لاتوں پرلاتیں پڑنے اوردھوکوں پردھوکے کھانے کے بعدبھی
اگرکوئی نہ سدھرے تویہ نہ صرف اس کی بدقسمتی ہے بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک
قسم کی بدبختی بھی۔۔ترنول میں جلسے کے اعلان کے بعدکپتان کے کھلاڑیوں کی
ایک بارپھر بندرکی طرح اچھل کودسے یوں معلوم ہورہاہے کہ خداکی یہ مخلوق
ابھی تک سدھری نہیں ہے۔ شائد عقل نامی شے اس مخلوق سے کہیں بہت دورہوورنہ
ایسے جھٹکوں سے توبڑے بڑے بھی سدھرجایاکرتے ہیں۔صاحبان انقلاب عاقل
اورباشعورہوتے تو9مئی جیسے سانحے اورواقعے کے بعدراہ راست پرآجاتے لیکن
لگتاہے کپتان کی محبت میں مست ان ملنگوں کاعقل اورشعورسے دوردورتک کوئی
تعلق نہیں۔لیڈرسے محبت اورعقیدت یہ کوئی بری بات ہے اورنہ ہی کوئی گناہ ۔ہمارابھی
ماننااورکہناہے کہ لیڈراگرعمران خان جیساہینڈسم ہوتواس سے ایک نہیں
ہزاربارمحبت کی جائے لیکن لیڈرسے محبت میں اندھے کنویں میں گرتے ہوئے کم
ازکم اپنے معصوم بچوں اوربوڑھے ماں باپ کابھی کچھ خیال کرناچاہئیے۔ماناکہ
جلسے،جلوس اوراحتجاج سیاسی پارٹیوں اورکارکنوں کاحق ہے پرایسے جلسے اورجلوس
جن سے سانحہ نومئی جیسے واقعات جنم لیں یہ کسی کاحق نہیں۔پاگل کارکن
توپارٹیوں اورلیڈروں پرجان دینے کے لئے تیارہوجاتے ہیں لیکن لیڈر،پارٹیاں
اورسیاستدانوں کی رگوں میں غریب کارکنوں پرکچھ رحم وکرم کرنے کاخون شامل
نہیں۔سیاسی جلسوں اورجلوسوں میں لاتیں اورمکے بھی غریب کارکن کھاتے
ہیں،لاٹھیاں بھی ان کوپڑتی ہیں،شیلنگ بھی ان پرہوتی ہے ،گلے بھی ان کے خشک
ہوتے ہیں،ہڈیاں بھی ان کی ٹوٹتی ہیں اورسربھی ان کے پھٹ جایاکرتے ہیں لیکن
سوچنے کی بات ہے کہ پارٹیوں اورلیڈروں کے قریب مجرم بھی پھریہی کارکن ہوتے
ہیں۔کیاپی ٹی آئی کے قائدین نے سانحہ نومئی کے مظاہرین سے برات اورلاتعلقی
کااعلان نہیں کیا۔۔؟سیاستدانوں اورلیڈروں کاکام غریب کارکنوں کواپنی ذات
اورمفادکے لئے استعمال کرناہے جب ان کامفادنکل جاتاہے تب پھران کوکسی غریب
کارکن کی کوئی فکرنہیں ہوتی،جلسے اورجلوس کے لئے دوردرازدیہات اورگھروں سے
لاتے وقت ایک ایک کارکن ان کویادرہتاہے لیکن واپسی پرکارکنوں کے باپ بھی
پھران کویادنہیں رہتے۔کیاآپ نے کبھی دیکھایاسناہے کہ جس طرح ہمارے یہ
لیڈراورسیاستدان جلسوں اورجلوسوں کے لئے گاڑیاں بھرتے ہوئے ان غریب
اوربھولے بھالے کارکنوں کی باربارگنتی کرتے ہیں کبھی انہوں نے کسی
جلسے،جلوس اوراحتجاج کے اختتام پربھی اپنے ان کارکنوں کی گنتی کرنے کی زحمت
گوارہ کی ہے۔۔؟نومئی کوکتنے کارکن گھروں سے آئے اورپھرکتنوں پرمقدمات درج
ہوئے کیاکپتان سمیت تحریک انصاف کے کسی ذمہ داراورعہدیدارکواس کے بارے میں
کوئی علم ہے۔؟ہم مانتے ہیں کہ اصلی اورنسلی سیاسی کارکن سیاسی
جلسوں،جلوسوں،احتجاج، ہڑتال اورمظاہروں کے لئے گھروں سے نکلتے ہوئے کوئی
