ایک خط

ماضی میں کھوئے رہنے اور گزرے وقت کو لوٹانے کی کوشش کے تجربات کے بارے میں ایک خط

اچھا سنو کیا تم نے کبھی کوشش کی ہے کہ تم کچھ دن، کچھ مہینے، کچھ سال پہلے جس ڈھنگ سے جی رہے تھے، وہ وقت لوٹ آئے، وہی ماحول، وہی احباب، وہی شب و روز زندگی گزارنے کا وہی ڈھنگ، زندگی پھر سے ویسی ہی ہوجائے؟ ۔ ایسے نہیں کہ بیتے ہوے کچھ اچھے پل یاد کر لیے اور اپنی راہ چل دیے، بلکہ اس طور ماضی میں کھو گئے ہو کہ حال کا، ابھی کا احساس ہی نہیں ہوتا ہو اور گزرا وقت لوٹانے کی کوشش میں، خواہش میں لگے رہےہو؟ اور کیا تم کو یقین تھا یا ہے کہ ایسا ممکن ہے؟ زندگی وہ حصہ جو بیت چکا، اس کو پھر سے اسی ڈھنگ سے جینا ممکن ہے؟

ایک زمانے میں میں نہ صرف مجھے یقین تھا کہ ایسا ممکن ہے بلکہ میں نے کوشش بھی کی، گیا وقت لوٹانے کی کوشش بھی کی۔ بہت پہلے کی بات ہے، شاید بیس برس یا اس سے بھی زیادہ کا عرصہ ہو چلا ہے اس بات کو۔ میری زندگی اچھی خاصی گزر رہی تھی، گھر میں، دوستوں کے ساتھ۔، دفتر میں، اپنے مشاغل میں مصروف ہو کر۔ سب ٹھیک چل رہا تھا، زندگی میں کوئی بڑی مشکل نہیں تھی، یعنی راوی عیش ہی عیش لکھ رہا تھا۔ یا شاید ایسے بھی اچھے حالات نہیں تھے لیکن جب وہ وقت گزر گیا اور میں اس وقت کو یاد کرتا تھا تو ایسا لگتا تھا کہ وہ ایک بہترین وقت تھا کیوں کہ اکثر ایسا بھی تو ہوتا ہے نا کہ گزرے زمانے کی اچھی باتیں یاد رہ جاتی ہیں اور غم، الم اور مصیبتیں ہم لاشعوری طور پھر بھلا دیتے ہیں اور یا پھر ہم صرف ماضی کے غم و الم ہی یاد رکھتے ہیں اور خوشی اور مسرت کے لمحے یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ بہرحال جو بھی تھا زندگی اچھے ڈھنگ سے گزر رہی تھی، میں خوش تھا۔

تو زندگی کے شب و روز یوں ہی گزر رہے تھے کہ ایک دن کام کے سلسلے میں مجھے اپنا شہر چھوڑنا پڑا اور ایک اجنبی شہر میں سکونت اختیار کرنی پڑی۔ میں وہاں قریباً دو سال رہا مگر وہاں کے رہن سہن سے مجھے کوئی رغبت پیدا نہ ہوئی مجھے اپنے شہر کے شب و روز شدد سے یاد آتے تھے، اپنا گھر، دوست، شہر کی سڑکیں، وہ سب لوگ جن سے میرا روز کا ملنا ہوا کرتا تھا۔ اس اجنبی شہر میں مجھے گھٹن محسوس ہونے لگی اور مجھے وہاں کی ہر چیز بری لگنے لگی۔ میں وہاں کی ہر چیز کا تقابل اپنے شہر سے کرتا تھا اور وہاں کی ہر شے اپنے شہر سے کم تر ہی لگتی۔ یہ یقیناً میرے اس وقت کے ذہنی حالت کا کرشمہ تھا ورنہ اب سوچتا ہوں تو وہ اجنبی شہر میرے شہر سے کئی لحاظ سے بہتر تھا اور اگر آج مجھے دونوں شہروں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو میں اس اجنبی شہر کو ہی ترجیح دوں گا۔ میں ہر وقت بس اسی انتظار میں رہتا تھا کہ کب میں اپنے شہر لوٹ کر جاؤں گا اور پھر وہی زندگی ہو گی جو میں چھوڑ کر آیا تھا۔ اس اجنبی شہر میں میرا سارا وقت بیتے ہوئی زندگی کی یاد اور وہ پل دوبارہ جینے کی آرزو میں گزر گئے۔ آخر ایک دن ایسا بھی آیا کہ میں اپنے شہر کی جانب پھر محو سفر تھا اوراب میں پھر سے اپنے شہر میں رہنے والا تھا، ہمیشہ کے لیے۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی، اب وہ بیتا ہوا وقت لوٹ آیا تھا اور میں پھر سے وہی زندگی گزارنے والا تھا جو دو سال پہلے میں نہ چاہتے ہوے پیچھے چھوڑ آیا تھا۔

