غربت کی وجہ سستی، کاہلی ہے یا طاقتوروں کا استحصال؟!

دنیا میں غربت کی بلند شرح کا سبب سستی یا کاہلی نہیں، بلکہ تاریخی استحصال، نوآبادیاتی طاقتوں کی مسلسل مداخلت، تعلیم اور صحت کی سہولیات کی کمی، اور عالمی تجارتی نظام کی ناہمواریوں جیسے عوامل ہیں۔ یہ مسائل غربت کو ایک پیچیدہ اور گہرائی میں جڑا ہوا مسئلہ بناتے ہیں، جس کا حل صرف عوامی اور عالمی سطح پر انصاف پر مبنی معاشی اور سماجی تبدیلیوں کے ذریعے ممکن ہے۔

بسم رب الشھداء
دنیا میں غربت کی بلند شرح ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے پس پردہ متعدد عوامل کارفرما ہیں، خاص طور پر نوآبادیاتی طاقتوں کے ذریعے استحصال۔ یہ کہنا کہ غربت میں زندگی گزارنے والے افراد اتنی محنت نہیں کرتے کہ خود کو سنبھال سکیں، ایک سادہ اور محدود نقطہ نظر ہے جو ایک بہت ہی پیچیدہ صورت حال کو نظر انداز کرتا ہے۔

پہلا عنصر تاریخی استحصال ہے۔ نوآبادیاتی دور کے دوران، طاقتور ممالک نے کمزور قوموں کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا۔ اس دور میں، قدرتی وسائل، زمین، اور محنت کشوں کا استحصال کیا گیا، جس کی وجہ سے بہت سی قومیں اپنی معیشت کو مستحکم کرنے اور ترقی کرنے کے قابل نہ ہو سکیں۔ جب نوآبادیاتی حکمرانی ختم ہوئی، تو اس کے ساتھ ہی ان ممالک کو وہ بنیادی ڈھانچہ اور ادارے چھوڑے گئے جو ترقی کے لیے ضروری تھے۔ نتیجتاً، بہت سے ممالک اب بھی اس کے اثرات بھگت رہے ہیں، جس کی وجہ سے غربت کی سطح بلند ہے۔

دوسرا اہم عنصر نوآبادیاتی طرز عمل کا تسلسل ہے۔ نوآبادیاتی دور کے بعد بھی، عالمی طاقتوں نے اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھا، جس کی وجہ سے عالمی معیشت کے معاملات میں ترقی پذیر ممالک کی طاقت کو کمزور کیا گیا۔ کثیر القومی کمپنیاں اب بھی ان ممالک میں سرمایہ کاری کرتی ہیں، لیکن اکثر یہ سرمایہ کاری مقامی معیشتوں کے فائدے کی بجائے اپنے مفادات کے لیے ہوتی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے، جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک، ترقی پذیر ممالک کو قرض فراہم کرتے ہیں، مگر اکثر یہ قرض سخت شرائط کے ساتھ آتے ہیں، جو مقامی حکومتوں کو محدود کرتی ہیں کہ وہ کیسے اپنے وسائل کو استعمال کر سکتی ہیں۔ یہ حالات ترقی پذیر ممالک کی ترقی کی راہیں مسدود کر دیتے ہیں۔

تیسرا عنصر تعلیم کی عدم رسائی ہے۔ کئی ترقی پذیر ممالک میں تعلیمی نظام مضبوط نہیں ہے، جس کی وجہ سے نوجوان نسل کو معیاری تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ تعلیم کی کمی کا مطلب یہ ہے کہ لوگ مہنگے یا مہارت کی طلب والی ملازمتوں کے لیے موزوں نہیں رہتے۔ اس کی وجہ سے وہ کم تنخواہ والی ملازمتوں میں پھنس کر رہ جاتے ہیں، جو انہیں غربت سے نکالنے میں ناکام رہتی ہیں۔
چوتھا اہم پہلو صحت کی سہولیات کی کمی ہے۔ بہت سے ترقی پذیر ممالک میں صحت کی بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی یا غیر معیاری ہونے کی وجہ سے لوگ بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ اس کے نتیجے میں، وہ غربت کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔

اہم عنصر ثقافتی اور سماجی عوامل ہیں۔ بعض اوقات، غربت میں رہنے والے افراد مختلف سماجی چالوں کا سامنا کرتے ہیں، جیسے کہ صنفی امتیاز، نسلی تفریق، یا دیگر سماجی عدم مساوات۔ یہ عوامل انہیں ترقی کی راہ میں مزید مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

غربت کی ایک بڑی وجہ تاریخی استحصال ہے۔ نوآبادیاتی دور میں طاقتور ممالک نے کمزور قوموں کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا، جس کی وجہ سے کئی قومیں اپنی معیشت کو مستحکم کرنے اور ترقی کرنے میں ناکام رہیں۔ قدرتی وسائل، زمین اور محنت کشوں کا استحصال کیا گیا، جس کے باعث بہت سے ممالک کو اپنے بنیادی ڈھانچے اور ترقی کے مواقع سے محروم کر دیا گیا۔ نوآبادیاتی حکمرانی کے خاتمے کے بعد بھی ان ممالک میں ترقی کے لیے ضروری ادارے اور وسائل فراہم نہیں کیے گئے، اور نتیجتاً آج بھی ان قوموں میں غربت کے اثرات نمایاں ہیں۔

