جہل مسلسل کے اثرات ۔ ۔ ۔

گئے دنوں کی نہیں بلکہ سالوں پرانی یہ بات ہے کہ جب ہمارے ملک کے وزیراعظم موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کے بڑے بھائی نواز شریف ہوا کرتے تھے ۔ سابق وزیراعظم نواز شریف صاحب کے دور میں ہی یہ ہوا تھا کہ انہوں نے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ اور بچوں سے یہ وعدہ کیا تھا کہ تین ماہ میں وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو وطن واپس لے آئیں گے۔

یہ وعدہ نبھایا نہیں گیا اور یہ صرف اک بات ہی رہی ، وہ عصمت صدیقی صاحبہ جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ ہیں ، اس دنیا سے رخصت ہو گئیں اور ان کی زندگی میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی وزیر اعظم نواز شریف کے وعدے کے باوجود امریکہ کے گوانتاموبے جیل سے رہائی نہ پا سکیں اور اب بھی اسی جیل میں مقید ہیں ۔

اس وقت اور اس وعدے سے قبل ہی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے جدوجہد کا اغاز ہوچکا تھا اور یہی جہد مسلسل کا سفر آج بھی جاری ہے اور ان شاءاللہ پوری قوم اس جہد مسلسل کو اس وقت تک جاری رکھے گی جب تلک ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی قید سے باعزت رہائی پا کر وطن عزیز واپس نہیں آ جاتی ہیں۔

18 اکتوبر کو اسلام اباد ہائی کورٹ کے احکامات پر عمل درامد کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی صدر کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے خط لکھا تھا ، اٹارنی جنرل نے اس خط کے متن کو عدالت میں پیش کیا۔ یہ بھی اسی جہد مسلسل ہی کا نتیجہ ہے جو برسوں سے جاری ہے اور منزل پہنچنے تلک جاری رہے گی۔

اس تاریخ ساز دن کے بعد یہ ہو رہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کو خراج تحسین کے ساتھ ان کے تعریفوں کے پل باندھے جا رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی جو تن تنہا اپنی بہن کی رہائی کے لیے سرگرم عمل تھیں ، ان کی کاوشیں اس فیصلے کا باعث بنی ہے ۔

یقینا قانونی نقطہ نظر سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکیل عمران شفیق اور ان کے ساتھ ہی سابق سینیٹر جماعت اسلامی مشتاق احمد ، پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے الطاف شکور کا بھی قابل تعریف کردار ہے ۔

اس کے علاؤہ قوم کی بیٹی کی رہائی کے لیے جاری عالمی تحریک عافیہ موومنٹ اور اس کے بعد سوشل میڈیا کے اس دور میں ٹیم عافیہ کا بھی اک کردار ہے۔ انہی کے باعث صورتحال یہاں تک آن پہنچی کہ ملک کے موجودہ وزیراعظم نے قوم کی بیٹی کی رہائی کے لیے امریکی صدر کو خط لکھا۔ معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوا اور نہ ہی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حکومت کی جانب سے جو خط لکھ دیا گیا اب ان کا کام ختم اور ذمہ داری پوری ہو گئی ، نہیں قطعنا نہیں یہ سوچ اور اس نوعیت کی سوچ کو ہرگز اگے نہیں آنے اور پھیلانے دینا چاہئے بلکہ اب تک جو جدوجہد کی گئی تھی اس جدوجہد میں اور بھی اضافہ ہونا چاہیے تاکہ لکھے گئے خط کے متعلق یہ تاثر سامنے آئے کہ یہ خط قوم کی اواز ہے۔ خط یقینا پوری قوم ہی کی آواز ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی جو برسوں سے امریکی جیل میں نہ کردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہیں، ان کو باعزت رہائی نصیب ہو ، وطن عزیز کے ہم وطنوں کو اور ان کے ساتھ ہی بیرون ملک پاکستانیوں سمیت دیگر انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کو بھی اس حوالے سے اب لازما اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ امریکی وکیل ڈیرئل اسمتھ جو امریکہ میں ڈاکٹر عافیت صدیقی کی رہائی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں وہ یہ بات بارہا کہہ چکے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کی صحت اس جیل میں خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے ان کی اس آواز کو سوشل میڈیا کے ساتھ عالمی سطح پر عافیہ موومنٹ کو بھی اٹھانی چاہیے ۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو امریکہ کے اس اقدام کی مذمت کرنی چاہئے ۔

بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ مظلوم ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ہونے والے مظالم سے نجات دلائی جائے اور اس کو باعزت رہائی دے کر پاکستان بھیج دیا جائے۔ اب جہد مسلسل کا یہ سفر اس نہج پر آگیا ہے اور یہاں پر کسی بھی احساس رکھنے والے شخص کو خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیئے ،

قوم کی بیٹی کی رہائی تک آواز بلند کرنی ہوگی تاکہ ماضی میں کئے گئے وعدے کے برعکس صورتحال رونما ہو ، خط سے بات آگے بڑھے اور جہد مسلسل کا یہ سفر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہو ۔ ۔ ۔
 

Hafeez khattak
About the Author: Hafeez khattak Read More Articles by Hafeez khattak: 199 Articles with 177864 views came to the journalism through an accident, now trying to become a journalist from last 12 years,
write to express and share me feeling as well taug
.. View More