پاکستان کی فوج کا سیاسی کردار

پاکستان کی فوج کا سیاسی کردار تاریخ کے مختلف مراحل میں بہت نمایاں رہا ہے، اور کئی بار فوج نے براہِ راست اقتدار سنبھالا۔ پاکستان میں فوج نے چار مرتبہ براہِ راست اقتدار پر قبضہ کیا ہے (1958، 1977، 1999)۔ ہر بار فوج نے اقتدار یہ کہتے ہوئے سنبھالا کہ سیاسی بحران یا بدعنوانی ملک کے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ مگر اقتدار کی یہ مداخلت ملک میں جمہوری اداروں کی کمزوری اور سیاست میں فوج کی مضبوطی کا باعث بنی۔ عوامی نمائندے بار بار اقتدار میں واپس تو آتے رہے، لیکن فوج کا غیر اعلانیہ کردار ہمیشہ پس پردہ مضبوط رہا۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران، یہ دیکھا گیا ہے کہ فوج براہ راست اقتدار سنبھالنے کے بجائے پس پردہ رہ کر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ 2008 کے بعد سے، پاکستان میں مسلسل جمہوری حکومتیں قائم ہیں، اور فوج نے براہ راست مداخلت سے گریز کیا ہے۔ تاہم، فوج کا اثر و رسوخ کئی مواقع پر نظر آتا رہا ہے، جیسے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان معاملات میں مداخلت یا حکومت کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونا۔
فوج کا اقتدار سے مکمل دستبردار ہونا ایک مشکل سوال ہے، کیونکہ پاکستان جیسے ملکوں میں فوج ایک اہم اور طاقتور ادارہ ہے جس کے پاس وسائل بھی موجود ہے۔ اس کے باوجود، جمہوریت کی مسلسل حمایت اور بین الاقوامی دباؤ نے فوج کے کردار کو محدود کرنے میں مدد دی ہے۔ فوج کے اندر بھی ایک طبقہ موجود ہے جو چاہتا ہے کہ فوج اپنے اصل دفاعی فرائض پر توجہ مرکوز رکھے اور سیاست سے دور رہے
فوج کی سیاست سے مکمل دستبرداری کا امکان فی الحال نظر نہیں آتا، لیکن جمہوری عمل میں بہتری اور سیاسی جماعتوں کی مضبوطی سے مستقبل میں یہ ممکن ہو سکتا ہے۔ فوج کے اندر بھی ایسے رجحانات موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ فوج کا کردار محدود ہو، لیکن اس کے لیے سیاسی استحکام اور جمہوری اداروں کی مضبوطی ضروری ہے۔ اگرچہ فوج براہ راست اقتدار پر قبضہ نہ بھی کرے، پس پردہ اس کا اثر و رسوخ برقرار رہنے کا امکان ہے، جب تک کہ سیاسی نظام مکمل طور پر مضبوط نہ ہو جائے۔
پاکستان میں فوج کو ہمیشہ ایک اہم قومی ادارے کے طور پر دیکھا گیا ہے، اور عوام کی نظر میں فوج کا کردار عموماً مثبت رہا ہے، خاص طور پر دفاعی معاملات اور سیکیورٹی کے حوالے سے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں، خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے دوران اور اس کے بعد ہونے والے سیاسی بحرانوں نے فوج کی ساکھ پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ پی ٹی آئی کے احتجاج اور عوامی سطح پر فوج کے بارے میں بدلتی ہوئی رائے اس بات کا اشارہ ہیں کہ فوج کی مقبولیت اور ساکھ میں فرق آیا ہے۔
پاکستان میں فوج ہمیشہ سے ہی ایک مضبوط اور باوقار ادارہ رہا ہے۔ عوام کی اکثریت فوج کو قومی تحفظ، دہشت گردی کے خلاف جنگ، اور سرحدوں کے دفاع کے حوالے سے ایک غیر متنازعہ ادارہ تصور کرتی رہی ہے۔ خاص طور پر 2000 کی دہائی میں فوج نے دہشت گردی کے خلاف جو کردار ادا کیا، اس سے عوام کی نظر میں اس کا احترام مزید بڑھا۔
تاہم، فوج کا سیاست میں دخل اور مارشل لاء کے ادوار عوام میں تقسیم کا باعث بنتے رہے ہیں۔ پھر بھی، فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور قومی دفاعی کردار کو ہمیشہ سراہا گیا۔
