اسلام کے عظیم مفکر، مبلغ ،معلم، مجاہد ،منصف، حضرت علی
کرم اللہ وجہ، کا فرمان ذیشان ہے کہ "وطن کی محبت خزو ایمان ہے"۔جس طرح دین
میں ایمان کی تکمیل وطہارت کے لیئے کلمہ شہادت کی گواہی ہے اور ساتھ نماز
روزہ اور حج زکواة اور قتال فی سبیل اللہ کے عملی کام اور گواہیاں درکار
ہوتی ہیں۔اسی طرح وطن کی محبت بھی گواہی مانگتی ہے۔ ہر محب وطن بالعموم اور
اسلامی سپاہ کے لیئے بالخصوص وطن کی مٹی پر مر مٹنے اور دفاع وطن کی خاطر
اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا ، اپنے آپ پر فرض اور قرض سمجھتی ہے۔
وطن کی مٹی گواہ رہنا ویسے تو ایک ملی شاعر اور نغمہ نگار جناب مسرور انور
کی مشہور ملی نظم و نغمے کا عنوان ہے۔ مگر ایک شاعر ہی کے دل کی آواز نہیں
ہے۔ یہ پاکستان نے اندر بسنے والے ہر ایک محب وطن کی آواز ہے۔ یہ آواز ہے
ہمارے ان شہداء کی جنہوں نے اپنی جان اس ملک کے لیئے قربان کر دی ۔ یہ آواز
ہے ان غازیان وطن کی جنہوں نے اپنے بدن پر آتش و آہن کے زخم سہتے ہوۓ اس
مٹی کی اپنے خون سے آبیاری کی۔یہ آواز ہے اس باپ اور بھائی کی جس کے سامنے
اس کی بہن اور بیٹی کو کرپان کے وار سے واہگہ بارڈر کے قریب ڈھیر کر دیا
گیا۔
یہ آواز ہے ہندوستان کے اس مہاجر بزرگ کی جو اپنی مل، اپنی جائیداد ،وسیع
عریض حویلی اور چلتا کاروبار چھوڑ کر ،جان بچا کر، پھٹے کپڑوں اور ننگے
پاؤں لاہور کے مہاجر کیمپ میں وارد ہوا۔ یہ وہی آواز ہے جسے ایک ماں نے
اپنے جوان گھائیل بیٹے کی لاش کو ہجرت کے کٹھن سفر میں جنگل بیابان میں
چھوڑ کر کہا تھا کہ وطن کی مٹی گواہ رہنا۔
ملا نہیں وطنِ پاک ہم کو تحفے میں
جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا
(محسن بھوپالی)
یہ آواز 1947 کی ہجرت میں بھی سنی گئی۔ یہی وہ آواز ہے جسے کیپٹن سرور شھید
نے جنگ کشمیر میں اوڑی سیکٹر میں 27 جولائی 1948 کو سینے پر زخم کھا کر
دہرایا۔اس جملے کو بار بار مختلف شہداء نے اپنی معطر زبانوں پر جاری کیا۔
کبھی یہ آواز 12 ستمبر 1965 کو برکی کے محاذ پر میجر راجہ عزیز بھٹی اور ان
کے ساتھیوں کی طرف سے بلند کی گئی تو کبھی یہی نعرہ 7 اگست 1958 کو میجر
محمد طفیل شھید اور ان کے ساتھیوں نے لکشمی پور بنگال میں لگایا۔یہی وہ
جملہ تھا جسے سوار محمد حسین شھید نے 10 دسمبر 1971 کو ظفروال میں بلند کیا
اور یہی وہ الفاظ تھے جن کا اعادہ لانس نائیک محفوظ شہید نے 17 دسمبر
1971کو واہگہ اٹاری میں کیا۔اتنے کم وقت میں کس کس شھید کا نام گنواؤں۔میجر
شبیر شریف شہید اور ان کے ساتھیوں کا بھی تو یہی نعرہ تھا۔یہی جذبہ اور یہی
نعرہ میجر اکرم شہید اور نائیک سیف علی شہید کا تھا۔ اس صدا کو 44 سالہ
میجر محمد طفیل شہیدنے ہی نہیں بلند کیا یہی نعرہ ساڑھے بیس سالہ راشد
منہاس شہید کی زبان پر تھا جب اس نے وطن کے راز بچانے کے لیئے اپنے تربیتی
