غربت کی بڑھتی ہوئی خلیج: اشرافیہ کی معاشی مراعات اور عوام کا استحصال

اقوام متحدہ کی رپورٹ

فلسفیانہ نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو جب بھی دولت اور طاقت چند افراد کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتی ہے، معاشرہ غیر متوازن اور غیر منصفانہ ہو جاتا ہے۔ یہ تضاد اشرافیہ اور عوام کے درمیان طبقاتی فرق کو مزید بڑھاتا ہے، اور اس کا نتیجہ صرف معاشی ناہمواری نہیں، بلکہ سماجی زوال اور اخلاقی بحران کی صورت میں نکلتا ہے۔ چونکہ ان لوگوں کے دلوں میں رحم نہیں ہے اور نا ہی یہ اسلام کے فلسفے کو مانتے ہیں اس لئے ان لوگوں کو مغربی فلسفے کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ارسطو کا کہنا تھا کہ "انصاف وہ ہے جس میں مساوات اور عدم مساوات کو ان کے حق کے مطابق تقسیم کیا جائے"۔ لیکن پاکستان میں اشرافیہ نے انصاف کے اس فلسفے کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ افلاطون نے بھی اپنی کتاب ریپبلک میں کہا کہ جب کسی ریاست میں حکمران طبقہ اپنی دولت اور طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے، تو وہ ریاست جلد یا بدیر انتشار اور بگاڑ کا شکار ہو جاتی ہے۔

پاکستان کی صورتحال بھی اس فلسفے کی عکاس ہے، جہاں اشرافیہ نے اپنی طاقت اور مراعات کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیا، اور نتیجہ عوامی محرومی اور غم و غصہ کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔

جان لاک نے حکومتوں کی اخلاقی ذمہ داریوں پر زور دیا تھا کہ وہ عوام کے فلاح و بہبود کو یقینی بنائیں۔ لیکن جب عوامی وسائل کا غلط استعمال ہوتا ہے اور اشرافیہ اپنے مفاد میں فیصلے کرتی ہے، تو لاک کے فلسفے کے مطابق، عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایسے نظام کے خلاف بغاوت کریں جو ان کے حقوق کا استحصال کرتا ہو۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات:

پاکستان میں امیروں کا امیر تر اور غریبوں کا غریب تر ہونا معاشی ناہمواری کی ایک سنگین شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ صورتحال محض اقتصادی نہیں، بلکہ سماجی، اخلاقی اور فلسفیانہ بنیادوں پر بھی سنگین سوالات کھڑے کرتی ہے۔ ایک طرف ملک میں غربت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، دوسری طرف اشرافیہ بے پناہ دولت اور مراعات سے مستفید ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں طاقتور اشرافیہ کو دی جانے والی معاشی مراعات کا تخمینہ 17.4 بلین ڈالر یا ملکی معیشت کے 6% کے برابر ہے اور یہ پاکستانی روپیہ میں 48 کھرب 35 ارب 2 کروڑ 32 لاکھ ساٹھ ہزار بنتی ہے۔۔ یہ مراعات کارپوریٹ سیکٹر، جاگیرداروں، سیاسی طبقہ اور بیوروکریسی کو دی جاتی ہیں، جبکہ غریب عوام کو بنیادی ضروریات پوری کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

غربت اور عدم مساوات: موجودہ اعداد و شمار:

پاکستان میں غربت اور عدم مساوات کی صورتحال انتہائی سنگین ہو چکی ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی کل آبادی کا 39% حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب، کریم خان کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2022 میں پاکستان میں صرف 1 فیصد آبادی کے پاس 35 فیصد ملکی دولت موجود تھی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا ایک بڑا مسئلہ موجود ہے۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق، 2022 میں پاکستان کے صرف 10% امیر ترین افراد کے پاس کل ملکی دولت کا 60% حصہ تھا۔ اس کے مقابلے میں غریب عوام کے پاس محض 5% دولت تھی۔ یہ اعداد و شمار معاشی عدم مساوات کی شدت کو واضح کرتے ہیں، جہاں اشرافیہ اپنے لیے بے پناہ دولت سمیٹ رہی ہے جبکہ عوام کی اکثریت غربت میں پستی جا رہی ہے۔

اشرافیہ کی مراعات: جاگیردارانہ اور کارپوریٹ استحصال:

