برمودا ٹرائی اینگل، جسے "شیطانی مثلث" بھی کہا جاتا ہے،
ایک ایسا علاقہ ہے جو بحر اوقیانوس کے شمالی حصے میں واقع ہے اور اپنی
پراسراریت کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہ علاقہ میامی (فلوریڈا)،
برمودا، اور پورٹو ریکو کے درمیان ایک مثلث کی شکل میں پھیلا ہوا ہے۔ صدیوں
سے اس علاقے میں بحری جہازوں اور ہوائی جہازوں کے غائب ہونے کے واقعات نے
لوگوں کو حیران اور خوفزدہ کیا ہے، اور اس کے ساتھ مختلف کہانیاں اور
نظریات بھی جنم لیتے رہے ہیں۔
برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں پہلی بار سنجیدہ گفتگو 1950 کی دہائی میں
شروع ہوئی جب امریکی صحافی ایڈورڈ وان وینکل جونز نے "دی اسوسی ایٹڈ پریس"
میں ایک مضمون شائع کیا۔ اس مضمون میں بحر اوقیانوس کے اس علاقے میں ہونے
والے عجیب و غریب واقعات کا ذکر کیا گیا تھا، جس کے بعد یہ علاقہ بین
الاقوامی توجہ کا مرکز بن گیا۔
1964 میں ونسینٹ گیڈیس نے "آرگوسی میگزین" میں ایک اور مضمون شائع کیا جس
میں "برمودا ٹرائی اینگل" کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ اس کے بعد یہ نام دنیا
بھر میں پھیل گیا، اور اس علاقے کے بارے میں مختلف کہانیاں اور نظریات
سامنے آنے لگے۔
برمودا ٹرائی اینگل کے حوالے سے سب سے مشہور واقعہ 1945 کا ہے، جب پانچ
امریکی نیوی کے طیارے، جنہیں "فلائٹ 19" کہا جاتا تھا، تربیتی پرواز کے
دوران اس علاقے میں غائب ہو گئے۔ اس کے بعد سے، درجنوں بحری جہاز اور ہوائی
جہاز یہاں لاپتہ ہو چکے ہیں، جن میں عملہ سمیت سیکڑوں افراد بھی شامل ہیں۔
ان واقعات کی وجہ سے لوگ اس علاقے کو پراسرار سمجھنے لگے۔
برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں کئی نظریات پیش کیے گئے ہیں۔ کچھ لوگ اسے
قدرتی عوامل سے جوڑتے ہیں، جیسے کہ مقناطیسی انحراف (magnetic anomalies)،
جہاں کمپاس اور دیگر نیویگیشنل آلات اچانک کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں غیر معمولی سمندری طوفان اور زیر
زمین زلزلے ہوتے ہیں جو جہازوں اور طیاروں کو غرقاب کر دیتے ہیں۔
ایک اور نظریہ "میٹھین ہائیڈریٹس" (methane hydrates) کا ہے۔ سمندر کی تہہ
میں موجود گیس کے ذخائر پھٹنے سے پانی میں اچانک بڑے بلبلے بنتے ہیں جو
جہازوں کو ڈبو سکتے ہیں۔ کچھ لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ برمودا ٹرائی اینگل
میں کوئی اجنبی یا ماورائی قوتیں کام کر رہی ہیں، اور یہ علاقے کو "خلائی
مخلوق" یا "ایکسٹرٹرریسٹریل" کے ساتھ جوڑتے ہیں۔
سائنس دانوں نے ان پراسرار واقعات کی تحقیقات کی ہیں اور زیادہ تر کیسز میں
منطقی توجیہات دی ہیں۔ امریکی کوسٹ گارڈ کے مطابق، برمودا ٹرائی اینگل میں
جہازوں اور طیاروں کے لاپتہ ہونے کی تعداد بحر اوقیانوس کے دیگر علاقوں کے
مقابلے میں زیادہ نہیں ہے۔ نیویگیشن کی خرابی، خراب موسم، اور انسانی
غلطیاں اکثر ان واقعات کی بڑی وجوہات ہوتی ہیں۔
سائنس دان اور محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں
زیادہ تر کہانیاں اور افسانے میڈیا اور عوام کی جانب سے پھیلائے گئے ہیں،
اور اس علاقے میں ہونے والے حادثات کی کوئی پراسرار یا ماورائی وجہ نہیں
ہے۔
برمودا ٹرائی اینگل ایک دلچسپ موضوع ہے جس نے دہائیوں سے لوگوں کے ذہنوں کو
اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ حالانکہ اس کے بارے میں بہت سی کہانیاں اور نظریات
ہیں، لیکن سائنس دانوں کی تحقیق اور ثبوت ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ یہاں کوئی
ماورائی یا غیر معمولی طاقت نہیں ہے۔ قدرتی عوامل، موسمی حالات، اور انسانی
غلطیاں ان واقعات کی بڑی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اس کے باوجود، برمودا ٹرائی
اینگل کا راز لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے گا اور اس پر تحقیق اور گفتگو
جاری رہے گی۔
1990 میں شائع ہونے والے ایک سائنسی تحقیقی مقالے میں برمودا ٹرائی اینگل
کے حوالے سے تفصیلی تحقیقات کی گئیں جن کا مقصد اس علاقے میں جہازوں اور
