سیاسی جماعتوں نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے کیا کھویا کیا پایا؟

آخر کار 20 اکتوبر کو رات گئے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کا بل دو تہائی اکثریت سے منظور ہوا تو پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ہفتوں سے جاری اگر، مگر، کیونکہ اور چنانچہ کی گردان اور وسوسوں کی گرد آخر کار بیٹھتی دکھائی دی۔

26ویں آئینی ترمیم کے نکات پر سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے لے کر منظوری تک تقریباً یہ جو دو ماہ کے عرصے میں سیاستدانوں کی آپسی ملاقاتیں، تجاویز، اختلافات، پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل، مسودے، روٹھنا منانا یہ سب کچھ پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کی شہہ سرخیوں میں زیر بحث رہا۔ تاہم اب ترمیم کی منظوری کے بعد اب یہ بحث جاری ہے کہ اس تمام تر عمل سے حکومت اور اپوزیشن جماعتیں سیاسی طور پر کیا کھویا کیا پایا؟
اس تمام تر گہماگہمی کے دوران سیاسی طور پر کس کے ہاتھ کیا کچھ آیا اور کس کے ہاتھ میں کچھ نہیں آیا؟ حکومت کو کتنا سمجھوتہ کرنا پڑا اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے کون سب کا منظور نظر رہا؟

اس دوران پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں میں جو شخصیت سیاسی طور پر سب سے نمایاں اور اہم دکھائی دی وہ بلاشبہ جمیعت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی ہی تھی۔

اس ہی طرح ایک وہ سیاسی جماعت جو کبھی ماضی میں اس طرح کی صورتحال میں انٹرنیشنل اور نیشنل طور پر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا و گراونڈ میں اپنی کارگردگی میں ماضی میں نمایاں نظر آتی تھی اس دفعہ چاروں خانے چت تھی نہ انہیں صدر آصف زرداری نہ ہی وزیراعظم شہباز شریف نے گھانس ڈالی ہو جبکہ بلاول، شریف برادران، مولانا فضل الرحمن اور پی ٹی آئی بیریسٹر گوہر تک نے انہیں مزاکرات کے قابل بھی نہیں سمجھا پی پی اور ن لیگ نے اپنی تیسرے نمبرز کی قیادت سے انہیں مزاکرات کے قابل سمجھا جبکہ متحدہ کی نیشنل اسمبلی میں ان کی 20 سیٹیں اور سینٹ میں ان کی 4 کے لگ بھگ سیٹیں تھیں اس جماعت کے ہاس نہ کوئی مسودہ پر بحث کے لیے اسمبلی میں بولنے کے لیے کوئی ممبرز اور نہ ہی اسمبلی میں دلائل کے ساتھ بات کرنے والا کوئی اسمبلی ممبرز سوائے خالد مقبول ، مصطفے کمال اور فاروق ستار ان تینوں کا اب اسمبلی یا کسی بھی جلسہ و ریلی میں ان تینوں کا بولنا اب لوگوں کو ناگوار لگتا ہے. نظر تو اب یہی آرہا ہے کہ متحدہ کے پاس اب بولنے، سمجھنے اور سننے کے لیے بھی ان کے ممبرز کا قحط آن پڑا ہے.
یہی حال عوامی نیشنل پارٹی کے اسفندر یار ولی کے بعد آجکل ان کے بیٹے ایمن ولی خان کی بھی اپنی جماعت کا حال متحدہ سے بھی بدتر نظر آرہا تھا. پارلیمنٹ میں تقریر تو کی مگر قومی اسمبلی ممبران ان کی تقریر میں ایسی کوئی خاص بات نہیں کی سوائے پی ٹی آئی اور کپتان کے خلاف اپنا غصہ نکالتے ہے. شاید کے پی کے میں اپنی جماعت کا مستقبل اب نظر آرہا ہو.

