شعبہ اُردو‘ جامعہ کشمیر میں جناب ڈاکٹر یوسف میر‘ صدر
نشین شعبہ اُردو کی خصوصی دلچسپی سے امریکہ کے شہر نیویارک میں مقیم فرزند
ِکشمیر جناب پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری جو کہ پچاس سے زائد کتب کے مصنف
ہیں‘ایک سے زائد زبانوں پر شاعری کرنے والے شاعر بھی ہیں۔آج کے قدیم وجدید
شعراء نے بھی اپنے اپنے انداز میں‘بالواسطہ یا بلاواسطہ‘ کم یا زیادہ
انسانیت اور انسانی حقوق کی بات ضرور کی ہے۔اِنہی میں سے ایک نام ڈاکٹر
مقصود جعفری کا بھی ہے جن کی شخصیت محبت‘ رواداری‘ خلوص‘ انسان دوستی اور
انسانیت کے دکھ درد کا مداوا بن کر ہمارے سامنے آتی ہے۔ ان پر کئی جامعات
میں پی ایچ ڈی‘ایم فل مقالہ جات لکھے جا چکے اور زیر ِ کار ہیں‘کے لئے میں
فقید المثال پروگرام کا انعقاد کیا گیا‘ان کے ہمراہ معروف قانون دان
بیرسٹرافضل بھی تھے۔
جامعہ کشمیر کے شعبہ اُردوُ کو یہ اعزاز حاصل ہے وہ ہمہ وقت کوشاں ہیں کہ
اپنے ہیروز کو ان کی ظاہری حیاتی میں ہی سراہا جائے‘ ان کی علمی‘ ادبی اور
سماجی خدمات کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ہر انسان اپنے معاشرے میں ایک مقام
رکھتا ہے اور اس معاشرے کی اصلاح اور بہتری میں اپنا کردارادا کر سکتا
ہے۔معاشرے کے اندر لوگوں کی تربیت اور ایک دوسرے کے ساتھ اخلاقی بلندی‘
مذہبی رواداری اور سماجی معاملات کی درستگی کے لیے مخلوق میں بلاتفریق محبت
کے پھول نچھاور کرنا اصل پیغام ہے۔
تقریب میں آزاد کشمیر کے معروف شعراء کرام جناب ناز مظفر آبادی‘جناب حر
کاشمیری‘ محترمہ ڈاکٹر سیدہ آمنہ بہار ‘ جناب ڈاکٹر جاوید کے علاؤہ کثیر
تعداد میں ادیبوں‘ دانشوروں اور جامعہ کے طلباء و طالبات نے شرکت کی۔سٹیج
سیکرٹری کے فرائض شعبہ اُردوُ کے فیکلٹی ممبر جناب مہتاب عالم نے بحسن
وخوبی سر انجام دئیے۔جناب ڈاکٹر یوسف میر‘ صدر نشین شعبہ اُردو‘ جناب
پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری‘فیکلٹی ممبران اور ہال میں موجود طلباء و طالبات
نے راقم الحروف کی تصنیف مقصد ِ حیات پر جو عزت بخشی‘اس کے لئے جملہ احباب
کا صمیم قلب سے ممنون ہوں۔
دوران تقریب آزاد کشمیر کے مایہ ناز شعرا کرام جناب ناز مظفر آبادی اور
حرکاشمیری نے بہترین کلام پیش کرکے نہ صرف مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا؛بلکہ
ہماری قومی زبان اُرودُ کی افادیت و اہمیت کو بھی بہترین پیرائے میں بیان
کیا۔ جناب ناز مظفر آبادی کے اشعار: دُکھ کی بستی حسرتوں کی لاش پر تعمیر
کی‘ہم نے اپنے خواب کی کچھ اس طرح تعبیر کی‘خود بخود مظلوم تائب ہوگیا
انصاف سے‘منصفوں نے فیصلے میں اس قدر تاخیر کی‘فتح کا اعلان اُس کو ملتوی
کرنا پڑا‘اک صدا باقی تھی اب بھی نعرہِ تکبیر کی‘کس کا ماتم رات بھر کرتے
رہے اہلِ قفس‘آنکھ نم تھی صبح دم ہر حلقہِ زنجیرِ کی‘ناز جب بھی ظلم کی
تاریخ لکھی جائے گی‘ذہن میں تصویر فوراً آئے گی کشمیر کی۔
کشمیر کہانی‘حر کاشمیری کی زبانی:بے انت راستوں کے عجب امتحاں میں
ہوں‘گمراہ میرِ کارواں کے کارواں میں ہوں‘ہجرت کے بعد اک نئی ہجرت کا
سامنا‘میں وقت کے قبیلہ بے خانماں میں ہوں‘وعدوں کے سرد دھند سے نکلوں تو
کچھ کھلے‘یاران باصفا میں ہوں یادشمناں میں ہوں‘جس میں قتیل ِ جورِ مسیحا
ہے آدمی‘اُس دور کے ڈسے ہوؤں کی داستان ہوں میں‘نسبت میری ہے عہد نو کی
کربلا کے ساتھ‘حر ہوں رہ وفاء میں سفر کشتگاں میں ہوں۔
جس شخصیت کوآج سب سننے کے لئے بے تاب تھے‘میری مراد پچاس سے زائد کتب کے
مصنف‘محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے قریبی رفاء میں سے ایک‘ جن کی کچھ کتابوں
کے دیباچے محترمہ بے نظیر شہید‘علامہ اقبالؒ کے فرزند محترم جاوید اقبال
سمیت دیگر بین الاقوامی ‘ اورپاکستان کے نامور شخصیات نے لکھے۔یوں تو مقصود
جعفری کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کے طلباء کی تعداد ہی اس قدر ہے کہ
