بار بار دوہرایا جانے والا جھوٹ بھی سچ لگنے لگتا ہے لیکن
اگر اس سے مظلوم کو ہی اس پر ہونے والے ظلم کی خاطر ذمہ دار ٹھہرا دیا جائے
تو معاملہ اور بھی سنگین ہوجاتا ہے۔وطن عزیز میں فرقہ پرستی کے فروغ کے لیے
اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ خود مسلمانوں کو ہی ذمہ دار مانتے ہیں ۔ عام
بیانیہ یہ ہے کہ راجیو گاندھی بڑے سیدھے سادے انسان تھے ۔ انہوں نے مسلم
بنیاد پرستوں کے دباو میں آکر شاہ بانو فیصلے کے خلاف آئین میں ترمیم
کروا دی ۔ اس سے ہندو ناراض ہوگئے تو ان کو خوش کرنے کے لیے بابری مسجد کا
تالا کھلوا دیا اور اس طرح ملک میں فرقہ پرستی کی سونامی آگئی یعنی ملک کا
مسلمان خوداپنے کرموں کی سزا بھگت رہاہے ۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے لیے
مختلف واقعات کےتاریخوں کی ترتیب پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہے۔ 23؍اپریل
1985 کو سات سال کے بعد سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر پرسنل لا کے خلاف ہائی
کورٹ کے فیصلے کی توثیق کردی اور اس کےتیرہ ماہ بعد 19 مئی 1986کو آئینی
تبدیلی عمل آئی لیکن اس دوران رونما ہونے والے دیگر واقعات کو یکسر نظر
انداز کرکے پرسنل کے تحفظ کی جد جہد کو فرقہ پرستی کے فروغ سے جوڑدینا
بدترین قسم کی بہتان طرازی ہے مگر اس کا ارتکاب ہمدردان ملت کی جانب سے
ہوتا رہتا ہے۔
وشو ہندو پریشد سنگھ پریوار کا ایک اہم حصہ ہےْ۔1984 میں اشوک سنگھل نے
ایودھیا میں دھرم سنسد کا اہتمام کیا اور اس کے بعد رام مندر کی تعمیر کے
لیے پجاریوں اور سادھوؤں کو متحد کرنا شروع کیا ۔ اس کے فوراً بعد انھیں
وشو ہندو پریشد کا کارگذار صدر بنا دیا گیا اور پھر مندر کی تعمیر کو وہ
ایک عوامی تحریک بنانے میں جٹ گئے ۔ 7 اور 8 اپریل 1984ء کو وشو ہندو پریشد
نے ایک نشست میں ایودھیا، کاشی اور متھرا کی مساجد ہٹا کر مندر تعمیر کرنے
کا عزم کیا گیا نیز ایودھیا کے معاملے کو متفقہ طور پر ترجیح دی گئی۔18
جولائی 1985کو یوگی ادیتیہ ناتھ کے گرو اور گورکھ ناتھ پیٹھ کےسربراہ مہنت
اویدیہ ناتھ کو وی ایچ پی کی ایک ذیلی تنظیم شری رام مکتی یگنا سمیتی کا
سربراہ بنایا گیا۔ اس تنظیم نے 25 ستمبر 1985کو رام جنم بھومی آزاد کرانے
کی خاطر سیتا کی جائے پیدائش سیتا مڑھی (بہار) سے ایک رتھ یاترا نکال کر
ایودھیا آنے کا اعلان کردیا ۔ اس طرح رام جنم بھومی کے نام فرقہ پرستی
پھیلانے کی ایک زبردست مہم کا آغاز ہوگیا اور جس کا شاہ بانو مقدمہ اور
شریعت کی تحریک سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔
اترپردیش میں اس دوران ایک بڑی سیاسی تبدیلی رونما ہوئی ۔ اس وقت اترپردیش
کی اسمبلی میں کانگریس کے پاس 300 میں سے 269 ارکان اسمبلی کی زبردست
اکثریت موجود تھی اس کے باوجود 18 ستمبر 1985 کویوپی کے وزیر اعلیٰ این ڈی
ٹیواری اچانک استعفیٰ دے کر دہلی میں مرکزی وزیر صنعت بنا دئیے جاتے ہیں ۔
اس خلاء کو پرُ کرنے کے لیے 24 ستمبر 1985 کے دن مرکزی وزیر مملکت برائے