اس دفعہ جے یو آئی کی فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں صرف آٹھ اور سینیٹ میں پانچ نشتیں ہیں۔ مگر اس آئینی ترمیم کے مسودے کی تیاری کے دوران فضل الرحمان نہ صرف سیاستدانوں میں ’ہاٹ فیورٹ‘ دکھائی دیے بلکہ میڈیا پر بھی ان کی ملاقاتوں، بیانات اور معاملہ فہمی سب سے زیادہ زیر بحث رہی۔ ،انھوں نے ذہانت اور ہوشیاری کے ساتھ اپنے کارڈز کھیلے اور اس پورے عرصے میں انھوں نے پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر پورا موقع دیا کہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔

’جبکہ وہ اپوزیشن ہو پیپلز پارٹی ہو یا حکومت، اس ایک ماہ کے دوران سب کی توجہ کا مرکز مولانا فضل الرحمان ہی رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کا کردار قومی اسمبلی میں اپنی آٹھ نشستوں کے ساتھ قائد حزب اختلاف کا رہا جبکہ 90 نشستوں والی تحریک انصاف جماعت ایک طرح سے بے اختیار نظر آئی۔

مولانا فضل الرحمان کے مرکز نگاہ ہونے پر تو متفق دکھائی دیتے ہیں ’آخر میں تو مولانا فضل الرحمان کے پاس بھی (ماننے کے سوا) کوئی آپشن بچا نہیں تھا۔‘ ’اس آئینی ترمیم میں مولانا فضل الرحمان میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے اور لوگ ان کے پاس آتے بھی رہے لیکن آخر میں ان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اگر ان کے لوگ ووٹ نہیں بھی دیں گے تب بھی حکومت ترمیم منظور کروا لے گی۔ تو ان کے پاس پھر آخر میں کوئی یہی آپشن موجود تھا کہ ووٹ کاسٹ کیا جائے.

مولانا فضل الرحمان جو کافی عرصے سے ہی ٹی آئی کے آنے سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں گویا کنارے پر دکھائی دے رہے تھے انھوں نے اس سارے عمل میں خود کو ’ری اینوینٹ‘ کیا ہے اور ثابت کیا کہ قومی اسمبلی میں آٹھ نشتوں کے ساتھ وہ کس طرح پاکستان کے جمہوری نظام میں تمام توجہ کا مرکز اور محور بن گئے

دیکھا جائے انہوں نے دو چیزیں حاصل کیں جن میں سے ایک واضح نظر آ رہی ہے اور دوسری ابھی اوجھل ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے اپنے سیاسی وزن کو استعمال کر کے آئینی ترمیم کا مسودہ اپنی مرضی کے مطابق بنوایا اور دو بڑی جماعتوں کو مجبور کیا کہ وہ ان کی وکٹ پر آ کر کھیلیں اس سے نہ صرف ایک بار پھر ان کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہوا بلکہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ میں ان کا اپر ہینڈ آ گیا ہے۔

دوسری چیز جو ابھی تک پاکستانی عوام کو نظر نہیں آ رہی وہ سیاسی فائدے ہیں جنھوں نے ابھی شکل اختیار نہیں کی۔ یہ ممکن نہیں کہ مولانا اتنا کچھ کریں اور پھر اپنا دامن جھاڑ کر واپس چلیں جائیں گے وہ کچھ نہ کچھ ساتھ لے کر جائیں گے

اب نظر یہی آتا ہے مولانا فضل الرحمان کے آئینی ترمیم میں کردار کو آئندہ انتخابات میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے سے جڑ سکتا ہے.
مولانا فضل الرحمان نے آئینی ترامیم کی تراش خراش اس طرح کی ہے کہ حکومت کو اس سے بہت زیادہ فائدہ بھی نہیں لینے دیا اور اسے باقی جماعتوں کے لیے بھی قابل قبول بنا دیا ہے۔

