منی پور تشدد: شاہ اور بیرین کے بیچ برتری کی جنگ

اس سال یکم ستمبر سے منی پور میں کم سے کم 10 لوگوں کا قتل ہوچکا ہےجبکہ 20 سے زائدافراد زخمی ہوئے ہیں۔حالت یہ ہے کہ فوج کے ایک سابق حولدار لم لال ماٹے نےغلطی سے بفر زون پار کیا تو ہلاک کردیئے گئے۔پندرہ ماہ کے بعد پھر ایک بار منی پور میں تشدد کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں۔ اس کی بنیادی ذمہ داری وزیر داخلہ امیت شاہ پر آتی ہے جو پندرہ دن بعد لوٹ آکر آنے کا وعدہ کرکے واپس آئے تو پھر مڑ کر نہیں دیکھا۔ روس اور یوکرین کی جنگ بند کرنے کے لیے کوشاں وزیر اعظم کو بھی فرصت نہیں ملی۔ڈبل انجن سرکار میں وزیر داخلہ اور وزیر اعلیٰ گاڑی کو مخالف سمت میں کھینچ رہے ہیں اور خوس وزیر اعظم وقف زمینوں کو ہڑپ کرواکر اپنے دوستوں میں تقسیم کرنے کی سعی میں مصروف ہیں۔ آسام کا وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما این آر سی کے نام پر لوگوں کو تعذیبی کیمپ میں بھیج کر اپنی شہرت بڑھا رہا ہے ۔ جمعہ کی نماز کے لیے دئیے جانے والے وقفہ کو ختم کرکے وہ مقبولیت بڑھا رہا ہے ۔

بسوا سرما کبھی ہیمنت سورین کی حکومت گرانے اورکبھی چمپئی سورین کو بی جے پی میں شامل کرنے کی خاطر جھارکھنڈ تو جاتا ہے مگر منی پور میں جاکر بیرین سنگھ کے ساتھ امن قائم کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ وہاں پر آسام رائفلز کو ریاست سے نکلنے کی دھمکی دی جارہی ہے لیکن آسامی وزیر اعلیٰ اس دھماکہ خیز صورتحال سے آنکھیں موند کرکے سیاسی جوڑ توڑ میں منہمک ہے۔ منی پور کے اندر پچھلے سال میتئی سماج کو ریزرویشن دینے کی منظوری سے بے چینی کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد جب ریاستی حکومت نے سرکاری زمین کا سروے شروع کیا تو28 اپریل( 2023)کو، کوکیوں کی تنظیم انڈیجینس ٹرائبل لیڈرس فورم نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے چورا چند پور میں آٹھ گھنٹے کے احتجاجی بند کا اعلان کیا۔ اس رات ٹوئبونگ علاقے میں محکمہ جنگلات کے دفتر کو آگ لگتے ہی تشدد کا آغاز ہوگیا ۔ 27-28 اپریل کے تشدد میں بنیادی طور پر پولیس اور کوکی قبائل آمنے سامنے تھےلیکن 3 مئی سے یہ آگ وادی میں پھیل گئی۔

ریاستی حکومت کی سرپرستی میں قتل غارتگری جو سلسلہ پندرہ ماہ قبل شروع ہوا تو ہنوز جاری ہے۔ ستمبر کے پہلے ہفتے میں ڈرون کے ذریعے فضائی بمباری اور آر پی جیز کی لانچنگ جیسے جدید ترین ہتھیاروں کے استعمال نے صورتحال کو دھماکہ خیز بنا دیا ہے ۔ پچھلے جمعہ کی رات مشتبہ عسکریت پسندوں نے سابق وزیر اعلیٰ مارمبام کوئیرینگ کے گھر پر راکٹ سے حملہ کیا تھا۔ اس واقعہ میں ایک بزرگ کی موت اور 6؍ افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ملی ۔اس سے قبل منی پور کے سینجم چرانگ میں ایک اور ڈرون بم حملے میں تین افراد زخمی ہوئے تھے۔ میتئی سماج کی نمائندہ منی پور انٹیگریٹی کوآرڈینیشن کمیٹی کے ترجمان کھریزام اتھوبا نے ڈرون اور میزائل حملے کے لیے کوکی نشہ آور دہشت گرد گروہوں کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے مگر ریاست کی جملہ تیس لاکھ کی آبادی میں اگر کل ایک لاکھ پولیس اور نیم حفاظتی دستے و فوج ہوں تو سوال یہ ہے کہ جدید ترین اسلحہ لوگوں کے پاس کیسے پہنچا؟

