چاند کا سفر

چین کا بین الاقوامی قمری تحقیقی اسٹیشن کی تعمیر کے لیے پرعزم اقدام عالمی خلائی تعاون کے ایک نئے دور کی راہ ہموار کر رہا ہے، جس میں ترقی پذیر ممالک اپنے اپنے خلائی مشنز کے بغیر داخل ہو رہے ہیں اور اس میں شرکت کے لیے بڑے پیمانے پر جوش و خروش پیدا ہو رہا ہے۔2017 میں ، چائنا نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن نے باضابطہ طور پر عالمی برادری کے لئے بین الاقوامی قمری تحقیقی اسٹیشن تعاون کے اقدام کا آغاز کیا تھا۔ اب تک دنیا بھر سے 40 سے زائد اداروں نے چین کے ساتھ تعاون کی دستاویزات پر دستخط کیے ہیں۔

یہ اسٹیشن ایک سائنسی تجرباتی سہولت ہے جو چاند پر قلیل مدتی انسانی شرکت کے ساتھ طویل مدتی روبوٹک آپریشن کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ منصوبہ دو مرحلوں میں نافذ کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں چاند کے جنوبی قطب کے علاقے میں 2035 تک ایک بنیادی سہولت تعمیر کی جائے گی جبکہ دوسرے مرحلے کا مقصد 2050 تک چاند کے جنوبی قطب، خط استوا اور دور دراز علاقوں کو جوڑنے والا نیٹ ورک قائم کرنا ہے۔
چینی حکام کے نزدیک یہ اسٹیشن عالمی شراکت داروں کے ساتھ مشترکہ کوششوں کو فروغ دینے کے لئے باہمی مشاورت، مشترکہ تعمیر اور مشترکہ فوائد کے اصولوں پر عمل پیرا ہے۔ اسی باعث دنیا بھر کے ممالک کو مختلف سطحوں پر دو مرحلوں کے پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے، جس میں مطالعہ، سازوسامان، نظام اور یہاں تک کہ مشن کی سطح بھی شامل ہے۔اس ضمن میں چین ، عالمی تعاون کی کوششوں کو بڑھانے کے لئے ایک تعاون کمیٹی، ایک ماہر مشاورتی کمیٹی، ایک ٹیک انوویشن الائنس، ایک سائنس الائنس اور ایک کوآرڈینیشن ہیڈ کوارٹر سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیمیں قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔چین کے چھانگ عہ 6 مشن میں یورپی خلائی ایجنسی ، فرانس، اٹلی اور پاکستان کے پے لوڈ کے کامیاب آپریشن کے بعد، ملک کا چھانگ عہ 7 قمری تحقیقی مشن، جو 2026 کے آس پاس لانچ کیا جائے گا، چھ بین الاقوامی سائنسی آلات لے کر جائے گا. چھانگ عہ8، جس کا ہدف 2028 کے آس پاس لانچ کرنا ہے، 200 کلوگرام بین الاقوامی پے لوڈ کی صلاحیت پیش کرے گا۔ چھانگ عہ8 اور چھانگ عہ 7 آخر کار بین الاقوامی قمری تحقیقی اسٹیشن کے بنیادی ماڈل کا حصہ ہوں گے۔

عالمی ماہرین کے خیال میں اس اسٹیشن کا مقصد "چاند پر اور اس کے آس پاس پیچیدہ تحقیقی سہولیات کے سیٹ کی بنیاد پر بین الاقوامی قمری تحقیق میں ہم آہنگی فراہم کرنا ہے۔اس خاطر مختلف عالمی شراکت داروں کے لیے چاند تک کا مفت سفر اور ڈیٹا شیئرنگ ، تعاون کا فلسفہ ہے۔ اس ضمن میں چینی اداروں کی جانب سے سربیا، انڈونیشیا، پاکستان، پاناما اور جنوبی افریقہ سمیت دیگر ممالک کے 10 اداروں کے ساتھ مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ ان اداروں میں بیلٹ اینڈ روڈ الائنس فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، فاؤنڈیشن فار اسپیس ڈیولپمنٹ افریقہ اور افریقہ بزنس الائنس شامل ہیں۔متعلقہ ممالک نے قمری تحقیق کے لئے تعلیمی، سائنسی اور شراکت داری کی سطح پر چین کےساتھ تعاون کے بارے میں اپنے جوش و خروش کا اظہار کیا۔شراکت دار ممالک کے خیال میں چین کے ساتھ خلائی تعاون سے ان کے اپنے ملک کے لوگوں کو فائدہ ہوگا۔چین کے قمری تحقیق کے پروگراموں میں شامل ایشیائی ممالک میں سے پاکستان نے پہلے ہی مختلف فوائد حاصل کرنا شروع کر دیے ہیں۔ مئی میں چین نے اپنے خلائی جہاز چھانگ عہ 6 کے ذریعے ایک کیوب سیٹلائٹ کے ذریعے فراہم کردہ ڈیٹا پاکستان پہنچایا تھا۔پاکستان کے انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی اور چین کی شنگھائی جیاؤ تونگ یونیورسٹی کی جانب سے تیار کردہ کیوب سیٹلائٹ آئی کیوب کیو کو چھانگ عہ 6 آربیٹر کے ساتھ خلا میں بھیجا گیا تھا تاکہ چاند کی تصاویر لینے جیسی تحقیقاتی سرگرمیاں انجام دی جا سکیں۔یہ بات خوش آئند ہے کہ چین اور پاکستان نے بین الاقوامی قمری تحقیقی اسٹیشن سے متعلق تعاون کے معاہدے پر بھی دستخط کیے ہیں اور چین کو پہلے ہی چھانگ عہ8 مشن پر پے لوڈ تعاون کے لئے پاکستان کی درخواست موصول ہوچکی ہے۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1324 Articles with 615094 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More