ماضی کے جھروکوں سے ایک اقتباس
شکریہ ان تمام اساتذہ کرام کا جن سے مختلف مقامات و ادوار میں استفادہ کرتا
رہا۔ سب قابل قدر، قابل ذکر اور قابل ستائش ہیں۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں آپ
اساتذہ کرام کی بدولت ہوں۔ آپ کا شکریہ میں ادا کر ہی نہیں سکتا، آج زندگی
کی چالیس بہاریں دیکھنے کے بعد جب ماضی کو کریدتا ہوں تو گزرے دن ایک تسبیح
کی مانند میرے ذہن میں گھومنے لگتے ہیں، آج محمد قاسم ۔۔۔۔۔کا ۔۔۔۔وقار۔۔۔۔۔آپ
کی بدولت ہے۔ آپ حیات ہیں تو اللہ پاک صحت و تندرستی والی لمبی زندگی عطا
فرمائے اگر دار فانی سے دار البقاء کی طرف رحلت فرما گئے ہیں تو آپ کا
روحانی بیٹا ہر پل آپ کیلئے دعا گو ہے۔ میں جو کچھ ہوں آپ سب کے مرہون منت
ہوں۔
وہ دن میں کبھی بھول ہی نہیں سکتا جس دن ناچیز، ہمشیرہ محترمہ اور بھائی
محمد شریف والد گرامی اور تایا جان علامہ محمد حنیف سیالوی رحمۃ اللہ علیہ
اور پھوپھو زاد حاجی حافظ غلام رسول سیالوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ آستانہ
عالیہ سیال شریف پہنچے، ہم بچوں کو بیعت کی سعادت نصیب ہوئی اور مرشد گرامی
حضور امیر شریعت حضرت خواجہ محمد حمید الدین سیالوی قدس سرہ العزیز نے عربی
قاعدہ کا پہلا سبق پڑھایا۔ یہ سعادت کی معراج ہے کہ مجھے نام۔۔۔۔محمد قاسم۔۔۔۔۔۔
مرشد کریم نے عطا فرمایا۔ وقار کا لاحقہ اس لیے لگایا کہ میری نالائقی ہو
تو لوگ کہیں کہ یہ وقار کا کام ہے اور میرے مرشد کریم کا عطا کیا ہوا نام
داغ دار نا ہو۔
اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب والد گرامی حضرت علامہ قاری محمد ابراہیم سیالوی
زید شرفہ اور ماں جی نے مجھے قلم کا استعمال سکھایا، سلیٹ اور سلیٹی کا دور
تھا اس دن میں بہت خوش تھا جب مجھے نویں نکور سلیٹ خرید کر دی گئی تھی،
تختی لکھنا، قلم دوات کا استعمال بھی گھر میں ہی سیکھا۔ والد گرامی تدریس
کیلئے جڑانوالہ کے قریب گنگا پور گاؤں کے گورنمنٹ ہائی سکول میں روزانہ
تشریف لے جاتے اور گھر میں والدہ صاحبہ سے دس تک پہاڑے، جمع، تفریق، ضرب،
تقسیم اور اردو کتاب پڑھنا سیکھی۔ لفظوں کے جوڑ کرنا سیکھے،
پھر سکول کی تعلیم کا آغاز ہوا والد صاحب کی انگلی پکڑ کر خوشی خوشی سکول
کی تلاش میں نکلے تھے، راستے میں آغا جان نرسری سکول، شاہین آئیڈیل اور
العماد پبلک سکول باہر سے دیکھے، والد صاحب نے رائے پوچھی کہ کس سکول میں
پڑھنا ہے تو ان سکولوں کو اس لیے پسند نہیں کیا کہ گرمی میں نرسری کلاس کے
بچوں کا یونیفارم نیکر شرٹ تھا اور شرٹ بھی ہاف بازو۔ یہ لباس پہن کے باہر
نکلنا تو میرے لیے شدید باعث شرمندگی تھا۔
قصہ مختصر گورنمنٹ اسلامی مدرسہ پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر استاد مقبول
صاحب کے دفتر میں جا پہنچے، میرا انٹرویو ہوا اردو قاعدہ سامنے رکھا اور
کہا کہ پڑھو، پڑھنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔الف انار، ب بکری، پ پنکھا۔۔۔۔۔پڑھتا گیا۔۔۔۔۔۔۔
ی یکہ اور کتاب بند کرکے اوپر دونوں ہاتھ مار کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا سبق
میرا پکا۔۔۔۔۔۔ (استاد صاحب اور والد صاحب کی مسکراہٹ کی آواز کانوں میں
گونجی اور میں نے شرم سے سر جھکا لیا) ۔ یوں مجھے کچی کلاس کی جگہ پہلی
کلاس میں داخلہ ملا، پہلی کلاس کے انچارج استاد اقبال صاحب تھے اور ہماری
کلاس دھوپ سینکنے کیلئے سکول کے گیٹ سے باہر مین روڈ پر لگتی تھی، قریب ہی
ایک ٹھیلے والا مسمی کاٹ کر برف پر لگا کے فروخت کرنے آجاتا اس لیے ہماری
ٹک شاپ اس زمانہ میں یہی تھی۔
بھلا زمانہ تھا گھر سے کپڑے کا تھیلا بطور بیگ ملا، اسی میں دو کتابیں، ایک
رف کاپی سلیٹ سلیٹی ہوتی، اسی میں قلم دوات، کچی پینسل، ربڑ، شاپنر اور