وادی میں ان ہلاکتوں کے بعد COCOMI (منی پور کی سالمیت پر رابطہ کمیٹی) نے ایک سخت الٹی میٹم جاری کرکے ہندوستانی مسلح افواج سے پانچ دنوں کے اندر بحران سے نمٹنے کے لیے ٹھوس کارروائی کا مطالبہ کردیا۔ ماضی میں مذکورہ کمیٹی (COCOMI) مرکزی فورسز، خاص طور پر آسام رائفلز پر کوکی عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ ملی بھگت کا الزام لگاتی رہی ہے مگر اب تو اس نے بھارتی فورسز کو کوکیوں کے خلاف کارروائی کرنے یا منی پور سے انخلاء کے لیے 5 دن کی ڈیڈ لائن مقرر کردیا ہے۔ اس نے حفاظتی دستوں کے ناکام ہوجانے کی صورت میں، عوام کی طرف سے اپنی اور مقامی آبادی کی حفاظت کے لیے سخت اقدامات کرنے کی دھمکی د ی ہے اور منی پور سے مرکزی فورسز کا انخلاءکا مطالبہ بھی کردیا ہے ۔ اس طرح عوامی ایمرجنسی کا اعلان دراصل فوج کے خلاف ایک زبردست اقدام ہے۔ کیا یہ خانہ جنگی کی صورتحال نہیں ہے کہ جہاں ایک عوامی تنظیم کھلے عام یہ کہہ رہی ہے کہ منی پور کے لوگوں کا مرکزی فورسز پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے کیونکہ وہ حالات پر قابو پانے میں ناکام رہی ہیں۔ وزیر دفاع، داخلہ اور وزیر اعظم کو اس سنگین صورتحال پر اپنا موقف واضح کرنا چاہیے۔

کوکی قبیلے کی سپریم باڈی نے بھی ایک بیان جاری کرکے وادی کے مسلح شرپسندوں پر کوکی زو برادری کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے ۔کوکی تنظیموں کے مشترکہ وفاق Indigenous Tribal Leaders Forum (ITLF) نے الزام لگایا ہے کہ میتئی طبقے کے عسکریت پسندوں نے 07 ستمبر 2024 کو منی پور کے وزیر اعلیٰ کے لیک ہونے والے آڈیو ٹیپ سے توجہ ہٹانے کی کوشش میں گزشتہ دو دنوں کے دوران کوکی-زو علاقوں پر حملہ کیا۔کوکی تنظیموں کے وفاق نے گورنر سے ملاقات کرکے پہاڑی علاقوں کے لیے الگ سے ایک انتظامیہ کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ یہ ایک جائز بات ہے اور چونکہ لداخ کو جموں کشمیر سے الگ کر ایک علٰحیدہ علاقہ بنایا جاس چکا ہے تو کوکیوں کے پہاڑی علاقے کے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟

آسام کے وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ پہلے ہی اپنے اختیارات کی کمی پر بہت نالاں ہیں ۔ انہوں نے ریاست میں بڑھتے ہوئے تشدد کے درمیان امپھال میں گورنر سے ملاقات کرکے موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا۔ منی پور کے وزیر اعلیٰ نے اس موقع پر ممبران اسمبلی کی طرف سے منظور کردہ ایک قرارداد گورنر کی خدمت میں پیش کی۔پچھلے سال جب وزیر اعلیٰ کے ذریعہ بلوائیوں کی سرپرستی میں تشدد وزیر داخلہ امیت شاہ کے سامنے آیا تو انہوں نے منی پور میں نظم و نسق قائم کرنے کی ذمہ داری یونیفائیڈ کمانڈ کو سونپ دی ۔ اس میں مرکزی وزارت داخلہ کے افسران، ریاستی سیکورٹی صلاح کار اور ہندوستانی فوج کی ایک ٹیم شامل ہے۔ اس کے سبب وزیر اعلیٰ کے پر کتر دئیے گئے اور اس کا اعتراف ان کی آڈیو میں بھی موجود ہے۔ منی پور کے وزیر اعلیٰ نے اب مبینہ طور پر ریاستی حکومت کو یونیفائیڈ کمانڈ کی منتقلی کا مطالبہ کیا ہے۔ فی الحال ریاست میں کانگریس سے نکل آنے والا وزیر اعلیٰ امیت شاہ کی برتری کو چیلنج کررہا ہے اور یہ رسہ کشی ایک شورش زدہ ریاست کے مظلوم عوام کی خاطر زہر ہلاہل کا کام کررہی ہے اور وہ تشدد کی صورت میں اس کی قیمت بے قصور عوام چکا رہے ہیں ۔