داخلہ و قومی سلامتی کے انچارج ارون نہرو اپنے خاص آدمی ویر بہاد سنگھ کو
وزیر اعلیٰ بنوا دیتے ہیں ۔ راجیو گاندھی بذاتِ خود ارون نہرو کے احسانمند
تھے اس لیے وہ گورکھپور کے رہنے والے ویر بہاد سنگھ کو جن کی مہنت اویدیہ
ناتھ سے گہری دوستی تھی وزیر اعلیٰ بننے سے نہیں روک سکے حالانکہ ارون نہرو
کی اس تجویز کو ماضی میں اندرا گاندھی مسترد کرچکی تھیں ۔19 دسمبر 1985 کو
ارون نہرو کے ایماء پر وزیر اعلیٰ ویر بہادر سنگھ بابری مسجد کا تالا
کھلوانے کی تیاری کے لیے ایودھیا میں رامائن میلے میں شرکت کی ۔ اس موقع پر
تمام فائلوں کا مطالعہ کروانے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ تالا عدالتی
فیصلے کے باعث نہیں بلکہ تو ایک انتظامیہ حکم کے تحت لگایا گیا تھا۔
آگے چل کر اویدیہ ناتھ کو ویر بہادر سنگھ اس یقین دہانی کے ساتھ قفل
کھلوانے کی خاطر عدالت سے رجوع کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ فیصلہ ان کے حق میں
ہوگا۔ اس حقیقت کا اعتراف آگنائزر کے مدیر اعلیٰ کے آر ملکانی نے مدر
لینڈ نامی جریدے کے اندر کیا تھا۔ وشو ہندو پریشد اسے عدالتی فیصلے کے
بجائے اپنی طاقت سے کھلوا کر کریڈٹ لینے کے چکر میں پڑ جاتی ہے مگر ارون
نہرو اپنی وزارتِ داخلہ میں زیر ملازمت اشوک سنگھل کے بھائی بی پی سنگھل کی
مدد سے اسے راضی کرلیتے ہیں۔ایک منصوبے کے تحت فیض آباد کے مقامی وکیل امیش
چندر نے 28 جنوری سنہ 1986 کو عدالت میں دروازہ کھولنے کے لیے درخواست دائر
کی، جسے جج نے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا چونکہ اس کیس سے متعلق تمام
دستاویزات ہائی کورٹ میں ہیں۔ اس لیے انہیں دیکھے بغیر اس پر کوئی فیصلہ
کرنا مشکل ہے۔ امیش چندر نے 31 جنوری سنہ 1986 کو اس فیصلے کے خلاف ڈسٹرکٹ
جج کے سامنے اپیل کرتے ہیں اوروہاں پر جج کے ایم پانڈے اگلے ہی دن فیصلہ
سنا دیتے ہیں ۔یہ فیصلے کے وقت تک شاہ بانو کا معاملہ ایوان پارلیمان میں
زیر بحث نہیں آیا تھا۔
یکم فروری 1986کو فیض آباد ڈسٹرکٹ جج نے بابری مسجد کے اندر ہندوؤں کو
عبادت کرنے کی اجازت دیتے وقت اپنے فیصلے کے حق میں شواہد کے بجائے متعدد
نشانیوں مثلاً فیصلے کے دن عدالت کے احاطے میں موجود ایک بندر وغیرہ کا
ذکرخود اپنے مضامین میں کیا تھا۔ یعنی وہی آستھا کی بنیاد کوئی غیر مرئی
طاقت مجھ سے فیصلہ کروارہی ہے والا جھوٹ گھڑا گیا حالانکہ یہ بات اظہر من
الشمس ہے کہ کئی دہائیوں سے عدالت میں زیر سماعت ایسے دھماکہ خیز معاملے
میں کواقتدار پر فائز طاقتور لوگوں کے اشارے کار فرما ہوتے ہیں اور شک کی
سوئی ارون نہرو کی جانب مڑ جاتی ہے۔ اس متنازع فیصلے پر عمل آوری خود اس
میں سرکاری ملی بھگت کی شہادت دیتی ہے۔ فیض آباد کے ضلعی جج نے شام 4 بج کر
20 منٹ پر اپنا فیصلہ سنایا اور ٹھیک 40 منٹ بعد شام 5 بجکر 5 منٹ پر مسجد
کا تالا کھول دیا گیا جبکہ ڈسٹرکٹ جج نے تمام فریقین کو ابھی اپنے فیصلے کی
کاپی بھی نہیں دی تھی کیونکہ جج کے دفتر سے بابری مسجد کا فاصلہ قریب سات
