عالمی صف بندیوں میں کیا ہو رہا ہے؟

دنیا کی سیاست میں ہر دور میں عالمی صف بندیوں کا اہم کردار رہا ہے۔ مختلف ممالک اپنے معاشی، سیاسی اور دفاعی مفادات کے پیشِ نظر اتحاد بناتے ہیں تاکہ اپنے دشمنوں کا مقابلہ کیا جا سکے یا اپنے مفادات کو بڑھایا جا سکے۔ آج کے دور میں عالمی صف بندیاں زیادہ پیچیدہ اور مختلف عوامل پر مبنی ہیں، جن میں علاقائی تنازعات، عالمی معیشت، دفاعی پالیسیز اور توانائی کے وسائل شامل ہیں۔

پہلے سرد جنگ کے دوران دنیا دو بلاکس میں بٹی ہوئی تھی: ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی (نیٹو) اور دوسری طرف سوویت یونین اور اس کے اتحادی (وارسا پیکٹ)۔ لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد، دنیا میں اب صرف دو بلاکس کی بجائے متعدد عالمی طاقتیں ابھر رہی ہیں۔ یہ ایک "ملٹی پولر ورلڈ" کہلاتی ہے جس میں مختلف ممالک مختلف علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جیو پولیٹیکل ماہر زبیگنیف برژینسکی اپنی کتاب "دی گریٹ چیس بورڈ" میں لکھتے ہیں کہ دنیا اب مزید ایک یا دو سپر پاورز پر منحصر نہیں رہی۔ امریکہ کے ساتھ ساتھ چین، روس، یورپی یونین، بھارت، اور دیگر علاقائی طاقتیں ابھر کر سامنے آ رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ علاقائی اتحاد اور معاشی بلاکس بھی تشکیل پا رہے ہیں، جیسے یورپی یونین، آسیان، اور بریکس۔

چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معاشی اور فوجی طاقت نے عالمی صف بندیوں کو نئے زاویوں میں منتقل کر دیا ہے۔ چین اپنی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کے ذریعے دنیا کے مختلف حصوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ یہ منصوبہ ایشیا، یورپ، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں تجارتی راستوں کو بہتر بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے، جس سے چین کو عالمی سطح پر ایک تجارتی سپر پاور بننے میں مدد مل رہی ہے۔

ہنری کسنجر اپنی کتاب "آن چائنا" میں لکھتے ہیں کہ چین کی سفارتی پالیسیز اور معاشی ترقی نے امریکہ کو عالمی طاقت کے توازن کو دوبارہ سے سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان جاری سرد جنگ جیسے حالات، جیسے تجارتی تنازعات اور جنوبی چین کے سمندر میں فوجی سرگرمیاں، عالمی صف بندیوں میں نئی حرکیات کا اضافہ کر رہے ہیں۔

روس اور مغربی ممالک کے درمیان جاری تناؤ، خاص طور پر یوکرین کے تنازعہ کی وجہ سے، عالمی صف بندیوں میں ایک نیا تنازعہ پیدا کر رہا ہے۔ نیٹو اور روس کے درمیان تعلقات کی خرابی نے یورپ میں جنگ کے خطرے کو بڑھا دیا ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنی خارجہ پالیسی کو مغربی تسلط کو چیلنج کرنے پر مرکوز کر رکھا ہے، جس کا مظاہرہ انہوں نے کریمیا کے الحاق اور شام میں فوجی مداخلت کے ذریعے کیا ہے۔

جان میرشائمر، جو جیوپولیٹکس کے ایک ماہر ہیں، اپنی کتاب "دی ٹریجڈی آف گریٹ پاور پولیٹکس" میں لکھتے ہیں کہ روس مغربی بالادستی کو ختم کرنے کے لیے مسلسل کوششیں کر رہا ہے۔ میرشائمر کے مطابق، یوکرین کے تنازعے میں روس کا جارحانہ رویہ اس کی مغربی فوجی اتحادوں سے شدید مخالفت کا اظہار ہے۔

امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ اور جنوبی چینی سمندر میں فوجی سرگرمیوں نے دنیا کو ایک نئی سرد جنگ کی طرف دھکیل دیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ٹیکنالوجی، تجارت، اور فوجی برتری کی دوڑ نے عالمی سیاست میں شدید تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔

گراہم ایلیسن اپنی کتاب "دی تھوسی ڈائیڈز ٹریپ" میں بیان کرتے ہیں کہ جب بھی ایک بڑھتی ہوئی طاقت (چین) ایک موجودہ طاقت (امریکہ) کو چیلنج کرتی ہے، تو جنگ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایلیسن کے مطابق، امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتا ہوا تناؤ اس بات کا اشارہ ہے کہ دونوں ممالک اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے تصادم کے قریب ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں صف بندیاں ہمیشہ سے اہم رہی ہیں، لیکن عرب بہار اور شام کی خانہ جنگی کے بعد ان میں نئی جہتیں پیدا ہو چکی ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان جاری پراکسی جنگ نے خطے کو مزید غیر مستحکم کیا ہے۔ دونوں ممالک اپنے اپنے اتحادیوں کے ذریعے یمن، شام اور عراق میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

فواد عجمی، ایک معروف مشرق وسطیٰ کے ماہر، اپنی کتاب "دی ڈریم پیلس آف دی عربز" میں بیان کرتے ہیں کہ عرب دنیا میں جاری صف بندیاں بنیادی طور پر فرقہ وارانہ، سیاسی اور معاشی مفادات کے گرد گھومتی ہیں۔ سعودی عرب کا مغربی ممالک کے ساتھ قریبی اتحاد اور ایران کا روس اور چین کے ساتھ تعلقات اس خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کر رہے ہیں۔

دنیا کی معیشت میں بھی صف بندیاں ہو رہی ہیں، اور بریکس (برازیل، روس، انڈیا، چین، ساؤتھ افریقہ) جیسے بلاکس کا قیام اس کا ثبوت ہے۔ بریکس کے ممالک دنیا کی ایک بڑی آبادی اور معاشی پیداوار کا حصہ ہیں، اور یہ گروپ عالمی سطح پر مغربی تسلط کے خلاف کھڑا ہو رہا ہے۔ جی 20 بھی عالمی معیشت کی نگرانی اور ترقی کے حوالے سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

جوزف اسٹگلیٹز، نوبل انعام یافتہ معیشت دان، اپنی کتاب "گلوبلائزیشن اینڈ اٹس ڈس کانٹینٹس" میں لکھتے ہیں کہ عالمی معیشت کی موجودہ صورتحال میں بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نئی صف بندیوں میں شامل ہو رہی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک بھی اب اپنے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ معاشی اتحاد قائم کر رہے ہیں۔

عالمی صف بندیاں ہمیشہ سے عالمی سیاست اور معیشت کی تشکیل میں اہم رہی ہیں، لیکن آج کے دور میں یہ صف بندیاں زیادہ پیچیدہ اور کثیر جہتی ہو چکی ہیں۔ چین، امریکہ، روس، اور دیگر طاقتیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نئے اتحاد بنا رہی ہیں، اور یہ عمل عالمی استحکام کے لیے اہم چیلنجز پیدا کر رہا ہے۔ مختلف ممالک اپنے علاقائی اور عالمی مفادات کے تحفظ کے لیے نئی صف بندیاں تشکیل دے رہے ہیں، اور یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔
 

Altaf Ahmad Satti
About the Author: Altaf Ahmad Satti Read More Articles by Altaf Ahmad Satti: 56 Articles with 10630 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.