*آدمی*
جانور آدمی فرشتہ خدا
آدمی کی ہیں سینکڑوں قسمیں
مولانا حالی کایہ شعر بہت بڑی حقیقت کا غماض ھے گرچہ اسی بات کو ایک دوسرے
پیرائے میں یوں کہا گیا ھے
بس کہ مشکل ھے ہر ایک کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
اپنی مشہوری کے اعتبار سے یہ شعر کہیں آگے ھے مگر حالی کا سادہ طرز بیاں سب
کچھ کھول کر سامنے رکھ دیتا ھے
آئیے دیکھتے ہیں وہ کون سی صفات ہیں جو انسان کو انسانیت کی بلندیوں کا سفر
طے کراتی نظر آتی ہیں
ایک معالج کی نظر سے دیکھا جائے تو انسانی جسم عمومی طور پر یکساں نظر آتا
ھے اور جسم وخدوخال کی بہتری یا برتری کیونکہ انسانی صنعائی سے بالکل الگ
مقام کی حامل ھیں یوں آدمی ابن اور بنت آدم کی تفریق سے زیادہ کچھ اورفرق
نہیں رکھتا
بلندی کی معراج تک جانے میں قدرتی فرق کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتا
یہ سچ ھے ہمارا معاشرہ مرد کو زیادہ مواقع دیتا ھے سیکھنے اور عمل کرنے کے
ساتھ اپنے اندر کے اوصاف کو اجاگر کرنے کےمگر دوسری صنف بھی بالکل محروم
نہیں اس کو جب جہاں موقع ملا اس نے اپنے کردار سے ثابت کیا اور نہ صرف ذات
سے بلکہ اپنی گود کے پالوں کو انسانیت کی معراج تک لیجانے میں اس کا بہت
مثبت کردار رھاھے
انسان اپنی تخلیق اور بالیدگی ساتھ ھی قدر سے بھی اگاہ ہوتا گیا وہ اچھے
اور برئے کی تمیز اور تخصیص بہت جلدی جان گیا وہ سمجھنے لگا تو کھوج میں
اسرار قدرت کے پرتوں کو کھولنے میں مصروف ہوگیا مگر نادان انسان ڈھونڈنے
والا ستاروں کی گزرگاھوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا یا یوں
کہہ لیجیے کہ راستوں کے انتخاب میں الجھ کر رہ گیا
آدمی کو سمجھنا ھے تو نظیر اکبرآبادی سے سمجھنا چاھیے انہوں نے آدمی کو
کہاں کہاں ڈھونڈھا اور کہاں کہاں پایا۔
یاں آدمی پہ جان کو وارے ھے آدمی
اور آدمی پہ تیغ کو مارے ھے آدمی
پگڑی بھی آدمی کی اتارے ھے آدمی
چلا کے آدمی کو پکارے ھے آدمی
اور سن کہ دوڑتا ھے سو ھے وہ بھی آدمی.
اس ایک بند میں انہوں نے آدمی کی کتنی صفات گنوادیں گویا دریا کو کوزے میں
بند کردیا
محبتوں میں جان تک وار دینے میں جو آدمی پس پیش نہیں کرتا وہی آدمی ایک
معمولی حقیر سی چیز کیلئے دوسرے کی جان تک لے لینے سے جھیجھکتا نہیں
اخلاقی تربیت تہزیبی ارتقا کا مرکز تو ہمیشہ سے گھر ہی تھے گھر ہی ہیں تو
سوچنا پڑے گا یہ قتل وغارت گری صرف معاشی مجبوریاں کروارہی ہیں یا کچھ
خوشحال گھرانوں کے نوجوانوں کیلئے اپنی اور دوسرں کی زندگیاں محض کھیل
تماشہ بن گئی ہیں آخر یہ سڑکوں پہ ون ویلینگ کرتے نوجوان اپنی ہی نہیں کتنی
دوسری زندگیوں سے بھی کھیل رھے ہوتے ہیں
انکھوں کوموندلینے سے خطرہ نہ جائے گا
وہ دیکھنا پڑے گا جو دیکھا نہ جائ گا.