پتھر،علیل،ماچس اورپستول ساتھ نہیں لیکرآتے۔ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ ایسے
سیاسی کارکن جلاؤگھیراؤمیں بھی کبھی شامل اورملوث نہیں
ہوتے۔جلاؤگھیراؤاورامن کوآگ لگانے والے کچھ ہی شریراورشیطان ہوتے ہیں لیکن
ملبہ پھرجب گرتاہے توپھراس میں گناہ گاروں کے ساتھ بہت سے بے گناہ بھی رگڑے
میں آجاتے ہیں۔وہ آپ نے نہیں سناکہ خشک اورسوکھی لکڑیوں کے ساتھ پھرگیلی
بھی جلاکرتی ہیں۔نومئی جیسے سانحات اورواقعات میں ہاتھ
اورکردارتوچندکاہوتاہے لیکن نام پھرگھرسے ہرنکلنے والے کاآتاہے اس لئے
کپتان کے کھلاڑی اب سوچ سمجھ کرگھروں سے نکلیں۔سیاستدان اورپارٹی عہدیداران
بڑھکیں مارتے رہتے ہیں۔پھراگرسیاستدان اورعہدیدارایسے عجوبے اورنمونے ہوں
توپھربڑھکیں مارناتوویسے بھی ان کی مجبوری ہوتی ہے۔کپتان کے نام پریہ سب
مفادپرست اپنی اپنی گیم کھیل رہے ہیں ان میں کسی ایک کوبھی کپتان
اورکھلاڑیوں کی کوئی پرواہ نہیں۔کپتان جیل میں ہے تب ہی توان میں سے ہرایک
لیڈربننے کی کوشش اورپریکٹس کررہاہے کپتان باہرہوں توان عجوبوں اورنمونوں
کو کوئی لیڈری کرنے دیں۔۔؟سچ تویہ ہے کہ ان سارے بے مروتوں کے دل یہ کہہ
رہے ہیں کہ کپتان سداجیل میں سلامت رہیں تاکہ ان
کاکاروبارچلتااوربڑھتارہے۔کپتان جیل میں ہے توہی یہ باہربادشاہ بنے بیٹھے
ہیں جس دن کپتان باہرنکلے پھرمروت ہے یاکوئی بے مروت سب کے سب سرکھجاتے
پھریں گے۔ترنول جلسے کی اچانک منسوخی سے اکثر کھلاڑیوں کے ہوش ٹھکانے آگئے
ہیں۔خان کے اندھے مجنون اورمقلدوں کوچھوڑکربہت سے کھلاڑی اب یہ حقیقت جان
چکے ہیں کہ ان کے اپنے کپتان اوریہ مصنوعی لیڈرایک بات کرنے اوراس پرقائم
رہنے والے لوگ نہیں۔کس دن اورکس ٹائم یہ اپنے مؤقف اوربات سے بدل کرپیچھے
ہٹ جائیں یاسرے سے ہی مکرجائیں ان کاکوئی پتہ نہیں ہوتا۔سادہ لوح کارکنوں
کواب نہیں توکب،انصاف عام احتساب سرعام اورنئے پاکستان کے خواب اورسپنے
دکھاکرپہلے جلسوں،جلوسوں اوردھرنوں میں لایاجاتاہے پھران سے برات
کااظہارکرکے لاتعلقی کااعلان کیاجاتاہے۔کپتان کے نام پرلنگرخانے کھول
کردیگیں کوئی اورکھارہے ہیں لیکن زورصرف غریب کارکنوں سے نکل رہاہے۔کپتان
کے قیدی نمبر804بننے کے بعدپی ٹی آئی سے سب سے زیادہ مفادات کس نے حاصل
کئے۔۔؟عہدے کن میں ریوڑیوں کی طرح بانٹے گئے۔۔؟مخصوص نشستیں میراث کی طرح
کن میں تقسیم ہوئیں۔۔؟اس طرح کے بہت سے ایسے سوالات ہیں جن پرکپتان کے
کھلاڑیوں کوٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ نہ صرف سوچنابلکہ تنہائی میں غوربھی
کرناچاہئیے۔کپتان سے محبت اورعقیدت اپنی جگہ لیکن انصافین کالبادہ اوڑھے
کٹھ پتلیوں کے اشاروں پرناج کرکھلاڑیوں کواپنامستقبل داؤپرنہیں لگانا
چاہئیے۔ایئرکنڈیشن کمروں اوربلٹ پروف پجارومیں خراٹے مارنے والوں
کوکیاخبرکہ سوات کی چوٹیوں سے لیکرکاغان کے سنگلاخ پہاڑوں تک سے غریب کارکن
کس حال میں ترنول پہنچتے ہیں۔
|