عمران خان کے اعترافِ جرم کی کہانی والی چولی کے پیچھے
کیا ہے‘ آئیے اس کا اگلا سٹیپ دیکھیں۔ پہلا قدم عمران خان کے ملٹری کورٹ
میں ٹرائل کا انکشاف تھا جس سے توجہ ہٹانے کے لیے کرائے کے گوریلے استعمال
ہوئے اور 9 مئی کے اعتراف کا پروپیگنڈا شروع ہوا۔ یہ اس لیے بھی قابلِ توجہ
بات ہے کہ اس سے پہلے ایک میڈیا رپورٹر کے ذریعے عمران خان کے خلاف آرٹیکل
چھ کے مقدمے کی درخواست دلوائی گئی مگر مذکورہ ادارے نے رپورٹر سے اعلانِ
لاتعلقی کرکے پنجاب کابینہ کے آرٹیکل چھ کا مقدمہ بنانے والے فیصلے پر
پانی پھیر دیا۔ دوسرا قدم عمران خان کی طرف سے وہ پبلک پیغام ہے جو میں نے
ان کے کہنے پر پریس ٹاک کے ذریعے بول کر‘ وکالت نامہ میں لکھ کر اور ٹی وی
انٹرویوز میں بیٹھ کر ووٹروں تک پہنچا دیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ تقریباً ایک
ماہ پہلے عمران خان نے ملک میں فوری نئے الیکشن کا مطالبہ کیا تھا۔ تازہ
اعلان کے ذریعے عمران نے قوم کو ان لفظوں میں پیغام دیا ہے: ''قوم الیکشن
کی تیاری کرے‘ دسمبر تک عام انتخابات کا اعلان ہو جائے گا‘‘۔
اس وقت پی ڈی ایم حکومت کی دو بڑی پارٹیوں کی حالت اتنی پتلی ہے کہ اُس کے
اراکین نہ کرسی پر بیٹھ سکتے ہیں‘ نہ کرسی سے اٹھ سکتے ہیں‘ نہ پبلک میں جا
سکتے ہیں اور نہ ہی ووٹر کو منہ دکھانے کے قابل ہیں۔ اس خالص سیاسی معاملے
پر مجھے خالص غیرسیاسی لطیفہ یاد آیا۔ ویسے آپس کی بات ہے اب پاکستان میں
سب سے بڑے سیات کار وہ ہیں جو اپنے آپ کو غیرسیاسی کہلانا پسند کرتے ہیں۔
میرے جیسے وہ لوگ جو اپنی کمائی پر سیاست کرتے ہیں‘ کبھی کبھی اتنا ضرور
سوچتے ہیں کہ سرکاری گھر‘ سرکاری بجلی‘ سرکاری نوکر‘ سرکاری گاڑی‘ سرکاری
کھانا‘ سرکاری ہسپتال‘ سرکاری دوائی‘ سرکاری پٹرول‘ سرکاری دورے‘ بعد از
ریٹائرمنٹ سرکاری پنشن اور مفت کا سرکاری پلاٹ لے کر سیاست میں حصہ لینا
کتنا مزے کا کام ہے۔ اس بارے ایک اہم خبر تو رہ ہی گئی۔ ان پنشن یافتگان
میں کچھ بخت آور اس قدر دلاور ہیں جو پاکستان سے باہر رہتے ہیں‘ وہ
پاکستانی روپے کے بجائے بیرونِ ملک بیٹھ کر پنشن ڈالروں میں وصول کرتے ہیں۔
یہ حضرات شرق و غرب‘ امریکہ اور کینیڈا‘ بلجیم اور جرمنی‘ ہر خطے میں صاحبِ
جائیداد ہیں۔ کچھ نام اور کنفرم ہو جائیں تو انہیں پبلک کرنے میں حرج نہیں۔
چلئے پہلے دو مراثیوں والا لطیف سا لطیفہ سن لیں:
ایک مشترکہ الزام میں دو مراثیوں کو پھانسی کی سزا ہوئی۔ تختۂ دار پر
آخری خواہش پوچھی گئی تو پہلے مراثی نے سارنگی بجانا سیکھنے کی خواہش ظاہر
کی۔ فرنگی جیلر نے مراثی سے پوچھا: سارنگی سیکھنے میں کتنا وقت لگے گا؟
مراثی بولا: اگر تجربہ کار استاد مل جائے تو بس 20سے 25سال لگتے ہیں۔ جیلر
نے پوچھا: تمہاری عمر کیا ہے؟ جواب ملا: 40سال۔ جیلر بولا: اچھا تم 65سال
کی عمر میں پھانسی پر لٹکنا چاہو گے۔ مراثی نے ہاتھ جوڑے اور کہا: جو مالک
کو منظور۔ اب دوسرے مراثی کی باری تھی۔ خرانٹ جیلر نے دوسرے مراثی سے
پوچھا: ظاہر ہے‘ تم نے بھی سارنگی ہی سیکھنی ہوگی پھانسی ٹالنے کے لیے۔
دوسرے مراثی نے کہا: ہاں سرکار! لیکن ایک ضمنی خواہش بھی ہے۔ پھر پہلے
مراثی کی طرف دیکھ کر بات جاری رکھتے ہوئے دوسرا مراثی بولا ''میں نے
سارنگی اس سے سیکھنی ہے‘‘۔ پاکستان میں گورننس کی سارنگی سیکھنے والوں کے
لیے 40 سال بھی کم پڑ گئے ہیں۔ ہر بار کہتے ہیں کہ اگلی حکومت ہمیں مل جائے
