من کی سنو:
جی ہاں آپ نے سہی سنا جب بھی ہم یہ لفظ کہنے کی کوشش کرتے ہیں تو بہت سارے
خیالات ہمیں گھیر لیتے ہیں۔ کہ یہ سماج ہمیں کیا کہے گی۔ گھر والے کیا کہیں
گے، یہ کر ے کے بعد روز مرہ کی چیزیں معمول پر ہونگی یا نہیں۔
یہ ساری باتیں انسان سوچ کر بیمار ہو جاتا ہے اور زندگی گزر جاتی ہے۔ اور
کبھی وہ وقت آتا ہی نہیں کہ جب ہم واقعی میں اپنے من کی سنتے ہیں۔
اور آخر جب ہم اپنے معاشرے سے نکل جاتے ہیں کیا تب بھی لوگوں میں یہ وھم
ہوتا یے۔
نتیجہ اس کے بلکل برعکس ہے۔ لوگ اپنی زندگی کو اک مقصد کے تحت گزارنے کے
لیے من کی لازم سنتے ہیں۔ دیکھا جائے تو وہ خوبصورت لوگ ہیں کیوںکہ انکا من
ابھی ژندہ ہے۔ وہ آزاندانہ اور مفکرانہ سوچ کے مالک ہیں۔ ان کی خوبصورتی یہ
ہے کہ انھوں نے اپنے دل اور من کو ژندہ رکھا۔ معاشرے کی زور سے ڈر کر اسے
کچھلنے نہیں دیا۔
اور تحقیق یہ ثابت کر چکی ہے کہ انسان کے سب سے بڑے افسوس میں سے اک یہ ہے
کہ کاش وہ اپنے من کی سنتا۔
سنو من کہ جب تک اس سے کسی کا حق نہ چھینے۔
زندگی خوبصورت ہے بس من کو ژندہ رکھیے ۔
|