انہیں کسی اور تعارف کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہ خطہ کشمیر کا اعزاز ہے کہ
ایسی شخصیات کی خمیر اس دھرتی سے ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ بیرون ممالک کئی اعلیٰ عہدیداران‘شخصیات ان کی کتب‘
علمی خدمات کا اعتراف کر چکے ہیں‘لیکن انہیں سب سے زیادہ خوشی اپنی زبان
اردو میں محسوس ہوتی ہے۔اُنہیں اپنی دھرتی کے طلبا کے لکھے مقالہ جات جن
میں میڈم آمنہ ایم فل شعبہ ارود کی طلبہ بھی شامل ہیں ان پر فخر ہے۔
انہوں نے اُردو زبان کی بین الاقوامی اہمیت بتاتے ہوئے کہا کہ اُردوُ زبان
کے علاوہ دُنیا بھر میں بہت سے لوگوں کی پہچان اردو زبان پر ہی مبنی ہے۔
ہندوستان کے علاوہ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ بہرین‘ قطر‘ سعودی عرب‘ امریکہ‘
انگلینڈ‘ کنیڈا‘ اور دیگر ممالک میں بھی اُردوُ زبان کی اہمیت وسعت کے ساتھ
مانی جاتی ہے۔ اُردوزبان کی تعلیمی اداروں کی تعداد بھی دن بدن بڑھ رہی ہے
اور اردو زبان کی تعلیمی کیفیت بھی مستحکم ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ اردو
زبان کو آپس میں ملتے جلتے دیگر زبانوں کے ساتھ بھی موصولیات کے طور پر
استعمال کیا جاتا ہے، جو اس کی مقامی اور عالمی روایات کو مزید بڑھاتا ہے۔
اُردوزبان کی ترقی اور اَدب کے اہم شخصیات میں میر تقی میر‘ اشفاق احمد‘
فیض احمد فیضو دیگر ادبی شخصیات کی مثالیں ہیں۔ اس کے علاوہ‘ اردو زبان کی
دُنیا بھر میں آواز بلند کرنے والی مختلف صحافیوں‘ مصنفوں‘ شاعرین‘ وکلاء‘
ادیبوں‘ فنکاروں‘اور مشاعرہ کاروں کی بھی بہترین مثالیں پائی جاتی ہیں۔
اُردوکا نام ٓئے اور شاعروں کے شاعر اقبال کا نام نہ ہو یہ ممکن نہیں‘ جیّد
ادباء‘شعراء‘ مصنفین‘مقالہ نگار‘ مؤلفین‘صاحبانِ قلم و تکلّم کی بابت
تواریخ ہائے کی اوراق گردانی کر کے دیکھ لیں دہر میں شاعرِ مشرق حکیم الامت
ڈاکٹر محمد علامہ اقبال رحمتہ اﷲ علیہ نے جو مقام پایا الا ماشائاﷲ شاید ہی
کوئی اس نہج پہ ہو کیفیات اور ورود کا جو سمندر موصوف کی جانب موجزن تھا آج
تک کوئی مؤرخ یا متکلّم اس کا حیطہ نہ کر سکا اور کرتا بھی کیسے اقبال ہمہ
جہت پہلو دار شخصیت جو تھے۔ان کی اُردوُ سے لگاؤ ہمارے لئے بہترین مثال
موجود ہے۔
اُردوُ انوکھی تاریخ‘ ادب‘اور فنون کی بنا پر دُنیا بھر میں پہچان رکھتی
ہے۔ اس کی اہمیت‘ خوبصورتی‘ اور روایات کو جاری رکھنے کے لئے ہمیشہ اس کی
ترویج‘ تعلیم‘اور ترویج کرنی چاہیے تاکہ یہ نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی
سطح پر بھی ایک اہم زبان کے طور پر قائم رہے۔ اردو زبان کے پرجوش ادبی اور
زبانی ورثے کو سراہنے کی کوشش کریں‘ تاکہ اس کا علم‘عشق‘ اور فخر دُنیا بھر
میں پھیلتا رہے۔ڈاکٹر جعفری نے بتایا کہ شعبہ اُردوُ کے طلبا کو یہ اعزاز
حاصل ہے کہ ان کے اساتذہ میں ڈاکٹر یوسف میر‘ مہتاب عالم ‘ ڈاکٹر آمنہ
بہار‘ ڈاکٹر جاوید جیسے نامور اساتذہ شامل ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر کے لئے
ہمیں پہلے اس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھنا ہو گا۔
آخر میں اس تقریب کے روح رواں ڈاکٹر یوسف میر نے سب کا شکریہ ادا کیا اور
بتایا کہ ڈاکٹر مقصود جعفری کا ہمارے درمیان موجود ہونا خطہ کشمیر کے لئے
اعزاز ہے۔ مادرِ وطن پاکستان ‘ کشمیر کے شعرا کرام‘ مصنفین جن پہ نہ صرف
اہل ِ وطن بلکہ عالمی دُنیا فخر کرتی ہے عالمی سطح پر جو لوگ پہچانے جاتے
ہیں اور پاکستان‘ خطہ ِ کشمیر کی صلاحیتوں کا دمکتا چہرہ ہیں‘ ہمیں ان کے
علوم سے فیض یاب ہونا چاہیے اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کرنا ہمارا اولین
فریضہ ہے۔تحریک ِآزادی کشمیر میں اَدب کا کردارکلیدی ہے اسے فراموش نہیں
کیا جاسکتا۔پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری جیسی شخصیات تحریک آزادی کشمیر اجاگر
کرنے میں کرداریہ بات کی واضح دلیل ہے کہ جلد کشمیر کی آزادی کا سورج طلوع
ہو گا ان شاء اﷲ تعالیٰ۔
|