اے بسا آرزو۔۔۔۔۔ (پروفیسر مظہر) سرگوشیاں 27ستمبر24ء)

اے بسا آرزو۔۔۔۔۔ (پروفیسر مظہر) سرگوشیاں 27ستمبر24ء)
13اور 14اگست 47ء کی درمیانی شب رات 12بجے مصطفےٰ علی ہمدانی کی آواز کوہ ودمن کو سرشار کرگئی۔ آزاد فضاؤں کی پہلی صدا ”یہ ریڈیو پاکستان ہے، قوم کو آزادی مبارک ہو“۔ اِس اعلان کے ساتھ ہی فضائیں تکبیر کے نعروں سے گونج اُٹھیں، گُل بداماں کہسار جھوم اُٹھے، بوستانِ وطن کی کلیاں کھلکھلا اُٹھیں اور خاکِ وطن کاہر ذرہ دامانِ مادرسے لبریز خوشبو کی طرح مہک اُٹھا۔ آزادی کی یہ نعمت عطیہئ خُداوندی تھی جسے ہم نے اِس عہدلے ساتھ حاصل کیاکہ ہم وطن کے ذرے ذرے کو دین کے نور سے معمور کریں گے۔ ہم مگر اِس عہدکو نبھا نہ سکے۔ اسی لیے محض چوبیس سال بعد 16دسمبر 71ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان کی ٹھنڈی دھوپ میں ہماری عظمتوں کے تمغے نوچے گئے اور غیرتیں زمیں بوس ہوئیں۔ اُنہی دنوں پنجاب یونیورسٹی کے سینٹ ہال میں ہم نے معروف شاعر مشیرکاظمی کو یہ کہتے سُنا
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبرِ اقبال سے آرہی تھی صدا یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
تب سینٹ ہال میں سوائے آہوں اور سسکیوں کے کوئی آواز سنائی نہ دی۔
وہ مقامِ آہ وفغاں ناقابلِ فراموش تھا مگر وقت کی دھول میں گُم ہوااور اب صورتِ حال یہ کہ ہم ناروا کوروا کہنے والوں میں خوشبوئے وفاکے متلاشی۔ جو عامیوں کے ہاں مردود وہی اوج نشینوں کے ہاں مقبول۔ زنجیرِعدل زنگ آلود اور عاد ل اُنہی کے آگے سرنگوں جن کاسرِارض ہرعمل آمرانہ وغاصبانہ۔ انصاف کاپتھر تیشہئ زَر سے کرچی کرچی۔ علم فروش جابجا اورقلم فروش ہرجا۔ صحافت میں جھوٹ، منافقت اور کثافت ہی کثافت۔ اغیارمکررآمادہئ شر، دھرتی ماں کے تین ٹکڑے کرنے کو تیار اور اہلِ فکرونظر میں مرگِ اُمید کے واضح آثار۔ نفسانفسی کے اِس عالم میں دھرتی ماں کا قرض اُتاروں تو کیوں کرکہ زیبِ قرطاس شکستہ حروف کی کوئی قدر نہ قیمت۔ بس کنجِ ذہن سے اُبھرتے سوالوں سے صفحات سیاہ کرتارہتا ہوں۔ صاحبانِ علم وفضل اور فکرونظر سے یہ سلگتا ہوا سوال کہ آخریہ سب ہمارے ساتھ ہی کیوں؟۔ کہیں ایساتو نہیں کہ یہ ربِ لَم یزل سے بَدعہدی کی سزاہو کیونکہ بانیئ پاکستان نے تو فرمایا تھا ”ہمیں کسی نئے دستور کی ضرورت نہیں، ہمارا دستور تو چودہ سوسال قبل بن چکاجو اللہ اور اللہ کے رسولﷺ نے قُرآن وسنت کی صورت میں عطا کیا“ (ہندوستان ٹائمز 5ستمبر)۔ سوال مگر یہ کہ قرآن وسنت کی حکمرانی ہے کہاں؟۔
آئیے! حکمت کی عظیم الشان کتاب سے رَہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ سورۃ البقرہ آیت 247 میں ارشاد ہوا ”اُن کے نبی نے کہا کہ طالوت کو تمہارے لیے بادشاہ مقرر کیاہے یہ سُن کروہ بولے ”ہم پر بادشاہ بننے کاوہ حقدار کیسے ہوگیا؟ اُس کے مقابلے میں بادشاہی کے ہم زیادہ حقدار ہیں وہ تو کوئی بڑا آدمی نہیں ہے“ نبی نے جواب دیا ”اللہ نے تمہارے مقابلے میں اُسی کو منتخب کیا ہے اور اُس کو دماغی وجسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں“۔ اِس آیتِ مبارکہ کے مطابق یہ طے ہوگیا کہ حکمرانی کاحق صرف اُسی کو حاصل جوذہنی وجسمانی صلاحیتوں سے مالامال ہو۔ ہمارے ہاں مگرحکمرانی کاحق صرف اہلِ ثروت کو ہے، کسی عامی کو نہیں خواہ وہ علم وفضل میں کتناہی برتر کیوں نہ ہو۔ اِس کے علاوہ دین کی آڑ میں حکمرانی کے خواب دیکھنے والے بہت مگر نیتوں میں فتور۔ یہاں ایک گروہ نفاذِ شریعت کی آڑلے کر اُٹھا مگروقت نے ثابت کیایہ گروہ دہشت گردہے جس کی دینِ مبیں میں مکمل نفی کی گئی ہے۔ اسلام دینِ اوسط ہے اور یہی اِس اُمت کی فضیلت اور امتیازی خصوصیت ہے۔ فرقانِ حمید میں درج ”ہم نے تمہیں ایک ”اُمتِ وسط“ بنایا ہے تاکہ تم دنیاکے لوگوں پر گواہ ہواور رسول تم پر گواہ ہو“ (سورۃ البقرہ آیت143)۔ یہ میرا یاآپ کا نہیں فرقانَ حمید کا فیصلہ ہے کہ اسلام سلامتی کا سرچشمہ ہے جومحبت اور خیرسگالی کو فروغ دیتا ہے۔ اسلام میں ظلم اور تعدی کابدلہ تولیا جاسکتا ہے لیکن بدلہ لینے میں بھی تجاوز ہرگز نہیں کیاجا سکتا۔ حکم ہوا ”جوتم سے لڑتے ہیں اُن سے اللہ کی راہ میں لڑو اور زیادتی نہ کرو، اللہ زیادتی کرنے والوں کوپسند نہیں کرتا“ (البقرہ 190)۔ گویا ظالم سے ظلم کابدلہ لینے میں بھی احتیاط لازم۔ یہی نہیں بککہ امن، محبت اور رحم کی اِس سے بہتر مثال کیاہوگی کہ یہاں تک کہہ دیاگیا ”برائی کابدلہ ویسی ہی برائی ہے، پھرجو کوئی معاف کرے اور اصلاح کرے اُس کااجر اللہ کے پاس ہے، بیشک اللہ طالموں کودوست نہیں رکھتا“ (سورۃ الشوریٰ آیت 40)۔ یہی مضمون قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں بیان کیاگیا ہے جس سے صاف ظاہرہے کہ اسلام جدال وقتال کی نفی اورخونِ ناحق کوشدت سے ناپسند کرتا ہے۔ سورۃ المائدہ آیت 25میں حکم ہوا ”جس نے کسی انسان کوخون کے بدلے یازمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اوروجہ سے قتل کیااُس نے گویا تمام انسانوں کوقتل کردیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی“۔ اب بطور مسلم بالا آیات مبارکہ کو مڈِنظر رکھتے ہوئے خودہی فیصلہ کریں کہ کیا خونِ ناحق بہانے والے مسلمان ہوسکتے ہیں؟۔ کیا اسلامی شریعت کی آڑ لے کر معصوموں کے خون سے ہولی کھیلی جاسکتی ہے؟۔ یہ سوال میں نہیں سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے شُہداء جن میں سکول کی پرنسپل، اساتذہ اور 130 سے زائدوہ معصوم بچے کررہے ہیں جن کے سکول بیگ خون میں تربتر اور دیواریں خونِ شہیداں سے رنگین ہوئیں۔ یہ سوال جی ایچ کیو کی پریڈلین مسجدکے شُہداء کررہے ہیں جنہیں نمازِجمعہ میں عین اُس وقت شہید کیاگیا جب وہ بارگاہِ ربی میں سربسجود تھے۔ یہ سوال سانحہ کارساز کراچی کے شُہداء کررہے ہیں جو بینظیر شہید کے استقبال کے لیے پورے ملک سے اکٹھے ہوئے تھے اور یہ سوال اُن 80ہزار شہداء کابھی ہے جو دہشت گردوں کے خودکُش حملوں اور بم دھماکوں کارزق بنے۔ اِن ظالموں نے مسجد چھوڑی نہ امام بارگاہ، چرچ چھوڑا نہ مندر، اُنہیں جہاں بھی مجمع نظر آیا، حملہ آور ہوئے۔ یہ خونچکاں داستان طویل مگر کالم کادامن تنگ اِس لیے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں کہ میں اِن دہشت گردوں کو مسلمان کیسے کہوں اور کیوں کر کہوں۔
اِسی جابجا دہشت گردی کی بناپر عالمِ اسلام پر ”اسلاموفوبیا“ کالیبل چسپاں کردیا گیا حالانکہ پورا عالمِ اسلام اسلاموفوبیا کی شدت سے نفی کرتا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ اہلِ مغرب کے ہاں ”ہولوکاسٹ“ پربات کرنا جرم ہے کہ اِس سے ایک کروڑ سے بھی کم یہودیوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں لیکن 2ارب مسلمانوں پر اسلاموفوبیا کا لیبل چسپاں کرنے میں کوئی عار نہیں کہ مسلمانوں کے جذبات کی کسے پرواہ، ”جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے“۔

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 885 Articles with 614606 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More