تجھے ڈھونڈے تو ڈھونڈے کہاں

کامیاب شادی کا سب سے بڑا یہ فائدہ ہے کہ یہ عمر بھر چلتی ہے۔شادی ایک لازمی چیز ہے‘ اگر آپ کنوارے ہیں تو آپ کو محلے والے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں‘ کسی شادی بیاہ میں آپ کو نہیں بلایا جاتا‘آپ گلی میں تھوڑی دیر کے لیے بھی کھڑے ہوجائیں تو ’’اُلامے‘‘ آنے شروع ہوجاتے ہیں‘ آپ کی ہر حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے‘ اگر آپ اکیلے رہتے ہیں تو کبھی ہمسایوں کے گھر سے نیاز کے دال چاول بھی آپ کی طرف نہیں آتے۔۔۔تاہم آپ جتنے مرضی برے ہوں‘ جوان لڑکیوں کی مائیں آپ پر خصوصی طور پر نظر کرم کرتی ہیں۔تحقیق کے مطابق آدھے سے زیادہ کنوارے لڑکے کسی نہ کسی ’’ماں‘‘ کے بیٹے بنے ہوتے ہیں‘ یہ اپنی ماں سے زیادہ غیر ماں سے پیار کرتے ہیں کیونکہ غیر ماں کے گھر ایک عدد دوشیزہ بھی موجود ہوتی ہے۔ویسے کنوارے بندے کو یہ بڑا فائدہ ہے کہ وہ بیڈ کے دونوں طرف سے اتر سکتا ہے‘ٹھیک کہتے ہیں ‘ میں تو کہتا ہوں کنوارے بندے کو یہ بھی بڑا فائدہ ہے کہ وہ رات کو گلی میں چارپائی ڈال کر بھی سو سکتا ہے‘‘ کمرے کی کھڑکیاں ہر وقت کھلی رکھ کر تازہ ہوا کا لطف اٹھا سکتا ہے‘رات کو لائٹ بجھائے بغیر سوسکتا ہے ۔۔۔میں جب بھی کسی کنوارے کو دیکھتا ہوں حسد میں مبتلا ہوجاتا ہوں‘شادی شدہ بندے کی یہ بڑی پرابلم ہے کہ وہ کنوارہ نہیں ہوسکتا‘ البتہ کنوارہ بندہ جب چاہے شادی شدہ ہوسکتا ہے ۔ہمارے ہاں کنوارہ اُسے کہتے ہیں جس کی زندگی میں کوئی عورت نہیں ہوتی‘ حالانکہ یہ بات شادی شدہ بندے پر زیادہ فٹ بیٹھتی ہے‘ کنوارے تو اِس دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔فی زمانہ جو کنوارہ ہے وہ زندگی کی تمام رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے کا حق رکھتا ہے‘ وہ کسی بھی شادی میں سلامی دینے کا مستحق نہیں ہوتا‘اُس کا کوئی سُسرال نہیں ہوتا‘ اُس کے دونوں تکیے اس کی اپنی ملکیت ہوتے ہیں‘ اُسے کبھی جھوٹ کا سہارا لینا نہیں پڑتا‘اُسے دوستوں میں بیٹھے ہوئے کبھی فون نہیں آتا کہ ’’آتے ہوئے چھ انڈے اور ڈبل روٹی لیتے آئیے گا‘‘۔اُسے کبھی موٹر سائیکل پر کیرئیر نہیں لگوانا پڑتا‘ اُسے کبھی دوپٹہ رنگوانے نہیں جانا پڑتا‘ اُس کا کوئی سالا نہیں ہوتا لہذا اُس کی موٹر سائیکل میں پٹرول ہمیشہ پورا رہتا ہے‘اُسے کبھی روٹیاں لینے کے لیے تندور کے چکر نہیں لگانے پڑتے‘اُسے کبھی فکر نہیں ہوتی کہ کوئی اُس کا چینل تبدیل کرکے ’’ہم چینل‘‘ لگا دے گا‘اُس کے ٹی وی کا ریموٹ کبھی اِدھر اُدھر نہیں ہوتا‘اُسے کبھی ٹی سیٹ خریدنے کی فکر نہیں ہوتی‘ اسے کبھی پردوں سے میچ کرتی ہوئی بیڈ شیٹ نہیں لینی پڑتی‘اسے کبھی کہیں جانے سے پہلے اجازت نہیں لینی پڑتی‘ اسے کبھی اپنے موبائل میں خواتین کے نمبرزمردانہ ناموں سے