"مٹی کا دیا "پاکستانی ادب کے شاہکار ادیب اور دانش ور
میرزا ادیب کی سوانح عمری ہے ۔ اس کتاب میں میرزا ادیب نے اپنی والدہ کے
حوالے سے ایک گرانقدر مضمون شامل کیا ہے، جو ان کی والدہ کی محبت کا اظہار
بنتا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں جب والدہ اپنی شادی کے بعد سسرال آئیں تو انہیں
بتایا گیا کہ ان کے مرحوم سسر بڑے عالم فاضل آدمی تھے ۔سارا شہر ان کی عزت
کرتا تھا،وہ ایک وکیل کے منشی تھے ۔والدہ ہر صبح سب سے پہلے بستر سے اٹھتیں
، وضو کرکے قرآن پاک اور رحل لے کر صحن میں ایک پرانے لکڑی کے تخت پوش پر
بیٹھ جاتیں اور ایک چوتھائی سپارہ پڑھنے کے بعد دعا مانگ کررحل اور قرآن
درمیانی کمرے میں ایک اونچی جگہ رکھ دیتیں ۔ پھر یکے بعد دیگرے اپنے سارے
بچوں کے چہروں پر پھونک مارتیں۔میں جب بچہ تھا تو میں نے دو تین بار امی کو
آٹا گوندھتے یا کسی کمرے میں جھاڑودیتے ہوئے یک لخت اس عالم میں دیکھا کہ
اپنے ہاتھ روک کر وہ اوپرٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگتیں اور پھراپنے دوپٹے کے
پلو سے آنکھیں پونچھ لیتیں۔ایسے لمحات میں یقینا انہیں اپنے وہ خواب یاد
آتے ہونگے جو انہوں نے اس گھر میں قدم رکھنے سے پہلے دیکھے تھے ۔اس وقت جو
بچہ بھی ان کے قریب ہوتا وہ اسے اٹھا کر بے تحاشا چومنے لگتیں ۔میں ابھی
چھوٹا ہی تھا کہ دادی اماں مجھے اپنے گھر لے گئیں ۔وہاں مجھے گھومنے پھرنے
اور کھانے پینے کے سوا اور کوئی کام نہ تھا ۔ جب میں آوارہ گردی کرتا ہوا
اپنی امی کے گھر آتاتو والدہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوتیں۔ میری پیشانی
چومتیں اور واپس دادی گھر بھیج دیتیں ۔دادای اماں نے مجھے کاریگر بنانے کے
لیے بڑھئی کے سپرد کردیا ۔ میں وہاں سے بھاگ آیا ۔ پھر دادی مجھے ایک لوہار
کے پاس لے گئیں ۔چند روز بعد میں وہاں سے بھی بھاگ نکلا ۔دادی اماں کے
دونوں نسخے ناکام ہو چکے تھے ۔اب سوائے آوارہ گردی کے مجھے کوئی کام نہ
تھا۔ میرے پھوپھا کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ یہ لڑکا خود کو برباد
کررہا ہے۔ انہوں نے مجھے کارپوریشن کے سکول میں داخل کرا دیا ۔دادا جان کے
بعد پورے خاندان میں میں پہلا فرد تھا جس نے علم حاصل کرنے کی خاطر سکول
میں قدم رکھا تھا ۔اس کے بعد پھوپھا کے کہنے پر میں اپنی والدہ کے گھر
منتقل ہو گیا۔والدہ نے سفید کپڑے کو نیلے رنگ میں رنگ کر اس کا بستہ بنا یا
اور اس میں میرا قاعدہ ، سلیٹ ،دو قلمیں اور ایک کاپی ڈال دی ۔دوسرے روز جب
