روس، دنیا کے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک، اپنے وسیع رقبے
اور تاریخی پس منظر کے ساتھ عالمی سیاست اور تاریخ میں ایک منفرد حیثیت
رکھتا ہے۔ صدیوں پر محیط روس کی تاریخ مختلف ادوار سے گزری ہے، جس میں
بادشاہت، کمیونزم، سرد جنگ، اور موجودہ دور شامل ہیں۔ اس ملک کی تاریخ کو
سمجھنے کے لیے ہمیں مختلف مصنفین اور مؤرخین کے حوالوں سے استفادہ کرنا
ہوگا تاکہ روس کے ارتقاء اور اس کے عالمی اثرات کا مکمل جائزہ لیا جا سکے۔
روس کی تاریخ کا آغاز 9ویں صدی عیسوی میں "کیوین رس" کے قیام سے ہوتا ہے،
جو کہ مشرقی سلاوی ریاست تھی۔ کیوین رس نے روس کی تہذیب اور مذہبی بنیادوں
کو قائم کیا، اور یہیں سے روس میں آرتھوڈوکس عیسائیت کی ابتدا ہوئی
یوین رس کی یہ ریاست دریائے دنیپر کے کنارے آباد تھی، جو آج کے یوکرین،
بیلاروس، اور روس کے کچھ حصوں پر مشتمل تھی۔ اس ریاست کا مرکز موجودہ
یوکرین کا دارالحکومت کیو تھا، اور اسی وجہ سے اسے کیوین رس کہا جاتا ہے۔
کیوین رس کا قیام سلاوی اور وائی کنگ قبائل کے درمیان اتحاد کے نتیجے میں
ہوا، جنہوں نے اس علاقے میں سیاسی استحکام اور طاقتور حکومتی ڈھانچے کی
بنیاد رکھی۔
نکولس ریازانووسکی، اپنی کتاب "A History of Russia" میں کیوین رس کو روسی
ریاست کی اصل جڑ قرار دیتے ہیں۔ ریازانووسکی لکھتے ہیں کہ کیوین رس نے روسی
سماجی ڈھانچے، سیاسی تنظیم، اور ریاستی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کیا۔
اس ریاست نے مشرقی یورپ میں تجارت، مذہب، اور سیاسی اتحاد کو فروغ دیا اور
روس کے ابتدائی حکمران خاندانوں کو جنم دیا۔۔
یوین رس کی ریاست کے قیام کے بعد سب سے اہم واقعہ 988ء میں ولادیمیر اول کی
طرف سے عیسائیت کو اپنانا تھا۔ ولادیمیر اول، جو کیوین رس کا عظیم شہزادہ
تھا، نے بازنطینی سلطنت سے آرتھوڈوکس عیسائیت کو اپنایا اور اسے ریاست کا
سرکاری مذہب قرار دیا۔ اس فیصلے نے روس کی مذہبی اور ثقافتی تاریخ میں ایک
فیصلہ کن موڑ پیدا کیا۔
ولادیمیر کے عیسائیت قبول کرنے کے بعد، آرتھوڈوکس چرچ نے کیوین رس میں
مرکزی حیثیت اختیار کر لی اور یہ چرچ روسی عوام کے لیے مذہبی، سماجی، اور
ثقافتی زندگی کا مرکز بن گیا۔ بازنطینی سلطنت کے ساتھ مذہبی روابط نے روس
کو مشرقی یورپ کی تہذیبوں سے جوڑ دیا اور اسے مغربی یورپ کی کیتھولک
تہذیبوں سے الگ کر دیا۔ اس نے روس کی ثقافت اور شناخت پر دیرپا اثرات مرتب
کیے۔
مشہور مؤرخ ریچرڈ پائپس اپنی کتاب "Russia under the Old Regime" میں لکھتے
ہیں کہ روس میں عیسائیت کا قبول کیا جانا نہ صرف مذہبی بلکہ سیاسی اور
سماجی لحاظ سے بھی ایک بڑا قدم تھا۔ انہوں نے یہ نکتہ اٹھایا کہ اس واقعے
نے روسی ریاست کو مذہبی اور سیاسی وحدت فراہم کی، جس نے ریاست کو مضبوط کیا
اور مستقبل کی روسی سلطنتوں کی بنیاد رکھی۔
کیوین رس کی معیشت بنیادی طور پر زراعت اور تجارت پر مبنی تھی۔ یہ ریاست
دریائے دنیپر کے ذریعے بازنطینی سلطنت اور دیگر یورپی ریاستوں کے ساتھ
تجارتی تعلقات استوار کرتی تھی۔ کیوین رس کی معیشت میں غلاموں کی تجارت،
فر، موم، اور دیگر مقامی مصنوعات کی تجارت اہم کردار ادا کرتی تھی۔
کیوین رس کی معاشرتی تنظیم بھی مضبوط تھی۔ یہ ریاست مختلف سلاوی قبائل پر
