یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہماری نئی نئی شادی ہوئی تھی
پوسٹنگ اس وقت میاں جی کی سرگودھا میں تھی کسی بھی ایئرفورس بیس پر رہنے کا
یہ ہمارا پہلا پہلا تجربہ تھا ۔ ابھی تو بس ہم آئے ہی تھے گھر کی کوئی
سیٹنگ بھی نہ ہوپائی تھی اور ابھی ہم اس مکان کو خوب صورتی سے سجانے کا سوچ
ہی رہے تھے کہ ہم پر بھی وہ افتاد آپڑی جو ہم کو یقین ہے کہ آپ سب کے ساتھ
بھی کبھی نا کبھی ضرور گزری ہوگی۔
کہ جب پچھلے دنوں بارشوں کا سلسلہ جاری تھا اور برسات کے اس دلفریب موسم
میں مجھے وہ رات یاد آجاتی ہے جو شاید میں کبھی نہیں بھول سکتی.
چلیے پھر آپ لوگوں کو بھی سناتے ہیں اس رات کی کہانی :
سرگودھا ہم ابھی نئے نئے آئے تھے اس لیے گھر کی کچھ خاص سیٹنگ نہیں ہو پائی
تھی کہ میاں جی کو حکم ملا کہ ایک دن کے لیے انکو اسلام آباد جانا پڑے گا
اور جانا بھی جلدی تھا سو وہ ڈھیر ساری ہدایتیں ہمیں دیتے جا رہے تھے اور
ہم آنے والی اس نئی صورت حال کے لیے جرت پیدا کررہے تھے کہ جناب ہمیں سمجھا
کر وہ خود چلے گئے اور رہ گئے ہم اور ہمارے ساتھ بےشمار ڈر جیسے اکیلے رہنے
کا ڈر ، نئی جگہ کا ڈر اس موقعے پر صرف ایک ہستی یاد آتی ہے سو ہم نے بھی
اپنی مما کو فون لگایا اور ان سے بات کر کے جہاں کافی تسلی ہوئی وہیں باتوں
باتوں میں رات ہوجانے کا پتہ ہی نہ چلا اور فون بند کر نے کے بعد ہم نے
انکی ہدایتوں کے مطابق گھر کے مین ڈورز کے لاک کو ری چیک کیا جتنی سورتیں
یاد تھیں سب پڑھ لیں مگر نیند نے نہ آکر دیا سو ہم نے پوری رات مویز دیکھتے
گذار دی صبح کے وقت آنکھ لگی مگر فون کی گھنٹی سے آنکھ کھلی میاں جی کا فون
تھا کہ وہ آج نہیں آپائیں گے موسم کی خرابی کی وجہ سے اس پر ہم نے صبر ہی
کرنا تھا سو صبر کا گھونٹ پیا اور پھر سے سونے کی کوشش کی مگر نیند بھی اب
نہیں آرہی تھی سو اٹھ گئے۔
دن بھی کچھ ایسا خاص نہ گذرا رات بھر کی جگائی اور آگے کے دنوں کے ڈر نے دل
کچھ بوجھل سا کردیا تھا.شام کی چائے لیے ہم باہر باگیچے میں آگئے جناب یہ
سہانا موسم ہمیشہ سے ہماری کمزوری رہی ہے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اور ساتھ میں
ہلکی ہلکی بوندا باندی ساتھ میں گرم چائے واہ کیا جوڑ ہے ہم نے خود کو
سمجھایا کہ ایسا بھی کیا ڈرنا تم تو ویسے بھی بہت بہادر ہو اور بس ایک رات
کی ہی تو بات ہے۔
مگر ہمیں کیا پتا تھا کہ جو جرت ہم اپنے اندر جگا رہے تھے وہ کچھ دیر کی
مہمان ہے کیونکہ جناب جیسے جیسے وقت گذرا موسم جو پہلے سہانا لگ رہا تھا وہ
غضب ناک سا لگنے لگا. بادل ایسے گرج رہے تھے کہ لگتا تھا کہ جان نکال دیں
گے دوسری طرف بجلی صاحبہ بھی زور و شور سے چمک رہی تھیں اور سونے پہ سہاگہ
یہ ہوا کہ لائٹ بھی چلی گئی موبائل کی ٹارچ سے کچھ ڈھارس حاصل ہوئی مگر
لائٹ کے جانے سے ڈر میں مزید اضافہ ہو گیا اب تو جب بھی بجلی چمکتی باہر کے
درخت جو تیز ہوا سے جھول رہے تھے کبھی گروچ (grudge) کبھی ڈریکولا
(dracula) کی شکل میں نظر آنے لگتے ایسے موقع پہ جو ہر انسان کرتا ہے ہم نے
بھی وہی کیا جتنی صورتیں یاد تھیں سب پڑھنے لگے کہ اتنے میں مین ڈور زور
زور سے پیٹنے کی آواز آنے لگی یہ کون ہو سکتا ہے؟ پہلا سوال جو ذہن میں آیا
میں تو یہاں کسی کو بھی نہیں جانتی اور میاں جی نے تو خود آج آنے سے منع
کیا تھا پھر بھلا کون ہوسکتا ہے. ہم یہ سوچ رہے تھے اور وہاں دروازہ اتنی
زور سے پیٹا جارہا تھا کہ ابھی نہ کھولا تو جو کوئی بھی ہے وہ دروازہ توڑ
کر اندر آجائے گا سوچئیے اس وقت ہماری کیا حالت ہوئی ہوگی آیت لکرسی پرھنے
کی رفتار اور تیز ہوچکی تھی. دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا کہ جیسے ابھی
باہر آجائے گا اور ہاتھ بلکل ٹھنڈے یخ تھے (ایسا ہمارے ساتھ ہوتا ہے جب ہم
کبھی اس طرح کی کیفیت میں ہوتے ہیں). خیر جب تھوڑی دیر ہوگئی مگر دروازہ
یونہی بجتا رہا تو سوچا ہمت کرکے دیکھ لیتے ہیں آخر کون ہے ایسے وقت میں
قریب جاکر پوچھا کون ہے مگر باہر سے جواب نادارد۔
ارے بھئی جو کوئی بھی ہو کم از کم کچھ بولو تو نہ مگر جناب اس دفعہ بھی
کوئی جواب نہ آیا آخر کون ہو سکتا ہے جو بول بھی کچھ نہیں رہا،ہم نے ڈرتے
ڈرے مگر آواز کو مضبوط بناکر دھمکی دی کہ اگر بتاو گے نہیں کون ہو ہم بھی
دروازہ نہیں کھولیں گے باہر سے آواز آئی یار کھول بھی دو اتنی بارش میں
کتنی دیر سے باہر کھڑا ہوں. ارے یہ تو جانی پہچانی آواز ہے ہم نے جھٹ سے
دروازہ کھولا سامنے آپ لوگ یقین کریں گے کس کو پایا جی میاں جی ہی تھے
بچارے بری طرح بارش میں بھیگے ہوئے۔(بچارے ہماری وجہ سے اپنے باس سے منت
سماجت کر کے چھٹی لے کر آئے تھے )
انکے آتے ہی تھوڑی دیر بعد لائٹ بھی آگئی تھی دل کو سکون بھی ملا اور حیرت
انگیز طور پر باہر کا منظر بھی اب اتنا بھیانک نہیں لگ رہا تھا۔
سچی بات ہے اگر آپ کے پاس ایک مضبوط اور خیال رکھنے والا ساتھی ہو تو زندگی
کا ہر منظر دلفریب نظر آتا ہے۔
از:غازیہ
|