نہج پر گزارنے کا بنا بنایا موقع فراہم کیا ہو، کسی ملک کی خوشحالی اور ترقی کیلئے کون کون سے عوامل اہمیت کے حامل ہوتے ہیں؟ ان میں پہلے نمبر پر قدرتی وسائل کا ہونا ہے۔ پاکستان کی دھرتی اور اس کے پہاڑ قدرتی دولت سے مالا مال ہیں یہاں سونا، چاندی، تانبا، لوہا، قدرتی گیس، خام تیل، سنگ مرمر، کرومیم، کوئلہ، زمرد اور دیگر کئی نایاب معدنیات بہتات سے موجود ہیں مگر یہ اس قوم کی بدقسمتی ہے کہ گزشتہ ساٹھ برسوں میں اس شعبے میں کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ کسی بھی ملک کی معیشت میں بندرگاہیں اور بحری راستے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور پاکستان ان خوش قسمت ممالک میں سے ہے جس کے پاس تقریباً ایک ہزار کلومیٹر طویل ساحلی علاقہ ہے۔ کئی ممالک نے محض اپنی تجارتی سرگرمیوں اور بندرگاہوں کو ”فری پورٹ“ کا درجہ دے کر حیران کن رفتار سے ترقی کی مگر ہمارا گوادر پورٹ کا پراجیکٹ برسہا برس سے کاغذوں میں تو زندہ ہے مگر عملی طور پر اسے متنازعہ منصوبہ بنا دیا گیا ہے۔ بیشتر خلیجی ریاستوں کا دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کی منازل طے کرنا ہمارے لئے مثالی اور تقلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی بھی ملک کے وسیع زرعی میدان اور اس کے سازگار موسم شعبہ زراعت سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے عظیم نعمت سے کم نہیں۔ ہمارے پاس سال بھر مختلف علاقوں میں ایک ہی وقت میں مختلف موسم ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس دنیا کا بہترین اور سب سے بڑا نہری نظام بھی موجود ہے یہاں پر پیدا ہونے والے چاولوں، گندم، سبزیوں اور پھلوں کا عالمی مارکیٹ میں کوئی ثانی نہیں۔ یہاں سے برآمد کیا جانے والا آم امریکہ اور یورپ کی مارکیٹوں میں پہنچنے سے پہلے ہی بک جاتا ہے مگر اس کے باوجود ہمارے کاشتکار کی حالت خستہ اور اس کا استحصال عام ہے۔ شعبہ زراعت کو ترقی دینے اور اسے صحیح خطوط پر پروان چڑھانے کی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جن کی معیشت کا انحصار صرف اور صرف سیاحت پر ہے انہوں نے سیاحت کو ایک صنعت کا درجہ دے رکھا ہے اور دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنے اپنے ملکوں کی طرف متوجہ کرنے کے لئے کئی پرکشش اقدامات کئے ہیں مگر افسوس ہمارے پاس دنیا کے خوبصورت اور بلند ترین علاقے ہونے کے باوجود سیاحتی صنعت کا ملکی معیشت میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ المختصر پاکستان کے پاس وہ کیا نہیں ہے جو کسی ملت کی ترقی و خوشحالی کا ضامن ہوتا ہے۔ یہاں کے ذہین اور پیشہ وارانہ ماہرین دنیا کے تقریباً ہر ملک میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں مگر افسوس ہمارے ہی ذہین اور باصلاحیت لوگوں کا ہماری دھرتی سے برسہا برس سے ”برین ڈرین“ جاری ہے۔ پاکستان کے بارے میں آج عمومی طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ ایک غریب ملک ہے، نہیں ہر گز نہیں پاکستان غریب ملک نہیں بلکہ یہاں کی پے در پے نااہل اور کرپٹ قیادتوں نے دنیا کا امیر ترین ملک بننے کی اہل مملکت کو اپنے کرتوتوں اور مسلسل لوٹ کھسوٹ سے دنیا کا غریب ملک اور یہاں کے عوام کو مفلوک الحال بنا دیا ہے۔