مشتمل تھی، جنہوں نے ایک مرکزی حکومت کے تحت متحد ہو کر کام کیا۔ ریاست کے
سربراہ کو شہزادہ کہا جاتا تھا، اور یہ نظام ایک شہزادے کی قیادت میں مرکزی
حکومت اور دیہی علاقوں کی تنظیم پر مبنی تھا۔
رابرٹ میسی، جو روسی تاریخ کے ماہر ہیں، اپنی کتاب "The Romanovs: The
Final Chapter" میں لکھتے ہیں کہ کیوین رس کی ریاست نے روسی سماجی اور
سیاسی ڈھانچے میں ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔ میسی کے مطابق، یہ نظام بعد
میں آنے والی روسی سلطنتوں کے لیے ایک ماڈل کے طور پر استعمال ہوا۔
کیوین رس نے 11ویں اور 12ویں صدیوں میں عروج حاصل کیا، لیکن اندرونی
خلفشار، طاقت کی تقسیم، اور بیرونی حملوں کے باعث یہ ریاست کمزور پڑ گئی۔
13ویں صدی میں منگولوں کے حملے نے کیوین رس کی ریاست کو تباہ کر دیا اور
روس پر منگول یلغار کا آغاز ہوا، جس نے روسی علاقوں کو دو سو سال تک زیر
نگیں رکھا۔
ورنانسکی، اپنی کتاب "A History of Russia" میں مزید لکھتے ہیں کہ منگولوں
کے حملے نے روسی ریاستوں کو شدید نقصان پہنچایا، اور اس کا اثر روس کی
سیاسی اور اقتصادی ترقی پر ہوا۔ تاہم، یہ حملے بھی روس کی تاریخ کا حصہ بنے
اور اس ملک کے مستقبل کی سمت کا تعین کیا۔
اگرچہ کیوین رس بالآخر منگولوں کے حملے کے نتیجے میں زوال پذیر ہوئی، لیکن
اس ریاست کی یادگار روس کی تاریخ میں ہمیشہ قائم رہی۔ کیوین رس نے نہ صرف
روس کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے کی بنیاد رکھی بلکہ عیسائیت کو اپنا کر روسی
شناخت کو بھی مستحکم کیا۔
ریازانووسکی اور دیگر مؤرخین کے مطابق، کیوین رس کی ریاست نے روس کی قدیم
تاریخ میں ایک اہم موڑ پیدا کیا اور روسی تہذیب کے بنیادی اصولوں کو متعین
کیا۔ یہ ریاست روسی قوم پرستی، ثقافتی وحدت، اور مذہبی عقائد کی بنیاد بن
گئی۔
نکولس ریازانووسکی کی کتاب کے مطابق کیوین رس نے روس کی سیاسی اور ثقافتی
ترقی میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ اس دور میں روس میں آرتھوڈوکس چرچ کی
بنیاد رکھی گئی، جو کہ آج بھی روسی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے۔
13ویں صدی میں منگولوں نے روس پر حملہ کیا اور تقریباً دو سو سال تک روس پر
اپنا غلبہ قائم رکھا۔ اس دور میں روسی شہزادے منگولوں کے زیرِ اثر تھے، اور
اس نے روس کے سیاسی ڈھانچے کو کمزور کر دیا۔
بعد ازاں، 16ویں صدی میں روس میں ایوان چہارم (Ivan the Terrible) کی
بادشاہت کا آغاز ہوا، جو کہ روس کا پہلا زار تھا۔ ایوان چہارم نے روسی
سلطنت کو وسعت دی اور مضبوط کیا، لیکن اس کے ظالمانہ اقدامات کی وجہ سے روس
کے اندرونی حالات مزید خراب ہو گئے۔
رابرٹ میسی، جو روسی بادشاہت پر ایک مشہور مؤرخ ہیں، اپنی کتاب "Peter the
Great: His Life and World" میں زار پیٹر اعظم کی حکمرانی کے بارے میں
لکھتے ہیں کہ پیٹر نے روس کو یورپی طرز پر ترقی دی، اور اسے ایک مضبوط فوجی
اور بحری طاقت میں تبدیل کیا۔
20ویں صدی کے آغاز میں روس کو پہلی جنگ عظیم اور اندرونی مسائل کا سامنا
کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں 1917 میں روس کا انقلاب آیا۔ اس انقلاب نے زار
حکومت کو ختم کر دیا اور کمیونسٹ حکومت کا قیام عمل میں آیا، جس کی قیادت
ولادیمیر لینن نے کی۔