حتی کہ اگر عمران خان اس کو ویٹو نہ کرتے تو ممکن تھا کہ پی ٹی آئی بھی اس کی حمایت کر دیتی۔ لگتا یہی ہے کہ اگلے انتخابات میں مولانا کی جماعت کو زیادہ نشستیں ملنے کا قوی امکان بڑھ جاہے۔

اس ہی طرح پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو بھی 26ویں آئینی ترمیم کے مسودے سے منظوری تک کے عمل کا کریڈٹ لیتے دکھائی دیے مگر پیپلز پارٹی اس سے کیا سیاسی فائدہ حاصل کر پائی؟ اس سارے 26 ویں آئینی ترمیم کے عمل کے دوران پیپلز پارٹی اور جے یوآئی ف دونوں نے خوب نام کمایا ہے بلکہ بلاول بھٹو کو بھی خوب سیاسی عروج ملا۔

’اس آئینی ترمیم کی تیاری اور منظوری کے دوران پیپلز پارٹی نے اپنے منشور کے ایک ایک نکتے کو ٹک کیا ہے اور چارٹرڈ آف ڈیموکریسی کو استعمال کرتے ہوئے ایک نئے قانون کی تشکیل بھی دی ہے۔

دیکھا جائے تو اس سیاسی عمل کے دوران بلاول کا سیاسی طور پر ’ایکچوئل لانچ‘ ہوا ہے۔ 2024 کےانتخابات میں بھی انھیں وہ عروج نہیں ملا تھا جو انھیں آئینی ترمیم میں کردار ادا کرنے پر شہرت ملی۔

بلاول نے جیسے پی ٹی آئی کے ساتھ رابطے کیے اس سے نہ صرف انھوں نے اپنا سیاسی قد بڑھایا بلکہ جس نکتے پر پی پی پی اور مسلم لیگ ن کا اتفاق تھا اس میں کامیابی حاصل کی اور اپنے ووٹر، سپورٹر کو اپنے منشور کے ساتھ منسلک کرنے میں کامیاب رہے۔

’اس وقت نظر تو یہی آتا ہے کہ یہ چیز ان کو مستقبل کی سیاست میں بہت اہمیت دے گی۔ جس طرح پاکستان میں سب کو ساتھ لے کر چلنے اور مصالحت کی ضرورت ہے اس میں بلاول نے اپنا امتحان بخوبی پاس کیا ہے۔‘
آئینی ترمیم کی منظوری سے اس وقت بلاول ’ایک جمہوری اور متحرک سیاستدان کے طور پر جس طرح وہ اس سارے معاملے میں فعال رہ کر سامنے آئے اس کا ان کے مستقبل پر اچھا اثر ہو گا۔’بلاول بھٹو بہت فعال طریقے سے سیاست دانوں سے ملے۔ انھوں نے اس مشکل چیلنج کو قبول کیا اور انھی کی کوششوں سے آئینی ترمیم پر سول سوسائٹی کے ساتھ مشاورت کا بھی آغاز ہوا۔‘

جبکہ اس سارے معاملے میں جہاں پاکستان تحریک انصاف مشاورت اور ملاقاتوں میں توجہ کا مرکز رہی وہیں پی ٹی آئی سیاسی طور پر وہ حاصل نہ کر سکی جس کو وہ پا سکتی تھی۔ ’پی ٹی آئی اس میں اپنا رول تو ادا نہیں کر سکی حالانکہ ان کوآئینی ترمیم کے عمل کا حصہ بننا چاہیے تھا۔ تاہم مولانا نے آخر وقت تک ان کو شامل رکھا۔ اپنی سیاسی اور پارلیمانی طاقت کو استعمال کرنے میں پی ٹی آئی بری طرح ناکام نظر آئی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے جس معاملے پر تکیہ کیا ہوا تھا وہ اب سیدھا ہو سکتا ہے۔‘آئینی ترمیم کی منظوری سے جو انقلابی مزاج عدلیہ کے اندر بنتا دکھائی دے رہا تھا وہ تھم جائے گا۔‘