نوآبادیاتی طرز عمل کا تسلسل آج بھی جاری ہے۔ بڑی عالمی طاقتیں ترقی پذیر ممالک پر اثر انداز رہتی ہیں، جس کی وجہ سے ان ممالک کی معیشتیں عالمی منڈی میں مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہتیں۔ کثیر القومی کمپنیاں اکثر ان ممالک میں سرمایہ کاری کرتی ہیں، لیکن یہ سرمایہ کاری مقامی معیشتوں کے بجائے اپنے مفادات کے لیے ہوتی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ترقی پذیر ممالک کو قرض فراہم کرتے ہیں، مگر یہ قرض سخت شرائط کے ساتھ ہوتے ہیں، جس سے ان ممالک کی ترقی میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔

غربت کی ایک اور وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ کئی ترقی پذیر ممالک میں تعلیمی نظام مضبوط نہیں ہے، جس کی وجہ سے نوجوان نسل کو معیاری تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ تعلیم کی کمی کے باعث لوگ مہارت کی طلب والی ملازمتوں کے لیے موزوں نہیں ہوتے، اور اس وجہ سے وہ کم اجرت والی نوکریوں میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ صحت کی سہولیات کی عدم موجودگی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، جو لوگوں کو بیماریوں کی وجہ سے کام کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی، اور یوں غربت کی چکی میں مزید پستے رہتے ہیں۔

عالمی تجارتی نظام میں موجود ناہمواریاں بھی غربت کا ایک بڑا سبب ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک اپنی مصنوعات کو زیادہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں، جبکہ ترقی پذیر ممالک سے خام مال کم قیمتوں پر خریدتے ہیں، جس سے تجارتی توازن خراب ہوتا ہے۔ قدرتی وسائل کا استحصال اور ماحولیاتی تباہی بھی غربت کو بڑھاتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں قدرتی وسائل کا غیر مستحکم استعمال ماحول کو نقصان پہنچاتا ہے، جس سے زراعت اور دیگر معاشی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔

سیاسی عدم استحکام اور بدعنوانی بھی غربت کو بڑھانے والے عوامل ہیں۔ کئی ترقی پذیر ممالک میں حکومتی ادارے کمزور ہیں اور وسائل کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جدید غلامی اور انسانی حقوق کی پامالی بھی غربت میں اضافہ کرتی ہے، کیونکہ لوگوں کو کم اجرت پر کام کرنے یا جبری مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ٹیکنالوجی تک رسائی کا فقدان بھی غربت کا ایک بڑا سبب ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکنالوجی نے لوگوں کو معاشی ترقی کے نئے مواقع فراہم کیے ہیں، جبکہ ترقی پذیر ممالک میں انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی تک رسائی محدود ہے، جس سے یہ ممالک عالمی مارکیٹ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔

سماجی تحفظ اور فلاحی ریاست کی کمی بھی غربت کو بڑھانے میں کردار ادا کرتی ہے۔ مغربی ممالک میں سماجی تحفظ کے نظام جیسے بے روزگاری الاؤنس اور صحت کی سہولیات غربت کو کم کرتے ہیں، جبکہ ترقی پذیر ممالک میں ایسے نظاموں کی عدم موجودگی غربت کی شرح کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ بین الاقوامی معاونت کا ناکافی استعمال بھی غربت کے خاتمے میں رکاوٹ ہے، کیونکہ امداد اکثر بدعنوانی یا عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط کی وجہ سے ان لوگوں تک نہیں پہنچ پاتی جنہیں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔

ان تمام عوامل کے ساتھ، غربت کا حل محض معاشی اصلاحات میں نہیں، بلکہ سماجی ڈھانچے میں تبدیلیاں لانے میں بھی مضمر ہے۔ پدرسری نظام، طبقاتی تفریق، اور نسلی امتیاز جیسے مسائل کو حل کیے بغیر غربت کے خاتمے کی کوششیں ناکام رہیں گی۔ غربت ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو سماجی، اقتصادی اور سیاسی ناہمواریوں سے جڑا ہوا ہے، اور اس کا حل عالمی تعاون اور انصاف پر مبنی نظام میں ہے، جو استحصال اور ناہمواریوں کا خاتمہ کرے۔

اس تمام پس منظر میں، یہ کہنا کہ افراد محنت نہیں کرتے، حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے۔ غربت ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو ساختی عدم مساوات، تاریخی استحصال، اور موجودہ عالمی طاقت کے نظام کی پیداوار ہے۔ اس کی جڑیں سماجی، اقتصادی، اور ثقافتی حالات میں ہیں، اور ان کا مقابلہ صرف عوامی کوششوں اور عالمی تعاون سے ہی ممکن ہے۔ اس لیے، ہمیں اس مسئلے کی جڑوں کو سمجھنا چاہیے اور اس کے حل کے لیے جامع اقدامات کرنا چاہیے۔


 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 95 Articles with 72685 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.