یہ تو پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ پاکستان سے لوٹ مار کی ہوئی دولت بیرونی دنیا کے کئی بینکوں بالخصوص سوئس بینکوں میں پڑی ہوئی ہے اگر یہ دولت ملک واپس آ جائے تو پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ اب تو خود سوئس بینک کے ڈائریکٹر نے سارا کچھا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے۔ سوئس بینک کے ڈائریکٹر نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی غریب ہیں مگر پاکستان نہیں کیونکہ پاکستان کی 97 ارب ڈالر کی رقم سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں ڈیپازٹ ہے اس خزانے کی اہمیت و وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر اس رقم کو استعمال کیا جائے تو پاکستان جیسا ملک 30 سال تک ٹیکس فری بجٹ بنا سکتا ہے۔ 6 کروڑ پاکستانیوں کو ملازمتیں دی جا سکتی ہیں کسی بھی دیہات سے اسلام آباد تک چار رویہ سڑکیں تعمیر کی جا سکتی ہیں، 500 فلاحی منصوبوں کو ہمیشہ کے لئے فری بجلی سپلائی کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کا ہر شہری 60 سال کے لئے ماہانہ 20 ہزار روپے تنخواہ حاصل کر سکتا ہے جبکہ پاکستان کو کسی عالمی بینک یا آئی ایم ایف کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور پاکستان میں غربت کا نشان تک نہیں رہے گا۔ عالمی بنک کے ماہرین پاکستان آ کر قرض دینے کے بہانے ڈھونڈیں گے مگر کوئی جواز نہیں ملے گا۔ پاکستان کے اکثر سیاستدان ہر الیکشن میں سبز باغ دکھا کر اقتدار میں آ کر صرف اپنی دولت میں اضافہ کرتے ہیں جبکہ عوام کے حصے میں قرض اور مہنگائی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ پاکستان میں امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ پاکستان میں غرب اور امارت دو انتہائیں ہیں۔ اگر ایک طرف سوئس بینک کے ڈائریکٹر نے پاکستان کے کرپٹ امراءکی ایک جھلک پیش کی ہے تو دوسری جانب ورلڈ بینک نے پاکستان میں غربت کے حوالے سے جو رپورٹ پیش کی ہے وہ آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے جس کے مطابق پاکستان میں 30 لاکھ نئی نوکریوں کی ضرورت ہے جبکہ فی کس آمدنی بھی کم ہو رہی ہے۔ یہاں بیروزگاری کی شرح 13 فیصد ہے، 18 فیصد عوام غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار گر رہی ہے۔ سیکورٹی مسائل، سیاسی تناؤ معیشت کی بہتری میں رکاوٹ ہیں۔ پاکستان میں کاروبار کے نامناسب حالات ہیں، نوکریوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ 1990ءمیں جی ڈی پی کی شرح پانچ فیصد تھی جو گر کر 2.5 فیصد ہو گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان سارک ممالک میں بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال سے پیچھے ہے اور اگلے مالی سال کے بجٹ کے لئے دیئے گئے اعداد وشمار کو عالمی بینک نے غیر حقیقی قرار دے دیا ہے۔ حکومت نے بجٹ خسارے میں کمی کے لئے زیادہ شرح سود پر قرض لیا اور مہنگائی بڑھائی۔ عالمی بینک کی رپورٹ سے واضح ہو رہا ہے کہ پاکستان میں عوام کی حالت زار کس قدر مخدوش ہو چکی ہے اور مزید یہ کہ اس میں بجائے کسی بہتری کے آثار پیدا ہونے کے اس کی ابتری میں مزید اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ حکومت کی پالیسیاں ایسی ہر گز نہیں کہ جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہو سکیں۔ بجٹ میں خسارے سے بچنے کے لئے غیر ٹھوس اقدامات لئے جاتے ہیں بے انتہا نئے نوٹ چھاپے جا رہے ہیں جس سے افراط زر میں اضافہ ہو رہا ہے، علاوہ ازیں حکومت وسائل پیدا کرنے کی بجائے قرض لینے کے اصول پر عمل پیرا ہے جس پر بھاری سود دینا پڑتا ہے مگر حکومت کو اس کی پروا نہیں کیونکہ حکومت سارا بوجھ عوام کی جانب منتقل کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی کا نہ رکنے والا سیلاب عوام کو بہا لے جا رہا ہے۔