ہمارے بچے ہماری زندگیوں کا محور ہماراروشن کل اسے جگمگانا ھے اور اس کے
لیئے ہم سب کو اپنی انکھیں کھلی رکھنی ھیں ہمیں یاد رکھنا ھے جو بڑے کہتے
تھے
کھلاو سونے کا نوالہ دیکھو شیر کی نظر سے
ہم تو معاشرے کو بنانے والے لوگ ہیں کسی بگاڑ کا سبب ہم نہیں ہوسکتے۔
ہمیں اپنے بچوں کو محدود آزادی دینی ھے ان کی منزل جو ہمیں بتانی ھے وہ
اک اچھا انسان بنیں گے
آگے ان کی محنت حوصلہ مقدر
تربیت اولاد دنیا کا سب سے مشکل کام رھا ھے ہر دور میں ہمیں اپنے والدین
اساتذہ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اگر ابھی ان میں سے کسی کا مشفق سایہ
موجود ھے تو ان کا خیال رکھنا چاھیے اور اگر وہ اب اس فانی دنیا کا حصہ
نہیں تو دعاوں کا حصہ تو ضرور ہونا چاھیے
ہمارے بچے ہمارے عمل ہی سے تو اخلاق وکردار کی بلندیوں تک پہنچیں گے۔
گھر پیارا گھر کوئی ہملوگوں سے پوچھے ہماری زندگیوں میں گھر سے احساس کی اک
دوسری دنیا منکشف ہونے لگتی ھے جب ہم اور ہمارے گھر ایک دوسرے سے مانوس
ہونے لگتے ہیں تو یکایک ازن سفر آجاتا ھے اور پھر گھر ہی نہیں دوسرا علاقہ
دوسرے ساتھی
حد ھے کہ موسم تک غرض دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بدل کر رہ جاتا ھے
میں اپنی بات کروں شاید زیادہ خواتین مجھ سے متفق ہونگی کہ سجانا سنوارنا
ان ہی کا کام ھے جب چھوڑنے لگو تو جیسے دیوار و در قدموں سے لپٹتے محسوس
ہوتے ہیں
آخر میں کہنا چاھوں گی سب سے آدمی بلبلہ ھے پانی کا تو سب کریں مگر کبھی
کبھی خود سے بھی پوچھ لیا کریں
مزاج اچھا تو میرا ھے طبیت خوش تو میری ھے
فراز کا یہ مصرعہ بہت مقبول ہوا کہ
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا مگر دشمن بھی تو نہیں ہوتا بہرحال ہاتھ
بڑھانے والا تو ہوتا ہہی ھے دلوں کی زمین عموما نرم ہوتی ھے اس میں رواداری
٫مروت٫صبر٫
برداشت کے بیج ڈالے جائیں اور اخلاص کے پانی سے آبیاری کی جائے تو بہت جلد
محبت کی فصل لہلہانے لگتی ھے
یہی وجہ ھے کہ ہم لوگ بہت جلد ایک دوسرے ماحول میں اک دوسرے کے ساتھ اچھے
پرخلوص رشتوں میں بندھ جاتے ہیں چھو ڑتے وقت سب اچھے لوگ قیمتی یادوں کاحصہ
بن جاتے ہیں.
انسانیت کے معراج پر پہنچنا آسان نہیں صبر برداشت کے ساتھ بہت سی خواہشات
کی قربانیاں ہی وہ سیڑھیاں ہیں جن پر مسکراتے ہوئے چڑھتے ہوئے لوگ ھی تو وہ
ہیں
جن سے مل کر زندگی سے پیار ہوجا ئے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
دنیا میں زیادہ لوگ نام سے پہچانے جاتے ہیں وقت بہت ظالم ھے جہاں انسان
نظروں سے اوجھل ہوا اس کا نام بھی وقت کی گرد میں دھندلا ساجاتا ھے ھاں مگر
اسی دنیا میں جو لوگ اپنے کام سے جانے جاتے ہیں وقت ان کے نام بھی یاد
رکھتا ھے انسان آدمیت کے مقام تک پہنچ کر ھی اپنی صحیح جگہ پہنچتا ھے
کیونکہ انسان کی قدر وقیمت کا تعین وہ ہنر وہ علم وہ محنت سے طے ہوتا ھے
جسمیں وہ طاق ھو۔
|