جماعت اسلامی پاکستان کی کال پر پورے پاکستان میں
28 ؍اگست کو مکمل پر امن کامیاب شٹرز ڈاؤن ہڑتال ہوئی۔ تاجروں نے بھی تاجر
دوست اسکیم، ودہولڈنگ ٹیکس کے خلاف ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔یہ ہڑتال تاجروں
پر ناجائز ٹیکس اور ملک میں مہنگاہی ، بجلی کے بلوں اور غریب عوام کے کفن
چور آئی پی پیز کے متعلق تھی۔ آئی پی پیز کیپسٹی کے نام پر عوام کے خون
پسینے کے پیسے ہڑپ کرتے جارہے ہیں۔ مقتدر حلقوں کی مفت بجلی اور مراعات ظلم
کی انتہا ہے۔ کامیاب پر امن شٹر ڈاؤن ہڑتال پر امیر جماعت اسلامی نے قوم کو
مبارک دی اور کہا کہ حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہییں ورنہ لانگ مارچ،
دھرنے اورغیر معینہ ہڑتال کے راستے کھلے ہوئے ہیں۔ تاجر تنظیموں سے مشا ورت
جاری ہے۔26؍ اگست 2024ء کو جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان
کی قیادت میں اسلام آباد ڈی چوک پردھرنے کیا تھا۔ حکومت نے کینٹینرز لگا کر
سارے راستے بند کر دیے۔ عوام کو ڈی چوک نہیں پہنچنے دیا۔ عوام نے جگہ جگہ
احتجاج کیا اورڈی چوک پہنچے۔ عوام پر لاٹھی جارج کیا اور درجنوں کو گرفتار
لر لیا۔حکومت کا لا اینڈ آڈر کا مسئلہ بنا کر حالات خراب کرنے کی سازش کو
ناکام بنا کر دھرنا لیاقت باغ منتقل کر دیا گیا۔ اس دھرنے میں پورے پاکستان
سے جماعت اسلامی کے مرد واخواتین شامل ہوئی۔ مختلف شہروں میں کارکنوں روکا
گیا۔ پھر بھی کارکنوں اور عوام نے بڑی تعداد میں دھرنے میں شریک ہوئے۔جماعت
اسلامی کے مرد و خواتین کارکن شدید گرمی ، حبس اور مسلسل بارش کے باوجود
کئی ہفتے سراپاہ احتجاج بنے رہے۔ عوام کے حقوق کے لیے شدید گرمی میں
قربانیاں دیتے رہے۔ حافظ نعیم لرحمان نے صاف صاف کہا کہ ہم حکومت گھرانے یا
اپنے لیے کو ئی مراعات کے لیے نہیں نکلے ہیں۔ ہم عوام کے دکھوں کے مداوے جو
مہنگاہی اور بجلی کے بل ادا نہ کرنے سکت رکھتے ہیں کے لیے نکلے ہیں۔ عوام
خود کشیاں کر رہے ہیں۔ تاجروں پر جو تاجر دوست اسکیم اور دوہولڈنگ ٹیکس
لگائے گئے ہیں ان کے لیے نکلے ہیں۔ لہٰذاحکومت عوام کے مطالبات منظور کرے
تو ہم گھروں کوچلے جائیں گے۔
ان مطالبات کی منظوری کے لیے پہلے تو حکومت ٹال مٹول کرتی رہی۔ جب احتجاج
میں شدت آئی تو حکومتی ٹیم جس میں مرکزی وزیر اطلاہات اور وزیر داخلہ شامل
تھے، مذاکرات شروع ہو ئے۔شہباز شریف مرکزی حکومت نے جماعت اسلامی کے
مطالبات منظور کر لیے اور ایک ماہ کچھ دنوں میں ان پر مکمل عمل درآمدکا
کرنے رٹرن معاہدہ کیا۔ اس دستخط شدہ معاہدے کو حرف بحرف جماعت اسلامی کے
نائب امیر لیاقت بلوچ نے دھرنے کے شرکاء اور عوام کو پڑھ کر سنایا۔ وزیر