پاکستان میں جاگیردارانہ نظام ایک عرصے سے جاری ہے، اور یہ نظام اشرافیہ کو زمینوں اور زرعی وسائل پر مکمل کنٹرول فراہم کرتا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں زرعی زمینوں کا 50% حصہ صرف 5% جاگیرداروں کے قبضے میں ہے۔ یہ جاگیردار نہ صرف زرعی پیداوار سے اربوں روپے کماتے ہیں، بلکہ ٹیکس مراعات اور سبسڈیز کا بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اسی طرح، کارپوریٹ سیکٹر کو بھی بے شمار مراعات دی جاتی ہیں۔ سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق، 2020-2021 میں پاکستان میں بڑے کارپوریٹ گروپس کو ٹیکس چھوٹ اور سبسڈیز کی مد میں تقریباً 1.5 بلین ڈالر فراہم کیے گئے، جب کہ یہ کمپنیاں پہلے ہی اپنے منافع میں کئی گنا اضافہ کر چکی تھیں۔ یہ مراعات عوامی خزانے سے دی گئیں، جس سے عوام کے لیے صحت، تعلیم، اور دیگر بنیادی سہولیات کے لیے فنڈز کی کمی ہو گئی۔

سیاسی اشرافیہ اور بیوروکریٹس کی مراعات: عوام کی قیمت پر عیش:

پاکستان میں سیاسی اشرافیہ اور بیوروکریسی بھی مراعات کے میدان میں پیچھے نہیں۔ سیاستدان اور بیوروکریٹس سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں، اور ان کی مراعات کی فہرست میں سرکاری رہائش گاہیں، گاڑیاں، اور دیگر سہولیات شامل ہیں۔ فنانس ڈویژن کی رپورٹ کے مطابق، 2022-2023 میں پاکستان میں وفاقی حکومت کی سطح پر سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی مراعات پر سالانہ 1.2 بلین ڈالر خرچ کیے گئے۔یہاں تک کہ ان کے غیر ملکی دوروں پر بھی عوامی خزانے سے خطیر رقم خرچ ہوتی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق، صرف 2022 میں پاکستانی سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے غیر ملکی دوروں پر تقریباً 200 ملین ڈالر خرچ کیے گئے۔ یہ وہ رقم ہے جو عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کی جا سکتی تھی، لیکن یہ عوام کی جیبوں سے نکل کر اشرافیہ کی عیش و عشرت پر خرچ ہو گئی۔

غربت کے تباہ کن اثرات:

پاکستان میں غربت کی وجہ سے عوام کو جو مشکلات پیش آ رہی ہیں وہ نہ صرف معاشی بلکہ سماجی اور نفسیاتی سطح پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں تقریباً 22.8 ملین بچے اسکول جانے سے محروم ہیں، اور ان میں سے زیادہ تر بچے غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (HDI) کے مطابق، پاکستان دنیا میں انسانی ترقی کے لحاظ سے 154 ویں نمبر پر ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ غربت اور اشرافیہ کی مراعات کے نتیجے میں عوام کو تعلیم، صحت، اور روزگار کے مواقع فراہم نہیں کیے جا رہے۔

عوام کا ردعمل: تبدیلی کا وقت

اس وقت عوام کے پاس دو راستے ہیں: یا تو وہ اس استحصالی نظام کو تسلیم کر لیں، یا پھر متحد ہو کر اس کے خلاف آواز بلند کریں۔ سیاسی شعور بیدار کرنا ضروری ہے تاکہ عوام جان سکیں کہ ان کے ووٹ کی کیا طاقت ہے اور وہ کس طرح سیاستدانوں کا احتساب کر سکتے ہیں۔

ووٹ کی طاقت: عوام کو چاہیے کہ وہ سیاسی لیڈروں کا انتخاب ان کے عمل اور کارکردگی کی بنیاد پر کریں، نہ کہ ان کے کھوکھلے وعدوں پر۔

احتساب: سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو جواب دہ بنایا جائے، اور اگر وہ عوامی وسائل کا غلط استعمال کرتے ہیں تو ان کا قانونی احتساب کیا جائے

متحد ہوکر جدوجہد: عوام کو طبقاتی تفریق اور اشرافیہ کے استحصالی نظام کے خلاف متحد ہو کر احتجاج کرنا چاہیے تاکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن ہو۔

سوشل میڈیا کا استعمال: عوام کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر اپنی آواز بلند کریں اور اشرافیہ کے استحصال کو بے نقاب کریں۔

نتیجہ: ایک منصفانہ معاشرے کا خواب

پاکستان میں موجودہ معاشی اور سماجی بحران کی اصل جڑ اشرافیہ کی مراعات اور عوام کا استحصال ہے۔پاکستان میں غربت اور اشرافیہ کی مراعات کے درمیان جو تضاد موجود ہے، اسے ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور ظلم و استحصال کے خلاف کھڑے ہوں۔ یہ لڑائی نہ صرف معاشی انصاف کے لیے ہے، بلکہ سماجی اور اخلاقی انصاف کے لیے بھی ہے۔

یہ وقت ہے کہ عوام اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہوں اور ایک منصفانہ اور مساوی معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد کریں in
 

Abid Ali
About the Author: Abid Ali Read More Articles by Abid Ali: 6 Articles with 5896 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.