save نہیں کرنے پڑتے‘اسے کبھی کپڑوں کی الماری میں سے اپنی شرٹ نہیں ڈھونڈنی پڑتی‘ اسے کبھی امتیاز بازار میں مارا مارا نہیں پھرنا پڑتا‘ اسے کبھی بیڈ روم کے دروازے کا لاک ٹھیک کروانے کی ضرورت پیش نہیں آتی‘اسے کبھی ٹوتھ پیسٹ کا ڈھکن بند نہ کرنے کا طعنہ نہیں سننا پڑتا‘ اسے کبھی دو جوتیاں نہیں خریدنی پڑتیں‘اسے کبھی بیوٹی پارلر کے باہر گھنٹوں انتظار میں نہیں کھڑا ہونا پڑتا‘ اسے کبھی دیگچی کو ہینڈل نہیں لگوانے جانا پڑتا‘ اسے کبھی اپنے براؤزر کی ہسٹری ڈیلیٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی‘اسے کبھی کسی کو منانا نہیں پڑتا‘اسے کبھی کسی کی منتیں نہیں کرنی پڑتیں ایسے کبھی آٹے دال کے بھاؤ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں پیش آتی‘ اسے کبھی کار کے ٹائر کے پنچر لگوانے نہیں پڑتے‘ اسے کبھی نہیں پتا چلتا کہ اس کا کون سا رشتہ دار کمینہ ہے‘ اسے کبھی اپنے گھر والوں کی منافقت اور برائیوں کا علم نہیں ہونے پاتا‘اسے کبھی اپنے گھرکے ہوتے ہوئے کرائے کا گھر ڈھونڈنے کی ضرورت پیش نہیں آتی‘ اسے کبھی رشتہ داروں سے ملنے میں جھجک محسوس نہیں ہوتی‘اسے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں جوڑنے پڑتے‘ اسے کبھی اپنوں کو غلط نہیں کہنا پڑتا‘ اس کی کنگھی اور صابن پر کبھی لمبے لمبے بال نہیں ملتے‘ اسے کبھی میٹھی نیند کے لیے ترسنا نہیں پڑتا‘ اسے کبھی سردیوں کی سخت بارش میں جاوید کی نہاری لینے نہیں نکلنا پڑتا‘ اسے کبھی کمرے سے باہر جاکے موبائل نہیں سننا پڑتا‘اسے کبھی چھت کے پنکھے بدلنے نہیں پڑتے‘ اسے کبھی ’’پھول جھاڑو‘‘ خریدنے کی اذیت سے نہیں گذرنا پڑتا‘ اسے کبھی پیمپرزنہیں خریدنے پڑتے اسے کبھی کھلونوں کی دوکانوں کے قریب سے گذرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا‘اسے کبھی صبح ساڑھے سات بجے اٹھ کر کسی کو اسکول چھوڑنے نہیں جانا پڑتااسے کبھی اتوار کا دن شاپنگ میں گذارنے کا موقع نہیں ملتااسے کبھی باریک کنگھی نہیں خریدنی پڑتی‘ اسے کبھی سستی سبزی اور فروٹ خریدنے کے لیے اتوار، منگل بازار نہیں جانا پڑتا‘اسے کبھی الاسٹک نہیں خریدنا پڑتا‘اسے کبھی سبزی والے سے بحث نہیں کرنا پڑتی‘ اسے کبھی فیڈر اور چوسنی نہیں خریدنی پڑتی‘اسے کبھی سالگرہ کی تاریخ یاد نہیں رکھنی پڑتی‘ اسے کبھی رضائیوں میں روئی دھلوائے و دھاگے ڈلوانے نہیں پڑتے ‘اسے کبھی دال ماش اور کالے ماش میں فرق کرنے کی ضرورت نہیں پیش آتی‘اسے کبھی نیل پالش ریموور نہیں خریدنا پڑتا‘ اسے کبھی اپنی فیس بک کا پاس ورڈ کسی کو بتانے کی ضرورت پیش نہیں آتی.

“ہائے رے کنوارہ پن کہاں ڈھونڈیں تجھے”
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 392 Articles with 190622 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.