ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب، لڑکی معافی کیوں مانگے؟

بحیثیت مسلمان میں ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کو بہت پسند کرتا ہوں۔ دین ِ اسلام کی تبلیغ و ترویج کے لئے انکی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ گذشتہ دنوں لکی مروت کی رہائشی لڑکی کی جانب سے پوچھے گئے سوالات پر ڈاکٹر صاحب کو سیخ پا ہوتے دیکھ کر حیرانی ہوئی ۔ ڈاکٹر صاحب کے لب ولہجے اور غصے نے حیران کردیا ، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے لڑکی نے ڈاکٹر صاحب کی ذات پر کوئی الزام لگا دیا ہو۔ پہلی بات لڑکی نے تقابل مذاہب پیش نہیں کیا تھا۔ وہ تو صرف یہی پوچھنا چاہ رہی تھی کہ اتنے مذہبی ماحول میں بھی لوگ اس طرح کی قبیح حرکات کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دینے کی بجائے ڈاکٹر صاحب نے سوال ہی غلط قرار دے دیا۔ اور بار بار معافی مانگنے کی تلقین کرتے رہے۔ اک موقعے پرایسا محسوس ہورہا تھا کہ سوال پوچھنے والی لڑکی کو سجدہ شکر ادا کرنا چاہیے کہ ڈاکٹر صاحب یا انکے چاہنے والوں نے اس لڑکی پر توہین مذہب کا مقدمہ درج کرنے کا حکم یا فتویٰ جاری نہیں کردیا۔

ڈاکٹر صاحب سے حد درجہ محبت کرنے والوں نے ڈاکٹر صاحب کے طرزعمل پر توجیہات اور وضاحتیں دینے کیساتھ ساتھ لڑکی کو غیر ملکی ایجنٹ، لبرل مافیا کی رکن وغیرہ وغیرہ قرار دے دیا ہے۔ لڑکی پر ہونے والی تنقید پر مجھے سال جون 2021کا واقعہ یاد آگیا۔ جب بندہ ناچیز نے مشہور زمانہ مفتی عبدالعزیز موضوع پر"قوم لوط کی بیماری ہے ابھی تک ہے جاری"ٹائٹل سے کالم لکھا تو راقم کو اس وقت شدید تنقید، گالیوں ، فتووں ، دھمکیوں اور بددعاؤں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اور اپنے آپکو پکا سچا مسلمان اور محبت وطن ثابت کرنے کے لئے اک اور کالم "مفتی عزیز کالم لکھنے پر ملنے والی گالیاں، فتوے اور بدعائیں" ٹائٹل سے کالم لکھنا پڑا۔
لڑکی کا واضح سوال کہ ایک طرف سوسائٹی کے لوگ بظاہر بہت مذہبی ہیں اور دینی شعائر کے پابند ہونے کے ساتھ ساتھ تبلیغی اجتماعات بھی منعقد کرواتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ دوسری طرف نشہ آور ادویات کا استعمال، بدکاری، بچوں کے ساتھ زیادتی اور سود جیسے جرائم میں بھی ملوث ہیں۔ سوال دراصل معاشرے کے متضاد رویے پر تھا لیکن ڈاکٹر صاحب نے سوال کو ہی متضاد قرار دے دیا۔ میرے خیال میں لڑکی یہ جاننے کی کوشش کررہی تھی کہ اس بد ترین عملی تضاد کے پیچھے آخر کیا عوامل ہوسکتے ہیں؟اور اس مسئلے کا حل کیا ہو سکتا ہے؟ مگر انہوں نے الٹا سوال کرنے پر ہی ڈانٹ پلا دی۔

