فرانس اور افریقی ممالک کے درمیان تاریخی تعلقات ہمیشہ سے
اقتصادی، سیاسی، اور ثقافتی سطح پر مضبوط رہے ہیں۔ نوآبادیاتی دور کے بعد
بھی فرانس نے افریقی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھا، خاص طور پر
مغربی اور وسطی افریقہ میں جہاں اس کا اقتصادی اور سیاسی اثر و رسوخ نمایاں
ہے۔ حالیہ برسوں میں، فرانس نے افریقی ممالک کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات
کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن اس کے طویل مدتی اثرات پر سوالات
اٹھ رہے ہیں، جو نہ صرف افریقہ بلکہ خود فرانس کی معیشت اور عالمی سیاست پر
گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔
افریقہ، جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، ہمیشہ سے عالمی طاقتوں کی توجہ کا
مرکز رہا ہے، اور فرانس بھی اس میں شامل ہے۔ فرانس کی بڑی کمپنیاں، خاص طور
پر توانائی، مواصلات، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے شعبے میں، افریقی ممالک
میں بڑی سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ تیل، گیس، سونا، اور دیگر قیمتی دھاتوں کی
تلاش اور نکالنے میں فرانسیسی کمپنیاں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔
افریقہ کے قدرتی وسائل، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں فرانس کی دلچسپی
میں اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر، فرانسیسی کمپنی "ٹوٹل" نے افریقی ممالک
میں تیل اور گیس کے منصوبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ
اقتصادی سرگرمیاں افریقی ممالک کی معیشت میں بھی بہتری کا سبب بن رہی ہیں،
لیکن اس کے ساتھ ساتھ مقامی معیشتوں پر انحصار بھی بڑھ رہا ہے۔
فرانس نے افریقی ممالک میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں بھی حصہ لیا ہے، جیسے
کہ سڑکوں، پلوں، اور بجلی گھروں کی تعمیر۔ یہ سرمایہ کاری افریقی معیشتوں
کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے، لیکن ان منصوبوں میں اکثر فرانس کی کمپنیاں
زیادہ منافع کما رہی ہیں، جبکہ مقامی معیشتوں کو مکمل فوائد نہیں مل پاتے۔
فرانس اور افریقی ممالک کے درمیان مالیاتی تعاون بھی بڑھ رہا ہے۔ فرانسیسی
بینکوں اور مالیاتی اداروں نے افریقی بینکنگ سیکٹر میں اپنی موجودگی کو
مستحکم کیا ہے، جس سے افریقی ممالک کو مالیاتی سہولتیں مل رہی ہیں، لیکن اس
کے ساتھ ہی ان پر قرضوں کا بوجھ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
فرانس کی افریقی ممالک کے ساتھ حالیہ اقتصادی سرگرمیاں بظاہر دونوں فریقین
کے لیے فائدہ مند نظر آتی ہیں، لیکن اس کے طویل مدتی اثرات پر غور کرنا
ضروری ہے۔
فرانس کی افریقی معیشتوں میں بڑی سرمایہ کاری نے ان ممالک کو ترقی کے مواقع
فراہم کیے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی ان کا فرانسیسی کمپنیوں پر انحصار بڑھ
رہا ہے۔ اس انحصار کے باعث افریقی ممالک کی مقامی صنعتیں کمزور ہو سکتی
ہیں، اور وہ عالمی مارکیٹ میں خود مختار طریقے سے مقابلہ کرنے کے قابل نہیں
رہیں گے۔
فرانس کی سرمایہ کاری زیادہ تر بڑے منصوبوں میں مرکوز ہے، جس کا فائدہ
معاشرے کے مخصوص طبقوں تک محدود رہتا ہے۔ اس سے افریقی ممالک میں سماجی
ناہمواری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جہاں امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا جا
رہا ہے۔ اس قسم کی ناہمواری سے سماجی عدم استحکام اور سیاسی بحران کا خدشہ
بھی پیدا ہوتا ہے۔
فرانسیسی مالیاتی ادارے افریقی ممالک کو بڑی تعداد میں قرضے فراہم کر رہے
ہیں تاکہ وہ اپنی معیشت کو بہتر بنا سکیں۔ لیکن یہ قرضے طویل مدتی طور پر
ان ممالک کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں، خاص طور پر اگر وہ ان قرضوں کو
واپس کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس صورت حال میں، ان ممالک کو اقتصادی بحران
کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
افریقی ممالک کی معیشتوں پر فرانس کا اثر بڑھنے سے چین اور روس جیسی دیگر
عالمی طاقتوں کے ساتھ تناؤ پیدا ہو سکتا ہے، جو افریقہ میں اپنا اثر و رسوخ
بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ جغرافیائی سیاسی کشمکش افریقی ممالک کے لیے
مشکلات کا باعث بن سکتی ہے، جہاں انہیں ایک طاقتور اتحادی کا انتخاب کرنے
پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
فرانسیسی کمپنیاں، خاص طور پر توانائی اور معدنیات کے شعبے میں، افریقی
ممالک کے قدرتی وسائل کا استحصال کر رہی ہیں۔ یہ سرگرمیاں ماحولیاتی نقصان
کا باعث بن رہی ہیں، جیسے کہ جنگلات کی کٹائی، پانی کی آلودگی، اور جنگلی
حیات کی تباہی۔ طویل مدتی طور پر یہ ماحولیاتی اثرات افریقی معیشتوں اور
لوگوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
فرانس کی اقتصادی سرگرمیوں کے طویل مدتی اثرات کے باوجود، دونوں فریقین کے
لیے مواقع بھی موجود ہیں، اگر یہ سرگرمیاں بہتر حکمت عملی کے تحت انجام دی
جائیں۔
افریقی ممالک کو چاہیے کہ وہ فرانس کے ساتھ شراکت داری کو اس طرح استعمال
کریں کہ مقامی صنعتیں بھی ترقی کریں۔ اس کے لیے ٹیکنالوجی کی منتقلی اور
مقامی لیبر فورس کی تربیت پر توجہ دینا ضروری ہے۔
افریقی ممالک کو فرانسیسی مالیاتی اداروں سے لیے گئے قرضوں کو مؤثر اور
پائیدار منصوبوں میں استعمال کرنا چاہیے، تاکہ ان قرضوں کا بوجھ کم ہو اور
معیشت مضبوط ہو۔
فرانسیسی کمپنیاں اور افریقی حکومتیں مل کر ماحول دوست پالیسیوں کو فروغ دے
سکتی ہیں، تاکہ ترقیاتی منصوبے ماحولیاتی نقصان کے بغیر انجام دیے جا سکیں۔
اس کے لیے بین الاقوامی اداروں کی مدد سے ماحولیاتی تحفظ کے اصولوں پر عمل
درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔
فرانس کی حالیہ اقتصادی سرگرمیاں افریقی ممالک کے لیے اقتصادی ترقی کا
ذریعہ بن سکتی ہیں، لیکن اگر ان سرگرمیوں کو متوازن اور پائیدار طریقے سے
انجام نہیں دیا گیا، تو اس کے طویل مدتی اثرات ان ممالک کے لیے نقصان دہ
ثابت ہو سکتے ہیں۔ افریقی ممالک کو اپنے وسائل کے مؤثر استعمال اور مقامی
صنعتوں کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تاکہ وہ فرانس اور دیگر عالمی
طاقتوں کے اقتصادی دباؤ سے بچ سکیں اور اپنی خود مختاری کو برقرار رکھ
سکیں۔ فرانس کو بھی چاہیے کہ وہ ان تعلقات کو صرف اپنی معاشی مفادات کے
بجائے افریقی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرے۔
|