جان ریڈ اپنی کتاب "Ten Days That Shook the World" میں 1917 کے روسی
انقلاب کے اہم واقعات کو بیان کرتے ہیں، اور انقلاب کے دوران لینن کی قیادت
اور انقلابی قوتوں کے کردار کو اجاگر کرتے ہیں۔ اس انقلاب کے نتیجے میں
سوویت یونین کا قیام ہوا، جو دنیا کی پہلی کمیونسٹ ریاست بنی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سوویت یونین ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرا، اور
دنیا دو بڑے بلاکس میں تقسیم ہو گئی: سوویت یونین اور اس کے اتحادی، اور
امریکہ اور مغربی طاقتیں۔ اس دور کو سرد جنگ کہا جاتا ہے، جس میں دونوں
طاقتوں کے درمیان فوجی اور نظریاتی کشمکش جاری رہی۔
ہنری کسنگر اپنی کتاب "Diplomacy" میں سرد جنگ کے دوران روس اور امریکہ کے
تعلقات کا تجزیہ کرتے ہیں اور سوویت یونین کے عالمی اثرات پر روشنی ڈالتے
ہیں۔ کسنگر کے مطابق، سرد جنگ کے دوران روس نے عالمی سطح پر کمیونزم کا
فروغ اور مغربی سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کی۔
1991 میں سوویت یونین کا زوال ہوا اور اس کی جگہ موجودہ روسی فیڈریشن نے لے
لی۔ سوویت یونین کے خاتمے نے روس کو اندرونی سیاسی اور معاشی بحرانوں کا
شکار کر دیا، لیکن اس کے باوجود روس عالمی سیاست میں ایک اہم کردار ادا
کرتا رہا۔
سٹیفن کوہن، جو روسی سیاست پر ایک مشہور ماہر ہیں، اپنی کتاب "Failed
Crusade" میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس کے اندرونی مسائل اور مغرب
کی جانب سے روس کے ساتھ تعلقات میں ناکامیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کے مطابق،
روس نے اپنی اقتصادی اور سیاسی طاقت کو بحال کرنے کے لیے کئی چیلنجز کا
سامنا کیا، لیکن صدر ولادیمیر پیوٹن کی قیادت میں روس نے دوبارہ اپنی عالمی
حیثیت کو مستحکم کیا۔
آج کا روس دوبارہ عالمی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ صدر
ولادیمیر پیوٹن کی قیادت میں روس نے شام، یوکرین، اور دیگر عالمی تنازعات
میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔ اس کے علاوہ، روس نے اپنی فوجی طاقت کو بھی
مضبوط کیا ہے اور عالمی سطح پر توانائی کے وسائل کی سیاست میں بھی اہم مقام
حاصل کیا ہے۔
فیونا ہل اپنی کتاب "Mr. Putin: Operative in the Kremlin" میں پیوٹن کے
دورِ حکومت کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ پیوٹن نے روس کو دوبارہ ایک
عالمی طاقت کے طور پر مستحکم کیا، اور مغربی طاقتوں کے مقابلے میں روس کو
مضبوط کیا۔
روس کی تاریخ ایک لمبی اور پیچیدہ کہانی ہے جو قدیم زمانے سے شروع ہوتی ہے
اور آج تک جاری ہے۔ روس نے اپنی تاریخ میں مختلف ادوار کا سامنا کیا ہے، جن
میں بادشاہت، کمیونزم، اور جمہوریت شامل ہیں۔ اس ملک نے عالمی سیاست پر
گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، اور اس کا کردار آنے والے وقتوں میں بھی اہم رہے
گا۔
روس کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے مختلف مصنفین اور مؤرخین کے حوالوں کو جاننا
ضروری ہے، جو اس ملک کی سیاسی، معاشی، اور سماجی ترقی کی گہرائیوں کو اجاگر
کرتے ہیں۔ روس نے نہ صرف عالمی سیاست میں اپنا اثر دکھایا ہے، بلکہ اپنے
منفرد سماجی ڈھانچے اور نظریات کے ذریعے دنیا کے مختلف خطوں پر بھی اثرات
مرتب کیے ہیں۔
|