پاکستان میں ٹھوس منصوبہ بندی، انفراسٹرکچر میں بہتری اور مستقبل کا وژن رکھنے والی قیادت کا فقدان اپنی جگہ مگر سب سے زیادہ جس چیز نے ملک وقوم کو نقصان پہنچایا وہ کرپشن کا گراس روٹ لیول تک سرایت کر جانا ہے۔ رشوت اور سفارش کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ اوپر سے لے کر نیچے تک آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے قومی دولت اور وسائل کے 80 فید حصہ پر 8 فیصد سے 10 فیصد افراد ہی قابض ہیں۔1971ءسے 2009ءتک 2 کھرب 56 ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے جبکہ موجودہ حکومت نے گزشتہ دو سال میں 54 ارب کے قرضے معاف کئے۔ عوام اور مبصرین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اگر قومی دولت لوٹنے والوں کا کڑا احتساب ہو اور انہیں قرار واقعی سزا ملے تو ناصرف ملک مستحکم ہو سکتا ہے بلکہ عوام کی قسمت بھی بدل سکتی ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ ہماری موجودہ حکومت لوٹی ہوئی دولت کو ملک میں واپس لانے اور کرپٹ لوگوں کا احتساب کرنے میں مخلص نہیں۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو کئی بار ہدایت کی تھیں کہ سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں پڑی پاکستانی دولت کے لئے سوئس حکومت کو خط لکھے لیکن حکومت سپریم کورٹ کے اس حکم پر ٹال مٹول سے کام لیتی رہی۔ اسی طرح آج بھی ایسے بے شمار ایسے لوگ ہیں جن پر کرپشن کے الزامات ہیں اور وہ حکومت کی اہم پوسٹوں پر براجمان ہیں۔ پاکستان کی قسمت سے کھیلنے والے اور ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے والے نہ جانے کتنے شوکت عزیز ملک سے فرار ہیں جو اب پلٹ کر پاکستان کو دیکھنے کے بھی روادار نہیں۔ ان کرپٹ لوگوں کی وجہ سے پاکستان کا دنیا میں امیج بھی خراب ہوتا ہے ہماری حکومت کے نمائندے کشکول لے کر ملک ملک قرضے اور امداد کے نام پر صدائیں لگاتے پھرتے ہیں مگر اب عالمی برادری نے بھی ہاتھ کھینچ لیا ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ پہلے اپنی سوئس بینکوں میں موجود دولت کو واپس کیوں نہیں لاتی۔ ملک کی ایلیٹ کلاس مجبور، نادار اور قدرتی آفات سے متاثر لوگوں کے لئے پہل کیوں نہیں کرتی؟ پاکستانی وزیراعظم بیرونی دوروں کے لئے مختص فنڈز اور اپنے صوابدیدی فنڈ میں سے سیلاب زدگان کے لئے کیوں خرچ نہیں کرتے؟ پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے لئے سیاستدانوں کی طرف دیکھنا نادانی ہوگی کیونکہ اس میں زیادہ حصہ سیاستدانوں کا ہی ہے۔ اس کے لئے عوامی سطح پر ایک مضبوط تحریک چلانے کی ضرورت ہے جس میں ہر فرد یہ حکومت سے مطالبہ کر کے دباؤ ڈالے کہ پاکستانی دولت کو واپس لایا جائے اس سلسلے میں سپریم کورٹ بھی سوموٹو الیکشن لے کر اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر یہ دولت واپس آ گئی تو پاکستان کو دنیا کے کسی پلیٹ فارم پر کشکول پھیلانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
Syed Akhter Ali
About the Author: Syed Akhter Ali Read More Articles by Syed Akhter Ali: 2 Articles with 1252 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.