میں سکول جانے کے لیے تیار ہوا تو والدہ نے اپنے دوپٹے کی گرہ کھول کر دو
پیسے نکالے، میرا ماتھا چوما اور پیسے میرے ہاتھ پر رکھ دیئے ۔دلور ۔گند
بلا نہ کھانا ۔میں نے اثبات میں سر ہلادیا تو وہ میرے ساتھ سیڑھیوں سے اتر
کر نیچے آئیں اورایک بار پھر تاکید کی ۔گند بلا نہ کھانا اور گھوڑے سے بچ
کے رہنا ۔ گلی کا آدھا راستہ طے کرکے میں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو امی
دروازے پر کھڑی تھی اور ساتھ والی پڑوسن کو بتارہی تھی، دیکھو میرا دلور
سکول جارہا ہے ۔اباجان نے ایک دن غصے میں آکر میری کتابیں اماں پھاتاں کی
بھٹی میں بھینک دیں تو امی نے دیکھا تو وہ بھاگتی ہوئی آئیں اور آگ میں
اپنا ہاتھ ڈال کر میری کتابیں آگ کے شعلوں سے نکال تو لیں لیکن اس کوشش میں
ان کی انگلیاں جل گئیں ۔اس واقعے کے بعد میرا دل پڑھائی سے اچاٹ ہوگیا ۔میں
نے سکول جانا بند کردیا ۔ایک دن جب میں گھر کی چھت پر بیٹھا بکھری ہوئی ڈور
کو لپیٹ رہا تھا تو امی نے پیار بھر ے لہجے میں مجھے کہا دلور۔ تو پڑھتا
کیوں نہیں؟جب میں نے غصے میں کہامیں نہیں پڑھتا وڑھتا تو امی پہلے مجھے
گھور کر دیکھتی رہی۔ پھر کہنے لگیں نہ پڑھ ۔ سو بار نہ پڑھ ۔پر مجھے اپنے
دادا کے سامنے کیوں شرمندہ کراتا ہے وہ رات کو خواب میں آئے تھے، وہ بولے
وزیرے ۔ یہ تیرا دلور پڑھتا کیوں نہیں ؟ میں کیا جواب دیتی ۔ سخت شرمندہ
ہوکر رہ گئی ۔دلور ۔کیا تو مجھے اپنے دادا کے سامنے شرمندہ کرواتا رہے
گا۔یہ کہہ کر وہ بیٹھ گئیں اور بے اختیار مجھے سینے سے لگا لیا ۔پترا پڑھے
گا نہیں تو میں لوگوں سے کیاکہوں گی کہ میرا دلور بھی نلیک نکلا ۔میں نے جب
سنا کہ دادا جان مجھ سے ناراض ہو گئے ہیں۔ دراصل امی نے دادا کے بارے میں
میرے دل میں کچھ ایسا احترام پیدا کردیا تھا کہ میں نے جب سنا کہ وہ مجھ سے
خفا ہو گئے ہیں ۔میرے سکول نہ جانے سے تو میں دل ہی دل میں شرمندہ ہو کر رہ
گیا اور پھر میں نے سکول جانا شروع کردیا ۔اگر گھر میں کوئی بیمار ہوتا تو
چھوٹی موٹی بیمار ی کا علاج تو ماں خود ہی کرلیتی ۔ہمارے خاندان میں دو
روایتیں نہ جانے کہاں سے چلی آر ہی تھیں ۔ ایک روایت یہ تھی کہ کسی کے سر
میں درد ہو، پیٹ میں درد ہو ، زکام ہو تو بازار سے ایک بڑا سا پڑا آجاتا ۔
اس پڑے میں جوشاندے کے اجزاء ہوتے جنہیں دیگچی میں ڈال کر چولہے پر رکھ دیا
جاتا اور صبح سویرے اس میں تھوڑی سی چینی ڈال کر خالی پیٹ مریض کو پلا دیا
جاتا ۔اس جوشاندے کے کڑوے گھونٹ بھرنے سے ہم بہتر سمجھتے تھے کہ اپنی
