اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان جاری تنازعہ ایک طویل اور پیچیدہ مسئلہ ہے
جس نے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کو متاثر کیا ہے۔ یہ تنازعہ کئی
دہائیوں سے جاری ہے اور اس کے بنیادی عوامل میں علاقائی سیاست، مذہبی
تنازعات، اور بین الاقوامی مداخلت شامل ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تنازعہ
کہاں تھمے گا؟ کیا کبھی اس مسئلے کا کوئی پائیدار حل نکل سکے گا؟ اس تحریر
میں ہم اس تنازعے کے مختلف پہلوؤں اور اہم تجزیہ کاروں اور دفاعی ماہرین کے
خیالات کا جائزہ لیں گے۔
اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان تنازعہ بنیادی طور پر فلسطین کی زمین پر
اسرائیلی قبضے اور فلسطینی عوام کے حقوق کے گرد گھومتا ہے۔ اسرائیل کے قیام
(1948) کے بعد سے فلسطینی عوام اپنی زمینوں سے بے دخل ہوئے اور مختلف جنگوں
اور تنازعات کے نتیجے میں کئی دہائیوں سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان
جھڑپیں جاری ہیں۔
ایڈورڈ سعید، جو ایک مشہور فلسطینی ماہرِ سیاسیات تھے، اپنی کتاب "The
Question of Palestine" میں اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ فلسطینی مسئلہ
ایک قومی حق خود ارادیت کا سوال ہے۔ ان کے مطابق، یہ تنازعہ اس وقت تک حل
نہیں ہو سکتا جب تک فلسطینی عوام کو ان کا حق خود ارادیت اور ایک آزاد
ریاست نہیں دی جاتی۔
اگرچہ ابتدائی دور میں زیادہ تر عرب ممالک اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں
کرتے تھے اور اس کے خلاف متحد تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے گئے۔
کئی عرب ممالک، جن میں مصر (1979) اور اردن (1994) شامل ہیں، نے اسرائیل کے
ساتھ امن معاہدے کیے۔ حالیہ برسوں میں ابراہم معاہدے (Abraham Accords) کے
تحت متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے ممالک نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی
تعلقات قائم کیے ہیں۔
یوسی میکلبرگ، جو ایک اسرائیلی ماہرِ سیاسیات ہیں، اپنی تحریروں میں اس بات
کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان معاہدوں کے ذریعے اسرائیل کو علاقائی قبولیت مل
رہی ہے، لیکن اس سے فلسطینی مسئلے کے حل کے امکانات کم ہو رہے ہیں۔ وہ
لکھتے ہیں کہ عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے فلسطینیوں کی
جدوجہد کمزور ہو سکتی ہے، کیونکہ عرب اتحاد جو پہلے فلسطینیوں کی حمایت میں
تھا، اب ٹوٹتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے اس تنازعے میں بین الاقوامی طاقتوں کا کردار بھی اہم رہا ہے۔
امریکہ کی اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات اور دفاعی تعاون نے اسرائیل کو خطے
میں ایک مضبوط فوجی طاقت بنا دیا ہے۔ دوسری طرف، ایران، جو اسرائیل کا ایک
اہم مخالف ہے، فلسطینی مزاحمتی تنظیموں جیسے حماس اور حزب اللہ کی حمایت
کرتا ہے۔
نوم چومسکی، جو ایک معروف امریکی ماہر لسانیات اور سیاسی تجزیہ کار ہیں،
اپنی کتاب "Fateful Triangle: The United States, Israel, and the
Palestinians" میں لکھتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی حمایت نے اس
تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ چومسکی کے مطابق، جب تک امریکہ اسرائیل
کو فوجی اور سفارتی حمایت فراہم کرتا رہے گا، اس وقت تک فلسطینیوں کے حقوق
کی بحالی اور اس تنازعے کا حل ممکن نہیں ہو گا۔