طیارےکا سر وطن کی پیشانی پر سجدہ ریز کر دیا تھا۔
جی ہاں یہ خون کی گواہی صرف جنگلوں اور فضاؤں میں ہی نہیں دی گئی۔ بلکہ سر
بفلک چوٹیوں کو بھی اس جذبے پر گواہ بنایا گیا۔ کارگل کی جنگ میں حوالدار
لالک جان شہید اور اس کے ساتھیوں نے ان پہاڑوں کو ہی گواہ بنایا تھا۔ کیپٹن
کرنل شیر خان شہیدنے بھی اپنی جان قربان کرتے ہوۓ اسی وطن کی مٹی اور
پہاڑوں کو گواہ بنایا تھا۔پاکستان نیوی کے شہدا بھی اس جذبہ شہادت میں
پیچھے نہیں رہے۔10 اگست 1999 کو جب پاکستان کے آبدوزشکن طیارے کو بھارتی
جارحیت کا نشانہ بنایا گیا تو 16 افسران اور سیلرز کی یہی آواز تھی۔ یہ
آواز صرف اس دھرتی کے شیر جوانوں کی ہی نہیں بلکہ شیر دل خواتین بھی اس
میدان میں کسی سے کم نہ تھیں۔24 نومبر 2015 کا دن ہمیں فلائنگ آفیسر مریم
مختار کی یاد دلاتا ہے۔جب کندیاں کی سرزمین ایک فلائٹ کریشن میں اس کی
شہادت پر گواہ بن گئی۔
اپنی مٹّی سے محبت کی گواہی کے لیے
ہم نے زرداب نظر کو بھی شفق لکھا تھا
اپنی تاریخ کے سینے پہ سجا ہے اب تک
ہم نے خونِ رگِ جاں سے جو وَرق لکھا تھا
(محسن نقوی)
افواج پاکستان کے علاوہ فرض کی ادائیگی میں ہم نے سویلین اداروں کے کئی
افراد کو بھی اس مادر وطن کی مٹی کو گواہ کرتے دیکھا ہے۔ کرونا کے دور میں
کئی ڈاکٹر دوسروں کی جان بجانے میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ہماری
پولیس کے نوجوان بھی اپنے فرض کی ادائیگی میں اس مٹی کو گواہ بنا چکے
ہیں۔اگر طلبا کی بات کی جاۓ تو شہید اعتزاز حسین بنگش جس نے 6 جنوری 2014
کو اپنے سکول ہنگو میں خودکش بمبار کا رستہ روک کر نہ صرف اپنی شہادت پر
وطن کی مٹی کو گواہ بنایا بلکہ اپنے پورے سکول کو بچا لیا۔
شہادتوں کا یہ سلسلہ جو قیام پاکستان سے شروع ہوا اور ابھی تک نہیں تھما ہے
آۓ روز اندرونِ ملک دہشت گروں کے مقابلے میں ہماری مسلح افواج اور قانون
نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شہادت کے رتبہ پر فائز ہو رہے ہیں۔ آج
پاکستان کے کسی کونے اور گوشے میں ایسا قبرستان موجود نہیں جو شہداء کے خون
سے معطر نہ ہو اور جہاں فضا میں شہداء کی قبور پر پاکستانی پرچم نہ لہرا
رہا ہے۔ آپ نے کبھی غور کیا کہ ان قبور سے کیا آواز آرہی ہے۔ ہواؤں میں جب
یہ سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں تو ہوا کے ساتھ کیا سرگوشیاں کرتے ہیں۔
یہ اسی آواز کی بازگشت ہے۔
وطن کی مٹی گواہ ررہنا۔ یہ گواہی کل بھی تھی۔ یہ گواہی آج بھی ہے اور جب تک
پاکستان رہے گا ،وطن کے محافظ وطن کی مٹی کو گواہ کرتے رہے گے۔ شاعر نے کیا
خوب کہا ہے
شہد کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
لہو جو ہے شہید کا وہ قوم کی زکوۃ ہے
تمہی سے اے مجاہدو جہاں کا ثبات ہے
|