تو ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔ تقدیر بدلنا غالباً انہوں نے ہر بدلتے موسم کے
ساتھ بیانیہ‘ سوٹ‘ بوٹ اور گاڑیاں بدلنے کو سمجھ رکھا ہے۔ ان کا طرزِ سیاست
خاندانِ غلامانِ غلاماں والا ہے۔ وہ بھی نسل در نسل۔
میں ان اجداد کا بیٹا ہوں جنہوں نے پیہم
اجنبی قوم کے سائے کی حمایت کی ہے
غدر کی ساعتِ ناپاک سے لے کر اب تک
ہر کڑے وقت میں سرکار کی خدمت کی ہے
کڑے وقت میں سرکارکی خدمت کرتے کرتے سرکار کی طرف سے راج دربار میں بٹھائے
وزیراعظم کو بیمار ہونا پڑ گیا‘ جس کے نتیجے میں اجباری طور پر دورۂ ایران
منسوخ ہوا۔ ساتھ ہی خواتین اور اقلیتوں کی نشستیں واپس کرنے والے سپریم
کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے بہت سے اور بھی بستر سے جا لگے ہیں۔ کچھ کوجلد سفر
کرنا تھا‘ انہیں سفر کی اجازت نہیں۔ مسافرت کے اس موسم میں عمران خان نے
فارم 47 رجیم کا سب سے بڑا بلف کال کر ڈالا۔ یہ بلف ہے سرکاری ٹیم کا وہ
پروپیگنڈا جس کے ذریعے وہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ اگر عمران خان مائل بہ
مذاکرات ہو جائیں تو پاکستان معاشی مشکلات سے نکل سکتا ہے۔ اب عمران خان نے
تین پیشگی شرائط بڑے سادہ انداز میں قوم کے سامنے رکھ دیں۔ وہ جو کہتے نہیں
تھکتے تھے کہ عمران خان مذاکرات کرے‘ اب وہ مذاکرات کے اس اعلان پر ہلکان
اور بے جان ہوئے جاتے ہیں۔
اس وقت ہر ذی شعور پاکستانی جانتا ہے ہم کہاں کھڑے ہیں۔ پاکستان پر مفاد
پرست اور طاقت پرست مافیا نے زور زبردستی کے ذریعے قبضہ کر لیا ہے۔ اس قبضے
کے خلاف ہر دل میں شدید نفرت اور تحفظات پائے جاتے ہیں۔ پوری عوامی طاقت
منظم ہونے میں دیر تو ہو سکتی ہے لیکن عوامی طاقت زیادہ دیر اندھیر برداشت
نہیں کر سکتی۔ عام آدمی مہنگائی کی اندھیر نگری میں سسک رہا ہے جبکہ آئی
ایم ایف نے بھی کہہ ڈالا کہ پاکستان کو دو اقدامات فوراً کرنے چاہئیں۔
پاکستان بچانے کے لیے پہلا قدم: ملک دیواروں‘ درختوں‘ ٹینکوں اور تلواروں
کو نہیں کہتے۔ یہ گوشت پوست کے انسان ہیں جو ملک کہلاتے ہیں۔ اسمبلی کے
فلور پر کھڑے ہو کر شوبازی کی حد کر دی گئی۔ چیف ایگزیکٹو بولے: ہم نے آئی
ایم ایف کی ہدایا ت پر بجٹ بنایا۔ بجلی‘ پٹرول کی قیمت بڑھانا مجبور ی ہے۔
یہ جھوٹ آئی ایم ایف نے بھی پکڑ لیا۔ جسے پاکستان کے ایک سینئر ترین بزنس
رپورٹر نے خبر کی صورت میں لیک کیا۔ آئی ایم ایف نے ذہنی غلاموں کو
کہا:Pakistan needs to revisit terms of power purchase agreements۔یہ بلا
شبہ پاکستان بچانے کا سب سے آسان راستہ ہے۔
پاکستان بچانے کے لیے دوسرا قدم: آئی ایم ایف نے اسے Cost-side reforms
کہا۔ اس وقت جن میں ملک چلانے کی صلاحیت نہ ہونا ثابت ہو چکی‘ ان سے دنیا
کی سب سے مہنگی حکومت چلوائی جا رہی ہے۔ نت نئی گاڑیاں‘ اربوں روپے کے
بیرونی دورے اور اربوںروپے لگا کر ٹک ٹاک کے ذریعے سیاسی ایکٹنگ اور بے
تاثیر ماڈلنگ۔ یہ بچنے کا راستہ ہرگز نہیں ۔ مفت بجلی‘ مفت گیس‘ مفت
ٹریولنگ اور مفت بروں کی عیاشیاں کٹ لگا کرروکنا ہوںگی۔
ابن خلدون آزاد تاریخ کے بڑے دماغوں میں سے ایک تھا۔ اس نے یہ عجیب بات
کہی کہ سوچ کی غلامی ملک اور قوم دونوں کو تباہ کرتی ہے۔ اس لیے اگر مجھے
ظالم حکمران اور غلاموں میں سے کسی ایک کو مٹانے کا اختیار ملے تو میں
غلاموں کو مٹا دوں کیونکہ یہ غلام ہی ہیں جنہوں نے ظالمانہ طرزِ حکمرانی
ایجاد کیا۔
اہلِ منصب ہیں غلط کار تو ان کے منصب
تیری تائید سے ڈھالے گئے‘ تُو مجرم ہے
|