’پی ٹی آئی بحیثیت ایک سیاسی جماعت کے اپنے کردار کو وہ اہمیت نہیں دیتی جو اسے دینا چاہیے تو بعض اوقات وہ اپنی جماعت کے سربراہ عمران خان کی خواہشات کو پورا کرنے اور ان کی رہائی اور ان کے بارے میں چیزوں کو ہائی لائٹ کرنے میں بعص اوقات ایجیٹیشن میں چلی جاتی ہے اور اسی کے باعث انھوں نے اس میں ووٹ نہیں کیا۔ تاہم اچھی بات یہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شامل رہے اور اپنا رول ادا کیا ۔ ان کو اگے بھی اپنا کردار ادا کرتے رہنا چاہیے۔

26ویں آئینی ترمیم پر حکومتی جماعت مسلم لیگ ن بھی کریڈٹ لے رہی ہے مگر اگر اس کی جانب سے آئینی ترمیم کے ابتدائی مسودے سے اس کی منظوری تک کے حتمی مسودے کا جائزہ لیا جائے تو حکومت کو کئی نکات پر سمجھوتا کرنا پڑا ہے۔

’حکومت کو کچھ ججز سے متعلق تحفظات تھے اور بظاہر لگ رہا تھا کہ وہ منصور علی شاہ کو چیف جسٹس نہیں بنانا چاہتی۔ ن لیگ اور پی پی یحیی آفریدی کو ہی اگلا چیف جسٹس دیکھنا چاہتی ہیں ، لیکن اب اس ترمیم کے بعد حکومت کو یہ فائدہ ہو گا کہ جن ججز پر وہ تحریک انصاف کی حمایت کرنے کا الزام لگاتے تھے اب ان میں سے وہ نکل جائیں گے۔

پارلیمانی تاریخ میں کوئی تاخیر یا جلدی کی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ حاصل کیا ہوا وہ اہم ہوتا ہے اور حکومت نے وہ حاصل کیا ہے جو چاہتی تھی۔
’حکومت جو چاہ رہی تھی وہ سب کچھ تو اسے نہ مل سکا جس کی شروع میں اسے توقع تھی۔ مگر کم از کم جو اس کی خواہش تھی کہ سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس کی تعیناتی میں اس کا ایک کردار ہو اس میں وہ کامیاب ہو گئے ہیں۔‘

’حکومت کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ سپریم کورٹ کے سینیئر ججوں کی تعیناتی پارلیمان کے ذریعے ہو۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ آئینی معاملات کو سیاسی اور عمومی معاملات سے علیحدہ رکھا جائے۔ جب عدلیہ میں معاملات جائیں تو آئین کے نام پر کوئی سیاسی کھلواڑ نہ ہو سکے تو حکومت کے بنیادی مقاصد تو پورے ہو گئے۔‘

’اس تمام صورتحال میں مسلم لیگ ن کو سب سے زیادہ سمجھوتا کرنا پڑا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو مسلم لیگ کی جانب سے اس مسودے کے ابتدائی مسودے کو دیکھیں تو اس میں اور منظور ہونے والے مسودے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

’ مسلم لیگ ن نے ترمیم کے مسودے پر جہاں سے کام شروع کیا وہ 55 کے قریب نکات تھے جب کہ جو منظور ہوئے وہ اس سے کہیں کم ہیں۔‘ مسلم لیگ ن اور ساتھ ہی ساتھ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے اس ترمیم سے بھی اپنے ہدف حاصل کیے ہیں۔‘ جبکہ متحدہ،، عوامی نیشنل پارٹی اس ترمیم میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے پر اپنے علاقہ کے لوگوں کوئی پیکیج نہ حاصل کرسکے. سوائے لکیر پیٹنے اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہی نظر آئے.

 

انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ: 385 Articles with 175435 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.