موسمیاتی تبدیلی بڑا چیلنج،سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے
(Ghulam Murtaza Bajwa, SIALKOT)
موسمیاتی تبدیلی بڑا چیلنج،سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے
|
|
|
ایوان اقتدارسے |
|
موسمیاتی تبدیلی عالمی مسئلہ ہے، ترقی یافتہ ممالک کے تعاون سے اس مسئلے سے نمٹنا ہے، پاکستان نے اس معاملے پر بہت سنجیدگی دکھائی ہے، زہریلی گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے لیکن نقصانات کا سب سے زیادہ خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑتا ہے، حکومت نے شجرکاری، کلین گرین انرجی، موسمیاتی تبدیلی سے متعلق آگاہی کے حوالے سے مختلف اقدامات اٹھائے ہیں۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے نمائندوں اور وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ پاکستان زہریلی گیسوں کے اخراج کا ذمہ دار نہیں اور زہریلی گیسوں کے عالمی سطح پر اخراج میں پاکستان کا حصہ دو فیصد سے بھی کم ہے۔ بطور ایک ذمہ دار ملک کے پاکستان نے موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات کو کم کرنے کے لئے بہت سے اقدامات اٹھائے ہیں۔ شجرکاری مہم، گرین انرجی، موسمیاتی تبدیلی سے متعلق آگاہی کے حوالے سے حکومت نے مختلف اقدامات اٹھائے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے پر پوری توجہ مرکوز کی ہے۔ وزیر اعظم محمد شہبازشریف نے بھی ہمیشہ موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے اقدامات پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے۔ انہی کوششوں کے نتیجہ میں گزشتہ سیلاب کے دوران اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بھی پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرایا گیا۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات سے دنیا کو آگاہ کیا جائے۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے عالمی شراکت داروں کے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ملک کو محفوظ بنانے کی کوشش جاری رکھیں گے، وزیر اعظم کے کوآرڈینیٹر کی حیثیت سے رومینہ خورشید عالم نے اچھی کوآرڈینیشن کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی موسمیاتی تبدیلی (climate change) کا ادراک کئی طریقوں سے کیا جا سکتا ہے، جن میں قدرتی ماحول اور انسانی زندگی پر پڑنے والے اثرات شامل ہیں۔ عالمی سطح پر اوسط درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ گرمی کی لہریں زیادہ شدید اور طویل ہو رہی ہیں، اور موسموں میں غیر معمولی تبدیلیاں دیکھی جا رہی ہیں۔ قطبی علاقوں اور گلیشیئرز میں برف تیزی سے پگھل رہی ہے، جس سے سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے اور نشیبی علاقے خطرے میں ہیں۔ طوفان، سیلاب، قحط اور خشک سالی جیسے قدرتی آفات زیادہ بار بار اور شدت اختیار کر رہی ہیں، جو موسمیاتی تبدیلی کی علامات ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے سبب جانوروں اور پودوں کی مختلف اقسام کے مسکن متاثر ہو رہے ہیں، اور کئی انواع معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ سمندری پانی کی سطح بڑھ رہی ہے جس سے ساحلی علاقے زیر آب آ رہے ہیں اور نمکین پانی کی دراندازی ہو رہی ہے۔ فصلوں کی پیداوار اور بڑھوتری پر موسمیاتی تبدیلی کا گہرا اثر ہو رہا ہے، جس سے غذائی قلت اور معاشی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ان علامات کے مشاہدے سے ہم موسمیاتی تبدیلی کا ادراک کر سکتے ہیں اور اس کے تدارک کے لیے اقدامات کر سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مختلف نوعیت کے اقدامات کیے جا سکتے ہیں، جو عالمی سطح پر اور مقامی طور پر کیے جا رہے ہیں۔ فوسل فیولز (کوئلہ، گیس، تیل) کا استعمال کم کر کے متبادل توانائی (شمسی، ہوا، اور ہائیڈرو پاور) کا استعمال بڑھایا جائے۔ گاڑیوں اور صنعتی مشینری کی توانائی کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے تاکہ کم کاربن کا اخراج ہو۔ قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے شمسی توانائی، ہوا کی توانائی، اور حیاتیاتی ایندھن کا زیادہ استعمال۔ ایٹمی توانائی کو بھی صاف توانائی کے ذرائع کے طور پر فروغ دیا جا سکتا ہے۔ جنگلات کی کٹائی کو روکا جائے اور نئی شجر کاری کی مہمات چلائی جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر سکیں۔ پانی کے ذخائر کو محفوظ رکھنے اور پانی کے ضیاع کو کم کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے اور ری سائیکلنگ کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔ حکومتوں کی جانب سے سخت قوانین اور پالیسیاں بنائی جائیں جو کاربن اخراج اور دیگر آلودگی کو کم کرنے پر زور دیں۔ بین الاقوامی معاہدوں (مثلاً پیرس معاہدہ) پر عمل درآمد کیا جائے۔ عوام میں موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات کے بارے میں آگاہی پھیلائی جائے تاکہ لوگ ماحول کے تحفظ کے لیے کردار ادا کر سکیں۔ تعلیمی اداروں میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق نصاب کو فروغ دیا جائے۔ فضلے کو ری سائیکل کرنا، کمپوسٹ بنانا اور غیر ضروری پلاسٹک کے استعمال کو کم کرنا۔ صنعتی فضلے کا بہتر طریقے سے انتظام کیا جائے تاکہ آلودگی کو روکا جا سکے۔موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے نئے طریقوں کی تحقیق میں سرمایہ کاری کی جائے، تاکہ جدید ٹیکنالوجیز کے ذریعے اس چیلنج کا مقابلہ کیا جا سکے۔یہ اقدامات موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے اور ماحول کو محفوظ بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
|