اطلاعات اور وزیرداخلہ نے بھی اپنی تقریر میں اس معاہدے پر تقریریں کیں۔
اور ایک ماہ میں عمل در آمند کا وعدہ عوام کے سامنے کیا۔ حافظ نعیم الرحمان
امیر جماعت اسلامی سے درخواست کی گئی کہ دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان
کریں۔حافظ نعیم الرحمان نے دھرنا ختم نہیں بلکہ مو خر کرنے کا اعلان کیا۔
اور کہا ہم دن شمار کرتے رہیں گے۔ پورے ملک میں عوام میں آگاہی جاری رکھیں
گے۔ حافظ نعیم لرحمان نے جد وجہد شروع رکھی۔ حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے
28؍ اگست کو شٹل ڈاؤں ہڑتال کا اعلان کیا۔ پورے ملک میں کامیا ب شٹل داؤن
ہڑتال ہوئی۔تازہ ترین سروے میں پورا ملک ہڑتال کی لپیٹ میں ہے۔ کراچی
تاخیبرشٹر داؤن ہڑتال ہوئی۔ گلگت بلتستان پورا کشمیر بایک زمان ہڑتال میں
شریک ہوا ۔ الیکڑونک میڈیا نے بھی سارے پاکستان کی بڑی چھوٹی مارکیٹو ں اور
بازاروں کی مکمل ویڈیا اورخبریں جاری کر کے ابلاغ کا حق ادا کر دیا۔ ایک
صحافی محمود عالم نے کراچی سے فیس بک پر بیان جاری کیا۔ کہا میں نے 25 سال
کی صحافتی کیر ئیر میں ایسی شٹل داؤن ہڑتال نہیں دیکھی۔ ساری مارکیٹیں اور
گلی کوچوں کی دوکانیں بھی بند پڑیں ہیں۔خیبر پختون خواہ سے خبریں آئی ہیں
کہ پورے صوبے میں مکمل شٹر داؤن ہڑتال ہوئی ہے۔پنجاب کے مختلف شہروں سے
ویڈیو سامنے آئیں سارے صوبے میں میں مکمل ہڑتال ہوئی ہے۔ اسی طرح سندھ اور
بلوچستان میں بھی شٹر ڈاؤن مکمل ہڑتال ہوئی ہے ساتھ ساتھ آئی پی پیلز
نامنظور‘‘ سوشل میڈیا ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ سماء نیوز ریپورٹر نے کہا کہ میں
نے بھی اپنی 25 سالہ صحافت میں ایسی منظم ہڑتا نہیں دیکھی۔
اگر راقم اپنی 50 سالہ سیاسی اور 20سالہ کالم نگاری زندگی کے دوران ہڑتالوں
کی تاریخ بیان کرے تو دو ہڑتالیں ہمیں اچھے طریقے سے یاد ہیں۔ ہم دونوں
ہڑتالوں میں بھر پور طریقے سے شامل بھی تھے۔ایک ہڑتال جماعت اسلامی اور
دینی جماعتوں نے مل کر کی تھی۔یہ ہڑتال ناموس رسالت کی حمایت میں 2011ء میں
ہوئی تھی۔اس ہڑتال میں بھی سارے ملک نے ساتھ دیا تھا۔ راقم نے اُس ہڑتال کا
نام’’ ُاﷲ والوں کی ہڑتال ‘‘ رکھا تھا۔ اسی عنوان سے ایک کالم بھی لکھا
تھا۔ یہ کالم پاکستان اور بیرون پاکستان کئی اخبارات، رسائل اور ویب سائٹس
میں شائع ہو اتھا۔یہ دہشت ایم کیو ایم کے عروج کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں
لندن میں بیٹھے بگوڑے الطاف حسین کی ایک کال پر کراچی اور سندھ کے شہروں
میں ہڑتالیں ہو اجایا کرتی تھی۔ ہم نے اس ہڑتال کا نام’’ اﷲ والوں کی
ہڑتال‘‘ کیوں رکھا ہے؟ اس لیے کے ہم پاکستان میں اپنی زندگی میں بہت سی