واپس آنے پر تین چار دن تو میں ہواؤں میں اڑتا رہا اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ مگر آہستہ میرے قدم زمین سے آلگے اور مجھے حقیقت کا پوری طرح ادراک ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ گیا وقت اب کبھی لوٹ کر نہیں آنے والا۔ میرے یار دوست اب ویسے نہیں رہے جیسے میں چھوڑ کر گیا تھا، کچھ کے شادی ہو گئی، کچھ نوکری پر لگ گئے، کچھ شہر چھوڑ کر چلے گئے۔ اب ہر کوئی مصروف ہو گیا تھا اور محفلوں اور ملاقاتوں کو اتنا وقت نہیں دے پاتے جنتا دو سال پہلے کرتے تھے۔ میری اپنی نوکری کی نوعیت بھی بدل گئی تھی اور خود مجھے بھی فراغت کی لمحے کم ہی میسر آتے تھے۔

نہ جانے کیوں اب مجھے اپنے شہر کی گلیوں اور سڑکوں میں نہ وہ اپنائیت محسوس ہوتی تھی اور نہ ہی پارکوں اور دوکانوں میں کوئی خاص کشش۔ کسی بھی چیز میں کوئی خاص بات نظر نہیں آتی تھی، سب کچھ بس ایسا ہی تھا جیسے کس بھی شہر میں ہوتا ہے۔ شاید اس لیے کہ وقت بدل گیا تھا۔ لوگ اور جگہیں تو وہی تھی جو دو سال پہلے تھی لیکن وقت کے دریا میں بہت سارا پانی بہہ چکا تھا۔ زمانہ بدل چکا تھا، وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا، گزر جاتا ہے اور کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔ گزرے وقتوں کو لوٹانے اور بیتے لمحے دوبارہ گزارنے کی خواہش کرنا عبث ہی ہوتا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ وقت کے دریا میں جو پانی بہہ گیا سو بہہ گیا۔ اور اس وقت میں سمجھ گیا کہ میں جو زندگی کو پھر سے جینے کی خواہش دل میں رکھے ہوے تھا، زندگی کا وہ حصہ تو گزر چکا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میں بھی تو وہ نہیں رہا، انسان ہر لمحہ بدلتا ہے، نئے تجربات اور احساسات سے گزرتا ہے اور بدلتا ہے، تو میں بھی تو دوسال بعد وہ نہیں رہا۔ اب آنے والی زندگی اس سے اچھی ہو یا پھر اس سے بدتر مگر وہ تو کبھی نہیں ہو گی جو گزر چکی ہے۔ میں سمجھ گیا کہ گزرے وقت کو، ماضی کو پکڑے رکھنا، اور حال کو، ابھی کو یکسر فراموش کرنا کسی طور مناسب نہیں، کہ ماضی کو کون پکڑ سکتا ہے کہ گزرے وقت کو کون لوٹا سکتا ہے، وہ تو ایک سراب ہے، ریت کی طرح ہاتھوں سے نکل جاتا اور جب احساس ہوتا ہے تو حال بھی ماضی بن چکا ہوتا ہے۔ مجھے اب بھی پچھتاوا ہے کہ میں نے وہ دو سال اس اجنبی شہر میں ماضی کے یاد میں کیوں گزار دیے، اور اس خوبصورت شہر کی زندگی سے، ماحول سے لظف کیوں نہ اٹھا سکا۔ خیر اب وہ بھی ماضی کا قصہ ہے اور وہی بات کہ گزرے وقت کو کون لوٹا سکتا ہے۔ بس یہ اطمینان ہے کہ اس سارے قضیہ کے بعد میں وقت کے کھیل کو سمجھ گیا، میں نے تو یہ سیکھ لیا کہ ماضی کو، گزرے وقت کو، لوٹانے کی کوشش نہیں کرنا بس ابھی میں رہنا ہے۔ اور اس کے بعد کبھی گزرے وقت کو لوٹانے کے کوشش نہیں کرتا۔ خواہش تو ہوتی ہے کبھی کبھی مگر کوشش نہیں کرتا۔

اگلے قلمی ملاقات تک خدا حافظ۔
 

Bakhtiar Ahmed
About the Author: Bakhtiar Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.