کلومیٹر تھا۔حتیٰ کہ جس آفیسر کے پاس تالے کی چابی تھی اسے بھی اطلاع نہیں
دی گئی اور نہ ہی اس کا انتظار کیا گیا اور تالا توڑ دیا گیا۔ بعد میں
کانگریس حکومت نے ضلعی جج کے فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج بھی نہیں کیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس خبر کو نشر کرنے کے لیے دوردرشن کی پوری ٹیم پہلے
ہی سے اس واقعے کی عکس بندی کی خاطر وہاں موجود تھی تاکہ شام کی خبروں میں
دکھایا جاسکے اور ایسا ہی ہوا۔ اس پر مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات کو شدید
تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور یہ سب اس آئینی ترمیم سے ساڑھے تین ماہ
قبل ہوگیا کہ جس کے لیے اسے ذمہ دار بتایا جاتا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ بابری
مسجد ایکشن کمیٹی تشکیل اس کے بعد عمل میں آئی تھی۔ رام مندر کی آڑ میں
بابری مسجد کےخلاف یہ سازش بنی جارہی تھی تو اس وقت راجیو گاندھی کے پی ایم
او میں وجاہت حبیب اللہ جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے پر فائز تھے ۔دون سکول میں
جونیئر ہو نے کی سبب وزیر اعظم سے خاصے قریب بھی تھے ۔ موصوف نے بی بی سی
پر صاف کہا تھا کہ شاہ بانو معاملے میں قانون (مسلم اپیزمنٹ یا نازبرداری)
کے عوض ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے بابری مسجد کا تالا کھولنے کی بات بالکل
غلط ہے۔
وجاہت حبیب اللہ نے یہ انکشاف بھی کیاتھا کہ : ’یکم فروری سنہ 1986 کو ارون
نہرو اترپردیش کے وزیر اعلیٰ ویر بہادر سنگھ کے ساتھ لکھنؤ میں موجود تھے۔‘
یعنی ان دونوں نے مل کر ایک سازش کے تحت یہ فیصلہ کروا کر نافذ کردیا۔
اپریل 1986 میں خود اشوک سنگھ نے بھی اعتراف کیا تھا کہ ارون نہرو نے وی
ایچ پی کے دفتر میں اس مقصد کے لیے ایک نشست کی تھی۔ اس میں 8 ؍مارچ 1986
کو مہا شیوراتری سے پہلے قفل کھولنے کی تیاری مکمل کرلی گئی تھی ۔ اس لیے
قفل کھلوانے کو شاہ بانو سے جوڑنا اگر عیاری نہ سہی تو سادگی ضرور ہے۔
لکھنؤ ہائی کورٹ کی خصوصی بنچ نے 2010 میں مندرجہ بالا فیصلے پر سخت اعتراض
کرتے ہوئے اسے نہ صرف غیر قانونی قرار دیا تھا بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ یہی
ناعاقبت اندیش فیصلہ چھ دسمبر 1992 کو مسجد کی شہادت کا سبب بنا۔ ان تاریخی
حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے مسلم دشمن عناصر کے علاوہ مسلمانوں کے ہمدرد
دین بیزار لوگوں کو بھی اس جھوٹے بیانیہ میں اسلام کی مخالفت کرنے کا ایک
موقع مل گیا اور انہوں نے اس جھوٹ کو نہ صرف اس زمانے میں خوب جی بھر کے
پھیلایا بلکہ ہنوز موقع بموقع اسے دوہراتے رہتے ہیں اور اس سے احساسِ جرم
کا شکار ہوکر مرعوب اسلام پسند دانشور بھی اغل بغل جھانکنے لگتے ہیں۔ اس
لیے اب وقت آگیا ہے کہ ملک میں پھیلنے والی فرقہ پرستی ٹھیکرا شاہ بانو کی
آڑ میں کم از کم مسلمانوں پر نہ پھوڑا جائے اور دودھ کا دودھ و پانی کا
پانی کردیا جائے ۔
|