پیدائش سے لیکر زندگی کے پہلے دو سال تک یہ دور انسانی
زندگی کا وہ دور ہوتا ہے جب انسان اپنی اُس ذات کیساتھ مکمل موجود ہوتا ہے
جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ جس نے اپنے آپکو پہچانا اُس نے خُدا کو پہچانا
لیکن انسان کے پاس اس وقت وہ عقل نہیں ہوتی جو اپنے آپ کو پہچاننے کے لئیے
ضروری ہوتی ہے
لیکن اُس بچے کو اس وقت اس عقل کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کیونکہ وہ اوپر بیان
کی گئی حالت میں ہی تو موجود ہوتا ہے اُس نے اپنے آپ کو پہچانا ہوتا ہے
لہذا اسے دنیا کی کوئی چیز پہچاننے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ جب
بھی وہ کسی چیز کو دیکھتا ہے تو معصومیت اور اس چیز کا اس کے لئیے انوکھا
اور دلچسپ ہونے کی وجہ سے ایک تجسس سا واضع دکھائی دیتا ہے
وہ چیز اسکے لئیے نئی اور انوکھی ہوتی چونکہ اسکے ساتھ ساتھ وہ انسان بھی
ہوتا ہے اسکے اندر ابھی تک پاک و پاوتر ایک نفس بھی ہوتا ہے لیکن اسکے ساتھ
ساتھ اسکے وجود میں شیطان بھی موجود ہوتا ہے
جو اسکی عمر کیساتھ ساتھ اسکی عقل کے مطابق اسکی تربیت کرنی بھی شروع کر
دیتا ہے لیکن وہ شیطان بھی ابھی کم عمر ہی ہوتا ہے جوں جوں وہ معصوم بچہ
بڑا ہوتا ہے اسکی معصومیت میں ایک لڑکپن آنا شروع ہو جاتا ہے اور وہ بسکٹ
ٹافی کی طرف لپکنا یعنی طلب کے جزبات کا پروان چڑھنا شروع ہو جاتا ہے یا
اسکے کپ سے کوئی چائے کا ایک سپ لینے کی کوشش بھی کرے تو وہ احتجاجا چیخ
مار کر کپ چھیننے کی کو شش کر کے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے چیزوں
پر حق یا ملکیت جتانا یا کوئی اور کیوں لے جیسے جزبات مزاج میں حسد غصہ یا
ناپسندیدگی کے جزبات پیدا ہونا یہ علامت ہے اس بات کی کہ بچہ شیطان کے سکول
میں پہلی جماعت میں داخل ہو چُکا ہے
اور یہ شیطان اسکے پاک باطن میں داخل کیسے ہوا ؟ ناپاک جسم کیساتھ ماں کے
دودھ پلانے سے یا گھر میں ناپاکی ہونے سے یا والد کی کمائی میں حلال کیساتھ
حرام کی شمولیت سے
آہستہ آہستہ معصومیت کا بچپن دور ختم اور ،، بچپن کا بچپن شروع ہو جاتا
ہے اور بچپن کا بچپن پانچ چھ سال کی عمر سے شروع ہو کر تقریبا دس سال کی
عمر تک ہوتاہے یہاں تک بھی آدمی عقل و فکر کے عذاب سے نا بلد ہونے کی وجہ
سے قدرت اسے زندگی کی رنگینیوں سے پورا وپورا لطف اندوز ہونے کا ہر موقع
فراہم کر رہی ہوتی ہے
اسکی معصوم سی فکریں در اصل فکریں ہوتی نہیں ہیں لیک اللہ اسے اس سے روشناس
کرا کے در اصل اسکی پری ٹرینگ کر رہا ہوتا ہے تاکہ حقیقی زندگی میں مشکلات
اور پریشانیوں کے وقت انکی تلخی سے پہلے ہی واقف ہونے کیوجہ سے یہ ہمت نہ
ہارے اور مستقل مزاجی سے انکا مقابلہ کرے
دس بارہ سال کی عمر سے لیکر اٹھارہ سال تک بچپن کی جوانی کا عروج ہوتا ہے
خصوصا پندرہ سے اٹھارہ سال کی عمر تک تو انسان کو ہر طرف رنگین تتلیاں اڑتی
نظر آتی ہیں جزبات ہر طرف بھنگڑے اور دھمالیں ڈال رہے ہوتے ہیں
جسم و جان اور قلب و روح میں ایک رباب یا جلترنگ بجتی سنائی دیتی ہے دل ہمہ
وقت اپنی ہر دھڑکن کیساتھ سازینے بجاتا ہے اور انسان کو اپنی نہ سمت پتہ
ہوتی ہے اور نہ ہی طلب کہ وہ آخر چاہتا کیا ہے؟ اسے اپنی منزل کا پتہ ہوتا
ہے نہ راستے کا یہی وہ موقع ہوتا ہے جہاں سے اس نے اپنی منزل کا تعین کرنا
ہوتا ہے
اور اس موقع پر والدین کی رہنمائی ہی اسے اصل راستہ دکھاتی ہے والدین کی
عدم توجہ سستی کیوجہ ایک بچے کا کردار اور مستقبل اسی عمر میں سنورتا یا
بگڑتا ہے جو زندگی میں اسے کامیاب یا معاشرے اور زمیں پر بوجھ ایک ناکام
انسان بنانے کیوجہ بنتا ہے
اٹھارہ سے پچیس سال کا عرصہ جوانی کا بچپنا ہوتا ہے اور بچپن تو بچپن ہی ہے
چاہے وہ جوانی کا ہو یا بچپن کا اس عمر میں انسان جسمانی اور عقلی اعتبار
سے کچھ سمجھداری کے راستے پر چل ضرور رہا ہوتا ہے لیکن ابھی وہ پُختہ کار