2022 میں عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور اس کے بعد کے واقعات نے فوج اور عوام کے درمیان تعلقات میں ایک نیا موڑ متعارف کرایا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی نے فوج پر سیاست میں مداخلت کے الزامات لگائے، جس سے عوام کے ایک بڑے طبقے میں فوج کے کردار کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔: عمران خان نے اپنی حکومت کی برطرفی کے بعد بار بار فوج پر "نیوٹرل" رہنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ فوج کو عوامی حمایت یافتہ حکومت کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے یہ تاثر دیا کہ فوج نے سیاست میں ایک غیر فعال کردار ادا کیا، یا کم از کم ان کی حکومت کو بچانے کے لیے مداخلت نہیں کی۔
پی ٹی آئی کے حامیوں نے فوج کے اس کردار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور مختلف مواقع پر عوامی سطح پر فوج کے خلاف نعرے بازی اور احتجاج کیے۔ یہ ایک نیا رجحان تھا، کیونکہ ماضی میں فوج کو اس طرح کی عوامی تنقید کا سامنا کم ہی کرنا پڑا تھا۔
عمران خان کی مقبولیت اور ان کے حامیوں کی بڑی تعداد نے فوج کے بارے میں رائے کو تقسیم کر دیا۔ ایک طرف وہ طبقہ تھا جو فوج کو اب بھی ایک قابل احترام ادارہ سمجھتا تھا، لیکن دوسری طرف وہ افراد بھی تھے جو فوج کو سیاسی کھیل میں ملوث سمجھنے لگے۔ اس سے فوج کی ساکھ میں ایک واضح دھچکہ لگا-
سوشل میڈیا نے فوج کے خلاف تنقید کو بہت بڑھا دیا۔ پی ٹی آئی کے کارکنان اور حامیوں نے فوج پر کھلے عام تنقید شروع کی، جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ اس سے فوج کی عوامی حمایت میں کمی آئی اور یہ ظاہر ہوا کہ عوام کا ایک بڑا طبقہ فوج کو سیاست سے دور رکھنے کا خواہاں ہے۔
ماضی میں فوج کے سیاست میں کردار کو کچھ حلقے جائز سمجھتے تھے، لیکن موجودہ حالات میں عوام کی بڑی تعداد جمہوریت کے تسلسل اور سیاست میں فوج کی عدم مداخلت کی حامی ہے۔ عمران خان کی حکومت کی برطرفی نے اس سوچ کو مزید تقویت دی کہ فوج کو سیاست سے مکمل طور پر الگ رہنا چاہیے۔
اعتماد کا بحران: پی ٹی آئی کے حامیوں اور فوج کے درمیان اعتماد کا بحران واضح ہو چکا ہے۔ یہ صورتحال ملک کی مجموعی سیاسی فضا کو مزید پیچیدہ بنا رہی
فوج کی ساکھ کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے ایک طویل عمل درکار ہوگا۔ عوام میں موجود تقسیم، خاص طور پر پی ٹی آئی کے حامیوں اور دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ فوج کو اپنے کردار کی وضاحت اور سیاست سے مکمل دوری اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی ساکھ دوبارہ مضبوط ہو سکے۔
پی ٹی آئی کے احتجاج اور عمران خان کے بیانیے نے فوج کی ساکھ پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ جہاں پہلے فوج کو ایک غیر متنازعہ ادارہ سمجھا جاتا تھا، اب عوام میں اس کے کردار پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ فوج کی ساکھ میں کمی کا سبب عوامی سطح پر سیاست میں اس کی مبینہ مداخلت اور پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے شدید تنقید ہے۔ فوج کو اپنی ساکھ دوبارہ مضبوط کرنے کے لیے سیاست سے کنارہ کشی اور عوامی اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔

 

Altaf Ahmad Satti
About the Author: Altaf Ahmad Satti Read More Articles by Altaf Ahmad Satti: 56 Articles with 10611 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.