ڈاکٹر صاحب اور ان سے محبت کرنے والے دوستوں سے چند سوالات ہیں: سوال پوچھنا گناہ/جرم کب سے ہوگیا؟ کیا پاکستان اسلامی ریاست نہیں ہے؟ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں زنا، لونڈے بازی، سود خوری، رشوت ستانی، جھوٹ ایسے کبیرہ گناہ و جرائم رپورٹ نہیں ہوتے؟ کیا مساجد، مدارس، سکول، کالج، یونیورسٹی، گھروں، محلوں میں زنا اور قوم لوط جرائم کے مقدمات درج نہیں ہوتے؟کیا ان گناہوں ، جرائم کے سددباب کے لئے قوانین و سزائیں موجود نہیں ہیں؟ اسلامی معاشرے میں گناہ کیوں نہیں ہوسکتے؟ اگر ایسا نہ ہونا ہوتا تو حدود کے قوانین نافذ ہی کیوں کئے جاتے؟ ڈاکٹر صاحب کو غصہ کیوں آیا؟ لڑکی معافی کیوں مانگے؟ اب ڈاکٹر صاحب کے جواب کو دوسرے رخ سے دیکھتے اور سوچتے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں ایسے گناہ و جرائم نہیں ہوسکتے ۔ آئین پاکستان کے مطابق وطن عزیز اسلامی ریاست ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے اپنے ہی کلیے کے مطابق جرائم میں ملوث علاقے کے افراد اور خصوصا آئمہ مساجد اور مدرسین کو دائرہ اسلام سے خارج کر نا پڑے گا (خدانخواستہ) اور پاکستان کو غیر اسلامی ریاست ڈکلیئر کرنا پڑے گا (خدانخواستہ)۔ افسوس اس بات پر بھی ہورہا ہے کہ شائستگی سے پوچھے گئے صاف اور سادہ سوال کا جواب انتہائی کرخت اور دھتکارنے انداز میں دیا گیا (بلکہ جواب تو دیا ہی نہیں گیا) تو اس وقت وہاں بیٹھے افراد تالیاں بجا کر ڈاکٹر صاحب کو داد دے رہے تھے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سوال پوچھنے والے کو تنقیدی اور توہین مذہب کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ افسوس اس بات پر بھی ہو رہا ہے کہ اتنے عظیم داعی و مبلغ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ سوال پوچھنے پر معافی طلب نہیں کی جاتی۔ کیونکہ سوال کبھی غلط نہیں ہوتا سوال غیر متعلق ضرور ہوسکتا ہے۔ لہذا آپ سوال کا جواب دیں گے یا غیر متعلق سمجھ کر نظر انداز کردیں گے۔ غلط ہمیشہ جواب ہوتا ہے، اسی پر معافی مانگی جاسکتی ہے۔ آپ کا کام تھا جواب دینا، مگر روایتی مولوی سے بھی کئی قدم آگے نکل کر نہ صرف یہ کہ ناشائستگی کی، بلکہ تین بار معافی کے لیے اصرار کیا۔ سادہ سے سوال پر توہین مذہب کا تاثر ظاہر کردیا۔

سیرت نبی ﷺ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ سے لوگ سخت اور عجیب و غریب سوالات بھی پوچھتے تو نبی دوجہاں ﷺکسی کو ڈانٹتے نہیں تھے بلکہ احسن طریقہ سے اسکی اصلاح فرماتے تھے۔ حضرت ابو امامہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجئے۔ نوجوان کی یہ بات سن کر صحابہ اس کی طرف متوجہ ہو کر اسے ڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے، لیکن نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے نوجوان سے فرمایا میرے قریب آجاؤ، وہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ بالآخر نبی کریم ﷺ کے حُسن سلوک و تبلیغ اور دعا کی بدولت اس نوجوان نے ساری زندگی گناہ کی طرف نہ دیکھا۔ کاش ڈاکٹر صاحب نبی کریم ,ﷺ کی تعلیمات کے عین مطابق سوال پوچھنے والی لڑکی سے حُسنِ سلوک کرتے ۔
ٓآخر میں ڈاکٹر صاحب سے میرا اک سوال ہے کہ مسجد، مدرسہ سے متبرک کوئی اور جگہ نہیں ہوسکتی مگر افسوس آئے روز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مولوی حضرات کے خلاف زنا اور لونڈے بازی کے مقدمات درج کیوں ہورہے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب! معافی لڑکی کو نہیں بلکہ آپکو اپنے طرز عمل پر مانگنی چاہیے۔
 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 205 Articles with 150813 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.