طیاروں کے لاپتہ ہونے کے پراسرار واقعات کا سائنسی جائزہ لینا تھا۔ اس
مقالے کا عنوان تھا "برمودا ٹرائی اینگل: ایک حقیقت یا افسانہ؟"، اور اس
میں اس علاقے کے متعلق مشہور افسانوں اور قیاس آرائیوں کو سائنسی بنیادوں
پر پرکھا گیا۔
تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ برمودا ٹرائی اینگل میں ہونے والے جہازوں
اور طیاروں کے لاپتہ ہونے کے واقعات کی شرح عام سمندری اور ہوائی حادثات کے
مقابلے میں غیر معمولی طور پر زیادہ نہیں ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، اس
علاقے میں سالانہ حادثات کی تعداد بحر اوقیانوس کے دیگر حصوں میں ہونے والے
حادثات کے مقابلے میں تقریباً یکساں ہے۔ مقالے کے مصنفین نے بتایا کہ اکثر
کیسز میں حادثات کی وجہ خراب موسم، انسانی غلطی، یا نیویگیشن میں مسائل
تھے۔
تحقیق کے دوران سائنس دانوں نے قدرتی عوامل پر خصوصی توجہ دی، جنہیں برمودا
ٹرائی اینگل کے پراسرار واقعات کی وجوہات میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ اس
میں میگنیٹک انحراف (magnetic anomalies) کا تذکرہ کیا گیا جو ممکنہ طور پر
کمپاس اور نیویگیشن آلات کو متاثر کر سکتا ہے، جس کے نتیجے میں جہاز اور
طیارے اپنی راہ کھو بیٹھتے ہیں۔
مزید برآں، مقالے میں زیر زمین زلزلوں اور سمندری طوفانوں کی بھی نشاندہی
کی گئی جو کبھی کبھار بحری جہازوں کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ زیر زمین
میٹھین گیس کے ذخائر پھٹنے کا نظریہ بھی سامنے آیا۔ گیس کے بلبلے سمندر کی
سطح پر اچانک نمودار ہوتے ہیں جو جہازوں کو نیچے کی طرف کھینچ سکتے ہیں۔
مقالے میں خاص طور پر انسانی غلطیوں پر روشنی ڈالی گئی جو جہازوں اور
طیاروں کے حادثات میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ برمودا ٹرائی اینگل کے
علاقے میں نیویگیشن کے مسائل اکثر خراب موسم کے ساتھ مل کر پیش آتے ہیں،
اور جب جہاز رانی کے عملے یا پائلٹس کو غیر متوقع حالات کا سامنا ہوتا ہے،
تو ان کی غلط فیصلے یا تجربے کی کمی حادثات کا باعث بن سکتی ہے۔
تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں عوامی
تاثر اور میڈیا کا کردار اس علاقے کی پراسراریت کو بڑھانے میں اہم تھا۔
مقالے کے مصنفین نے کہا کہ کئی حادثات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، اور ان
میں موجود سادہ وضاحتوں کو نظرانداز کیا گیا تاکہ لوگوں میں سنسنی پیدا کی
جا سکے۔ میڈیا کی وجہ سے اس علاقے کو ایک غیر معمولی یا "شیطانی" علاقے کے
طور پر پیش کیا گیا، حالانکہ حقیقت میں اس کی کوئی خاص بنیاد نہیں تھی۔
تحقیقی مقالے میں برمودا ٹرائی اینگل کے حوالے سے مشہور کہانیوں اور
افسانوں کی سائنسی حقیقت کا تجزیہ کیا گیا۔ مثال کے طور پر "فلائٹ 19" کے
واقعے پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی، جس میں پانچ امریکی طیارے لاپتہ ہو گئے
تھے۔ مقالے میں بتایا گیا کہ خراب موسم اور نیویگیشن میں خرابی کی وجہ سے
یہ طیارے اپنی راہ بھٹک گئے اور ایندھن ختم ہونے کے بعد سمندر میں گر گئے۔
اسی طرح دیگر مشہور واقعات کے پیچھے سائنسی وضاحتیں بھی پیش کی گئیں، جیسے
کہ جہازوں کا سمندری طوفانوں میں پھنس جانا یا کمپاس کی خرابی کی وجہ سے
بحری جہازوں کا اپنی سمت کھو دینا۔
1990 کے اس تحقیقی مقالے کا مجموعی نتیجہ یہ تھا کہ برمودا ٹرائی اینگل میں
ہونے والے حادثات کو پراسرار یا ماورائی قوتوں سے جوڑنے کے بجائے انہیں
سائنسی بنیادوں پر پرکھا جائے۔ مقالے نے اس نظریے کو مضبوط کیا کہ برمودا
ٹرائی اینگل میں کوئی غیر معمولی یا پراسرار عنصر موجود نہیں ہے، اور یہاں
ہونے والے حادثات کی زیادہ تر وجوہات قدرتی عوامل، خراب موسم، اور انسانی
غلطیوں پر مبنی تھیں۔
یہ تحقیق آج بھی برمودا ٹرائی اینگل کے حوالے سے سائنسی حقائق کی ایک اہم
دستاویز سمجھی جاتی ہے اور اس نے اس علاقے کے بارے میں قائم کئی افسانوں
اور پراسرار کہانیوں کی حقیقت کو بے نقاب کیا۔
|