ہڑتالوں کا مشاہدہ کر چکے ہیں یہ ایک انوکھی پر امن دینی جزبوں سے بھرپور
ہڑتال تھی۔یہ ہڑتال بغیر پبلیسٹی کے ہوئی تھی۔ پورے ملک کے عوام اس ہڑتال
میں شریک ہوئے تھے۔ انوکھی ہڑتال اس لیے تھی کہ اس زمانے میں دہشت ایم کیو
ایم کی ہڑتالوں کی طرح، ایک دن پہلے نہ تو کوئی گولی چلی ، نہ کوئی بے گناہ
قتل ہوا،نہ فائرنگ کی آواز آئی،نہ کسی کو ڈرایا دھمکایا گیا،نہ کوئی شیشہ
ٹوٹا،نہ کوئی بس جلائی گئی،نہ ٹرانسپورٹرز کو بُرے نتائج کی دھمکیاں ملیں،
نہ لوگ گروہ اور ٹولیوں کی شکل میں شہروں میں ٹائر جلاتے ہوئے ،سڑکیں بلاک
کرتے ہوئے دیکھے گئے ، بلکہ لوگوں نے خود بخود ہڑتال کی۔ مارکیٹیں بند، ٹرا
نسپورٹ بند، دفاتر بند غرض کے ہر کسی نے اس ہڑتال میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔
یہ ہڑتال ایک خاموش اکشریت کی حقیقی آواز تھی جن کا اپنے پیارے رسول صلی اﷲ
علیہ وسلم سے محبت ہے احترام ہے اور مرمٹنے کا جذبہ ہے۔جن کو اپنے دین سے
پیار ہے جو اﷲ اور رسول صلی علیہ و سلم کے مطیع ہیں، جو اس مملکت اسلامی
جمہوریہ پاکستان میں حکومت الہیہ یعنی اسلامی نظام حکومت چاہتے ہیں۔
ایک ہڑتال 1977ء میں پیپلز پارٹی کے دور میں قومی اتحاد کی اپیل پر الیکشن
میں دھاندلی کے خلاف ہوئی تھی۔ یہ ہڑتال صرف کاروبار بند کرنے اور شٹر داؤن
کرنے تک نہیں تھی بلکہ یہ ہڑتال پہیہ جام ہڑتال تھی۔ ملک کے تمام بڑے چھوٹے
شہروں میں لوگ اس دن اپنے گھروں میں مقیم ہو گئے تھے۔ تمام ملک میں شٹل
ڈاؤن ہوئے تھے۔گلی کوچے کا کاروبار بھی مکمل بند تھا۔کوئی بھی گورنمنٹ،
پرائیوٹ اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں چلی تھی۔ یہ دونوں ہڑتالیں قومی
ہڑتالیں تھیں۔
اس کے بعد جماعت اسلامی کی اپیل پر 28؍ اگست 2024ء کی مکمل شٹل ڈاؤن پرامن
ہڑتال نے بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔ ساراے ملک کے بازار بند،
فیکٹریاں، ملیں بلکہ محلوں کے چھوٹے چھوٹے بازار بھی مکمل بند رہے۔ تاجروں،
صنعتکاروں، انڈسٹری، ملک کی چھوٹی بڑی مارکیٹوں نے شٹل ڈاؤں ہڑتال کو
کامیاب کیا۔ اب حکومت کو چاہیے کی عوام اور تاجروں کو ٹیکسوں میں ریلیف دے
یا پھرکسی بڑے احتجاج کا سامنا کرنے کے یے تیار ہوجائے۔ ملک کا ہر دلعزیز
کرپشن فری نڈر لیڈر امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان عوام کے حقوق حاصل
کرنے کے لیے میدان میں اُترا ہوا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنا حکومت کے بس کی بات
نہیں۔ اس لیے جلد از جلد عوام اور تاجروں کو ٹیکسوں میں رلییف دے۔ ورنہ
زبردست پر امن احتجاج کے سامنے حکمرانوں کو حکومت چلاسنا مشکل ہو۔
|