بیماری کا اظہار ہی نہ کریں ۔مگر امی تو اپنی اولاد کے چہرے کی بدلی ہوئی
کیفیت سے بھانپ لیتی تھیں کہ ان کے بچے کے ساتھ کچھ گڑبڑ ہے ۔میں روٹی کے
ساتھ سالن کچھ زیادہ ہی استعمال کرنے کا عادی ہوں ۔امی پہلی مرتبہ برتن میں
جتنا سالن ڈالتیں وہ آدھی روٹی تک ہی چلتا پھر خالی برتن میں امی کی طرف
بڑھادیتا ۔اس پر امی کہتیں دلور تو روٹی کے ساتھ سالن کھاتا ہے کہ سالن کے
ساتھ روٹی ۔ اس کے جواب میں ، میں کہتا امی ہانڈی تو بھری پڑی ہے ۔اس پر
امی کہتیں کھانے والے کتنے ہیں کھوتے ۔جب کبھی سالن ختم ہوجاتا تو میں
دیکھتاکہ امی پیاز کونڈی میں کوٹ کر اس پر نمک مرچ چھڑک کر اپنا پیٹ بھر
لیتی تھیں۔انہیں اس حالت میں دیکھتا تو شرمندہ ہو جاتالیکن کھاتے وقت
شرمندگی نہ جانے کہاں غیب ہو جاتی ۔امی کی وہ خوشی مجھے کبھی نہیں بھولتی
۔جب میں نے اپنی اولین کتاب "صحرا نورد کے خطوط "کا انتساب امی کے نام کیا
۔یہ بات میں نے نہیں بتائی کسی محلے دار نے امی کو بتادیا تو امی بولی
دلور۔ تو نے میری کتاب لکھی ہے ۔اس لمحے امی جان کا چہرہ خوشی سے چمک رہا
تھا ۔سوچتی ہونگی کہ ان کا بیٹا جو بچپن میں اپنے دادا جان کی کتابیں صندوق
سے نکال نکال کر شوق سے دیکھا کرتا تھا ،اب خود بھی کتاب لکھنے لگا ہے۔میں
نے کہا امی جی میں نے آپ کی کتاب نہیں لکھی بلکہ اپنی کتاب کا" انتساب" آپ
کے نام کیا ہے ۔میں نے کتاب کی پہلی جلد انہیں دی تو وہ دیر تک کتاب کو
دیکھتی رہیں۔کتاب کی ورق گردانی کرتی رہیں جیسے وہ پڑھی رہی ہوں ۔ اس کے
بعد یہ صورت ہو گئی کہ گھر میں جو شخص بھی آتا ،اس سے یہ ضرور کہتیں ۔میرے
دلور نے میری کتاب لکھی ہے ۔محلے میں کسی کے گھر بھی جاتیں تو یہی کہتیں ۔
کتاب کو میلے ہاتھ نہ لگائیں اور نہ کسی کولگانے دیتیں۔جب بھی کتاب کو اپنے
ہاتھ میں لیتیں تو ان کی آنکھیں چمک اٹھتیں ۔اس کے باوجود کہ امی کو دنیا
سے رخصت ہوئے کتنے ہی سال گزرچکے ہیں ، میں جب بھی یہ سوچتا ہوں کہ میں نے
امی کی کوئی خدمت نہیں کی ......خوشی کے بس یہی لمحے دیئے تھے ،تو میرا دل
ایک انجانی خوشی اور مسرت سے بھرجاتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے
میرے دل کی سوگوار ویرانیوں میں ایک نغمہ شیریں گونج اٹھتاہے یا گرمی کی
تپتی ہوئی فضا میں کہیں سے باد بہار کا ایک جھونکا آکر میرے سر پر آہستہ
آہستہ پھرنے لگتا ہے ۔یہ کس کی انگلیاں ہیں جو میرے گیلے گالوں کو چھونے
لگتی ہیں اور میرے سارے آنسو خشک ہو جاتے ہیں ۔ یہ کس کا چہرہ ہے، جو
تاریکیوں میں طلوع ہوکر ہر طرف روشنی بکھیردیتا ہے ۔
|