فلسطینی علاقوں میں موجود تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان مسلسل جنگ بندی
کے باوجود جھڑپیں جاری رہتی ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کی جانب سے
ہونے والے راکٹ حملوں کے جواب میں کاروائی کرتا ہے، جبکہ حماس اسرائیلی
جارحیت اور قبضے کے خلاف مزاحمت کرتی ہے۔ یہ مسئلہ ایک "zero-sum game" کی
مانند ہے جہاں دونوں فریق ایک دوسرے کو شکست دینے کے لیے مسلسل جنگ میں
مصروف ہیں۔
ایوی شیلائم، جو ایک معروف اسرائیلی مورخ ہیں، اپنی کتاب "The Iron Wall:
Israel and the Arab World" میں لکھتے ہیں کہ اسرائیل کی دفاعی پالیسی
ہمیشہ سے طاقت کے استعمال پر مبنی رہی ہے۔ ان کے مطابق، اسرائیل کا یقین ہے
کہ امن صرف اس وقت ممکن ہوگا جب وہ فوجی طور پر برتر ہو گا، اور یہی وجہ ہے
کہ حماس جیسے گروپوں کے ساتھ کبھی بھی طویل مدتی امن قائم نہیں ہو سکا۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان بھی ایک پراکسی جنگ جاری ہے جس میں ایران
فلسطینی مزاحمتی تنظیموں اور حزب اللہ کو مالی اور عسکری امداد فراہم کرتا
ہے۔ دوسری طرف، اسرائیل ایران کی جوہری صلاحیتوں کو ایک بڑے خطرے کے طور پر
دیکھتا ہے اور بارہا ایرانی تنصیبات پر حملے کرتا رہا ہے۔
مائیکل آکس مین، جو مشرق وسطیٰ کے ماہر ہیں، اپنی کتاب "Iran and Israel:
War or Peace?" میں لکھتے ہیں کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان یہ پراکسی
جنگ کبھی بھی براہ راست جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے، جس سے پورے خطے میں مزید
عدم استحکام پیدا ہو گا۔ ان کے مطابق، جب تک ایران اور اسرائیل اپنے
اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل نہیں کرتے، اس تنازعے کا دائرہ وسیع تر
ہوتا رہے گا۔
اگرچہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات اور امن معاہدے کی کوششیں کئی
بار کی گئی ہیں، لیکن یہ تنازعہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔ اسرائیل کی جانب
سے مغربی کنارے پر یہودی آباد کاریوں کا سلسلہ اور فلسطینیوں کے حقوق کی
پامالی عالمی برادری میں تشویش کا باعث ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ یہ
تنازعہ کہاں جا کر رکے گا؟
ٹام سیگف، جو ایک معروف اسرائیلی مورخ ہیں، اپنی کتاب "A State at Any
Cost: The Life of David Ben-Gurion" میں لکھتے ہیں کہ اسرائیل کا قیام ایک
تاریخی ناگزیر عمل تھا، لیکن فلسطینی عوام کے حقوق کو نظر انداز کرنے سے یہ
تنازعہ ختم نہیں ہو سکتا۔ ان کے مطابق، جب تک فلسطینیوں کو انصاف اور خود
مختاری نہیں دی جائے گی، اس تنازعے کا کوئی پائیدار حل ممکن نہیں ہے۔
اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان جاری تنازعہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی
مسئلہ ہے جو مذہب، سیاست، دفاع اور بین الاقوامی مداخلت کے عوامل پر مبنی
ہے۔ مختلف تجزیہ کاروں اور دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ اس تنازعے کا فوری
حل ممکن نہیں ہے۔ جب تک فلسطینی عوام کو ان کے حقوق نہیں ملتے اور علاقائی
طاقتیں اپنے مفادات کو ترک کر کے امن کی جانب قدم نہیں بڑھاتیں، یہ تنازعہ
جاری رہے گا۔
اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان تنازعہ ایک عالمی چیلنج بن چکا ہے جس کے
اثرات نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ کہاں
جا کر رکے گا؟ یہ سوال ابھی تک جواب طلب ہے۔
|