70- 80 کے عشرے میں روئی کی بتی لگا ہوا اور سرسوں کے تیل
سے بھرا مٹی کا دیا، زیادہ تر گھروں میں زردی مائل روشنی بکھیرتا نظر آتا
تھا۔ تیل بہت سستا تھا، لوگ کسی کام کی منت مانتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ "اگر
یہ کام ہوگیا تو وہ گھی کے چراغ جلائیں گے" ۔ چراغ اس دور کے مطابق انتہائی
نفاست کے ساتھ سنگ مرمر جیسے پتھروں سے بنایا جاتا تھا، روشنی سے زیادہ اس
کی اہمیت اس کے افسانوی کردار کی وجہ سے ہے۔ الہ دین کا چراغ کا شہرہ تو
صدیوں سے کرہ ارض پر رہنے والے سنتے آرہے ہیں۔لیکن برصغیر کے زیادہ تر
گھروں میں ٹین کی چادر سے بنے ہوئے چراغ استعمال ہوتے رہے ہیں۔ اس میں بھی
بتی ڈالی جاتی تھی لیکن اس کے ساتھ چابی لگی ہوتی تھی جسے گھمانے سے لو کم
یا زیادہ ہوتی تھی۔ اس میں مخروطی شکل کی جانچ کی چمنی بھی لگائی جاتی تھی
اس کے اندر مٹی کا تیل یعنی کیروسین آئل بھرا جاتا تھا جو ایک آنے کا ملتا
تھا، چراغ کی روشنی کم ہوتی تھی لیکن اس کی بازگشت برصغیر پاک و ہند میں
گیتوں کی صورت میں سنائی دیتی تھی جیسے، "بجھ گئے غم کی ہوا سے پیار کے
جلتے چراغ"۔ دیا بھی افسانوی حیثیت کا حامل تھا اور یہ ہمیشہ دل میں جلتا
تھا، اور گانوں میں گایا جاتا تھا، " دل کا دیا جلایا". چراغ اور دئیے کے
موضوع پر فلمیں بھی بنی تھیں جیسے "دیا اور طوفان", "چراغ کہاں روشنی کہاں".
گھروں میں چراغاں کرنے کی مثالیں آج بھی مروج ہیں لیکن چراغوں کی روشنی ایک
چھوٹے کمرے کے لئے بھی ناکافی ہوتی تھی۔ گھروں میں تیز اور وسیع علاقے میں
روشنی کے لئے بتی اور تیل سے جلنے والی لالٹین بھی نظر آتی تھی۔ یہ بھی ٹین
سے بنائی جاتی تھی۔ اس کی لمبائی تقریبا" ڈیڑھ فٹ جبکہ قطر چھ انچ ہوتا تھا۔
اس میں بھی بتی کے گرد کانچ کی بڑی سی چمنی لگاکر بتی سے نکلنے والی روشنی
کی کو پیک کردیا جاتا تھا۔ چمنی سے اس کی لو ہوا کے تیز و تند جھونکوں سے
بھی محفوظ رہتی تھی۔ یہ بھی مٹی کے تیل سے روشن ہوتی تھی اور لالٹین کے
نچلے حصے میں چھوٹی سی ٹنکی بنی ہوتی تھی جس میں اس زمانے کے پیمانے کے
مطابق ایک بوتل تیل بھرا جاتا تھا۔ شادی بیاہ یا میتوں کے موقع پر گیس کے
ہنڈولے جلائے جاتے تھے جو وسیع و عریض رقبے کو روشن کرتے تھے۔ ان کے ایندھن
کے طور پر بھی مٹی کا تیل استعمال ہوتا تھا لیکن یہ گیس لائٹ کے نام سے
معروف تھی۔ اس دور کے لوگوں کو صرف گھروں کو روشن کرنے کی فکر ہوتی تھی،
قدرتی ہوا یا درختوں کی چھاؤں میں وہ سوتے اور بیٹھتے تھے۔ بجلی آنے کے بعد
دئیے، چراغوں اور لالٹین کی اہمیت ختم ہوگئی۔ لالٹین تو ابھی بھی سندھ،
پنجاب بلوچستان اور کے پی کے دور افتادہ دیہی بستیوں کی بانس اور تنکوں سے
بنی جھونپڑیوں میں جلتی نظر آتی ہیں جبکہ چراغ مزاروں پر جلتے دکھائی دیتے
ہیں، جن چھوٹی سی ٹنکی میں سرسوں کا تیل بھرا ہوتا ہے۔ مٹی کے دئیے کا مصرف
روحانی انداز میں ہے ۔ عاملین کرام سائلین کو زیتون یا کسی اور مہنگے تیل
سے دئیے کو بھرنے کے بعد اسے جلا کر اس کے سامنے ان کا بتایا ہوا وظیفہ
پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ دیا زمانہ قدیم میں تو جادوئی قصے کہانیوں
استعمال ہوتا ہی تھا کہ اسے زمین پر رگڑ کر جن کو حاضر ہونے کا حکم دیا
جاتا تھا لیکن آج بھی یہ روحانی عملیات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ رہا بے
چارہ گیس کا ہنڈولہ تو یہ قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ کچھ عشرے قبل لوگ رات کے
وقت میت کو دفنانے کے لئے جب قبرستان جاتے تھے تو روشنی کے لئے گیس کے
ہنڈولے بھی لے جاتے تھے۔ اب لوگوں کے گھروں میں قدرتی گیس موجود ہے، اس سے
چولہے جلتے اور جنریٹر چلتے ہیں لیکن اس کے علاؤہ ملکی آبادی کے 70 فیصد
افراد کو گیسٹرک ٹروبل ہوتا ہے جس کا جسمانی نکاسی کے راستے اخراج ہوتا
رہتا ہے۔ قدرتی گیس تو ایندھن کے طور پر چولہے اور جنریٹر میں استعمال ہوتی
ہے لیکن " ہیومن گیس" سوائے قرب وجوار کا ماحول پراگندہ اور قریب بیٹھے
لوگوں کی قوت شامہ متاثر کرنے کے کوئی سود مند کردار ادا نہیں کرتی۔
|