منی پور کی اس حالتِ زار کے لیے کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ کے ساتھ وزیر اعظم کو بھی لپیٹ لیا ۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم کی طرح مرکزی وزیر داخلہ نے بھی منی پور میں سیکورٹی یقینی بنانے کی اپنی آئینی ذمہ داری چھوڑ دی ہے اور انتخاب والی ریاستوں میں سیاست کرنے اور ریلیوں کو خطاب کرنے میں مصروف ہیں۔‘‘کھڑگے نے خبردار کیا کہ ’’( منی پور میں) ڈرون اور راکیٹ سے چلنے والے گرینیڈ حملے شروع ہو گئے ہیں ۔ اس لیے اب یہ قومی سیکورٹی کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے‘‘۔ انہوں نے اپنی پارٹی کی جانب سے منی پور کے وزیر اعلیٰ کو فوراً برخاست کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنے اور ریاستی فورس کی مدد سے سبھی طرح کے باغی گروہوں پر بڑے پیمانے پر کارروائی کرنے پر زور دیا۔ منی پور کےنسلی تشدد کی جانچ کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایت پر قائم کمیشن کچھوئے کی رفتار سے کام کررہا ہے۔ کھڑگے اس میں تیزی لانے کا مطالبہ کیا ۔

منی پور کا سب سے بڑا مسئلہ وہاں اقتدار پر فائز وزیر اعلیٰ ہے۔ وہ اپنی خفیہ آڈیو میں یہ کہتا ہوا سنائی دیتا ہے کہ ’’انہوں نے( یعنی امیت شاہ نے) مجھے یونیفائیڈ چیئر کمانڈ سے ہٹا دیا ہے‘‘۔ اس کے بعد قہقہہ لگاتا ہے اس کے معنیٰ یہی ہیں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بیرین سنگھ اس آڈیو میں شیخی بگھارتے ہوئے سوال کرتا ہے کہ :’’چار ہزار/پانچ ہزار بندوقیں… کون گرفتار ہوا ہے؟ اب تک 4 سے 5 ہزار کے قریب بندوقیں چھینی جا چکی ہیں، لیکن آخر کس کی گرفتاری ہوئی ہے؟ ‘‘۔ وہ سرکاری اسلحہ کو لوٹ کر اسے استعمال کرنے والوں کو یقین دلاتا ہے کہ اس جرم میں ’’ اگر وہ گرفتار کرتے ہیں، توسب سے پہلے گرفتار ہونے والا سی ایم ہی ہوگا۔ اگر کسی کو (مرکزی فورسز کے ذریعے) گرفتار کیا جاتا ہے، تو وہ’ حالات معمول پر آتے ہی ان کی رہائی کے لیے ’سفارش‘کریں گے‘۔ بیرین سنگھ نے پچھلے سال کہا تھا ’انہوں نے ڈی جی پی اور تمام لوگوں کو بلاکر(ہمیں) ہدایت دی، ’بم کا استعمال مت کرنا۔‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب وہ بے خوف ہوچکا ہے اس لیے بعید نہیں کہ ڈرون اور راکٹ لانچر کے پیچھے بھی اسی کا ہاتھ ہو اور اڈانی کے جس کارخانے سے بن کر ڈرون اسرائیل جاتے ہیں وہیں سے ایک کھیپ منی پور بھی گئی ۔ اس کی تحقیق ہونی چاہیے۔ منی پور کے اندر امن عامہ کا قیام نہ بیرین سنگھ کے بس میں ہے اور وہ اس کے خواہشمند ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی شاہ کب تک اسے برداشت کرتے ہیں اور کیسے امن قائم ہوتا ہے؟
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2115 Articles with 1366419 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.