نہیں ہوا ہوتا ہے کیونکہ پختہ کاری تجربے سے آتی ہے اور تجربہ عمر کیساتھ
آتا ہے
گویا کہا جا سکتا ہے کہ انسانوں کی اکثریت میں عقل انکی عمر کیمطابق ہوتا
ہے اس لئیے ابھی وہ اپنا تھوڑا بہت نفع نقصان سمجھ سکتایا بات چیت ضرور کر
سکتا ہے لیکن حتمی اور بڑے فیصلے کرنے کی اس میں حقیقی اہلیت پیدا نہیں
ہوئی ہوتی ہے
پاکستان میں عمومی طور پر بیس سے پچیس سال کی عمر میں بچوں کی شادیاں کر دی
جاتی ہیں اس سے پہلے کی عمر میں بچوں کی اکثریت والدین ہی کے زیر کفالت
ہوتی ہے اور فیملی سیٹ اپ کیوجہ سے شادی بعد بھی والدین کیساتھ ہی رہتے ہیں
اور انکی مشاورت کے محتاج اور مرہون منت رہتے ہیں
تاہم شادی انسان کی عملی زندگی کا پہلا سفر ہوتا ہے جس میں اینڈپنڈلی اسکو
سٹرگل اور احساس ذمہ داری کیوجہ اسکی سوچ اور عقل کا دھارا تبدیل ہونا شروع
ہوتا ہے بچوں کی پیدائش لڑائیاں جھگڑے بیماریاں مساہل ناراضگیاں بحث تکرار
اس عقل و تجربے کی طرف گامزن ہونے کی علامتیں اور اس راہ کے سنگ میل اور
سنبھلنے کے اشارے ہیں
حاصل کلام عمومی طور پر پچیس سال تک آدمی والدین کا ہی محتاج رہتا ہے اور
کوئی خاص ذمہ داری اور بوجھ نہ ہونے کی وجہ سے وہ ناتجربہ کار ہی ہوتا ہے
حقیقی زندگی شادی شدہ ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے اور ایک دو بچوں کی پیدائیش
تک اگرچہ آدمی اپنی االلہ کیطرف سے عطا کردہ ایک متعین عمر عزیز کے پچیس
برس خرچ کر چُکا ہوتا ہے
ایک دو بچونکی پیدائش کے بعد زندگی کا وہ دور شروع ہو جاتا ہے جس میں بچپن
والی بے فکریاں لڑکپن والی شرارتیں جوانی والی خوشیاں تو داغ مفارقت دے
جاتی ہیں لیکن ایک عجیب سی بچوں کی خوشگوار سی فکریں اندیشے بیوی کیساتھ
خوشگوار لمحوں کی صورت میں سکون آور گھڑیاں مساہل معشیت کے مسلے اور دیگر
کچھ نجی پریشان کن مساہل خوشیوں اور پریشانیوں کیساتھ زندگی کو عجیب گڈ مڈ
سے کر دیتے ہیں
اگر آپ نے زندگی کے پچیس سال والدین کیساتھ گُزارے ہیں تو اپنے والدین کو
چھوڑ کر آپکے گھر آنے والے اُس نئے مہمان آپکی بیوی نے بھی تو زندگی کے
بیس بائیس سال اپنے والدین کے گھر میں خرچ کر دئیے
یعنی اسکی زندگی کا آپکے ساتھ پہلا دن اس دن شروع ہوا جب آپ کم بیش پچیس
سال کے تھے اور آپ بھی اسکی زندگی میں اس وقت داخل ہوئے جب وہ بائیس سال
گُزار چُکی تھی اور یوں اگر آپ ایک کامیاب شادی کے تیس سال بھی گُزارتے
ہیں تو اسوقت آپکی عمر خیر سے پچپن برس اور آپکی زوجہ باون برس کی ہو
جائیں گی
جبکہ پاکستان میں عمومی طور پر عمر کا ریشو پچپن ساٹھ سال ہی چل رہا ہے بہت
سے لوگ پچاس سال کی عمر میں ہی اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں اور ایک آدمی سے
اتنی عمر گُزارنے کے بعد بھی اگر پوچھا جائے تو ہر کوئی یہی کہتا ہے پتہ ہی
نہیں چلا وقت گُزر بھی گیا اور حقیقت بھی یہی ہے پتہ چلتا ہی نہیں
والدین تو آپکی شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی پہلے والد یا والدہ پہلی ڈھم ڈھما
میں ہی رخصت ہو جاتے ہیں کیونکہ وقت تو چل رہا ہوتا ہے جس کا وقت پورا ہو
جائے اسے جانا ہوتا ہے اور جانے والونکو ہم چائیں بھی تو نہیں روک سکتے یہی
قانون قدرت ہے
نتیجہ کیا نکلا ؟ کہ والدین کے بعد زندگی کا سب سے زیادہ قریبی اور بھروسے
والا رشتہ تو بیوی بچے اور عمومی طور پر اپنے سب سے ان پیارے رشتوں کیساتھ
مجموعی طور پر تو آدمی پچیس یا تیس سال گُزارتا ہے اور ہم ان پچیس یا تیس
سالوں کو زندگی کہتے ہیں؟ جی ہاں سچ تو یہی ہے زندگی کی اصل حقیت تو یہی ہے
اور ان پچیس تیس سالوں کے لئیے زندگی میں ہم سے زیادہ تر گُناہ ان بچوں اور
بیوی کے بہتر مستقبل اور خوشیوں کے لئیے ہوتے ہیں اور مرنے کے بعد سب سے
قریب اور ساری دنیا سے پیارے یہی رشتے سب سے پہلے کہتے ہیں جلدی کرو جلدی
کرو جنازہ لیٹ ہو رہا ہے
|