ساتھ ایک عدد خالی ٹاٹ کی بوری بھی ہوتی جسے بچھا کے اوپر براجمان ہوکے
زانوئے تلمذ طے کرنے کا سفر شروع ہوا۔
دوسری جماعت کے کچھ ماہ کلاس بدستور سڑک پر رہی بس دھوپ کے مطابق سجے کھبے
ہوجاتے تھے، پھر کلاس پرائمری سکول کے اکلوتے طویل برآمدے میں شفٹ ہوگئی،
پرائمری سکول میں صرف ایک ہی دروازے والا کمرہ تھا جو ہیڈ ماسٹر صاحب کا
دفتر تھا۔ باقی ایک لمبا سا برآمدہ جس کی چھت چھتیری اور سرکیوں کی تھی، اس
میں چند چند فٹ جگہ چھوڑ کر تمام کلاسیں لگا کرتیں حسب ترتیب، دوسری، تیسری،
چوتھی اور پانچویں بالکل آخری کونے میں، کچی اور پکی والے طلباء بارش یا
گرمی سردی میں سائیکل اسٹینڈ کے ساتھ ہی ایڈجسٹمنٹ کر لیتے اگر وہاں بھی
پانی آجاتا تو فل عیاشی کروا کے چھٹی مل جاتی تھی۔ پرائمری اور ہائی سیکشن
کے درمیان محض ایک ڈیڑھ فٹ کی دیوار اور چند درخت حد فاصل کا کردار ادا
کرتے تھے۔
تیسری کلاس میں استاد مقبول صاحب( ہیڈماسٹر ) انچارج تھے، چوتھی، پانچویں
میں ایک اور استاد محترم محمد اقبال صاحب کی کلاس میں بھیجا گیا۔ الحمدللہ
پہلی سے پانچویں تک کلاس کا مانیٹر رہا کیونکہ اس وقت پڑھاکو بچوں کو
مانیٹربنایا جاتا تھا۔ جو سبق سننا، کلاس کو کنٹرول کرنا، املاء لکھوانا،
اردو، اسلامیات، معاشرتی علوم وغیرہ کتب سبق کے دوران اونچی آواز میں پڑھتا
اور استاد محترم مشکل الفاظ کے معانی اور حسب ضرورت تشریح فرماتے جاتے۔
(نوٹ۔۔۔۔انگریزی سے ہمارا آمنا سامنا چھٹی کلاس میں ہوا)
تختی لکھنے کا دور تھا، خوشخطی لازم و ملزوم تھی، اردو املاء روزانہ لکھتے
اور اغلاط کی درستگی کیلئے اساتذہ کرام کو پیار نہیں مار کے اصول کو اپنانے
کی کھلم کھلا چھٹی ہوتی تھی۔ پرائمری سکول کے ایک استاد محترم نام تو یاد
نہیں لیکن ۔۔۔۔رائےصاحب ۔۔۔۔ کہتے تھے ہرروز کلف لگا سفید سوٹ، مونچھیں اور
پشاوری چپل پہن کے آتے، کیا گرج دار آواز تھی، جب بچوں کا شور ضرورت سے
زیادہ ہوتا تو لکڑی کے تختہ سیاہ پر چھڑی کو مارتے اور ساتھ۔۔۔۔۔ اوئے شور
بند کرو۔۔۔۔۔ اور یکدم پرائمری سکول ہی کیا ہائی سیکشن میں بھی سناٹا چھا
جاتا تھا۔
پانچویں کلاس کے دوران ایک دن املاء لکھ رہے تھے کہ لفظ۔۔۔۔۔ چنانچہ۔۔۔۔
نجانے کہاں سے آ دھمکا۔ اچانک ذہن سے ہی نکل گیا کہ اس کو لکھنا کیسے ہے۔
کلاس کا مانیٹر پھنسا تھا اور شامت اعمال کہ استاد صاحب بھی میرے سر پر
کھڑے میری ہی تختی کو مسلسل ملاحظہ فرما رہے تھے، مجھے عاجز سمجھ کے اشارہ
دیا کہ چنا لکھو اور آگے جیسے بچہ لکھتے اس طرح کا لفظ ہے۔ میں نے چنا کے
ساتھ بچہ لکھ مارا۔ بس ایک تھپڑ آیا کان کے نیچے، اب کونسی املاء اور کونسی
درستگی جیسے دماغ سے ساری املاء کے اجزاء ترکیبی ہی دائیں بائیں ہوگئے ہوں،
۔۔۔۔ لکھو۔۔۔ لکھتے کیوں نہیں استاد محترم کی گرجدار آواز گونجی ساتھ ایک
اور تھپڑ، پھر مسلسل تھپڑات کی برسات ہوئی جیسے سال بھر کی چھوٹی موٹی
غلطیوں کی یکمشت ادائیگی کا ارادہ تھا۔ گھر پہنچا تو چہرے کا جغرافیہ بتا
رہا تھا کہ آج علم کوٹ کوٹ کے پڑھایا گیا ہے۔ سوچا ماں سے دلاسہ ملے گا،
استاد محترم کو چار پانچ سنا دیں گی لیکن مجال ہے کوئی بات کی ہو۔ الٹا
مجھے ہی کہا کہ پتر ایہہ لفظ توں کنا سوہنا لکھدا ایں بھل کیویں گیا؟ استاد
ہوراں تینوں سمجھاون واسطے ماریا اے ہنڑ دھیان نال لکھیں فیر مار نہیں پووے
گی۔ واقعی اس ٹیوننگ کے بعد تین چار ماہ تک بہترین کارکردگی رہی اور کلاس
سے وظیفہ کے امتحان کیلئے بھی سیلیکٹ ہوا ، پانچویں کلاس اچھے نمبروں سے
پاس ہوگئی ہمارا پانچویں کا سنٹر ام المدارس سکول بنا۔
یوں پانچویں کے امتحان کے ساتھ ہی گورنمنٹ اسلامی مدرسہ پرائمری سکول میں
سفر تمام ہوا اور چھٹی کلاس گورنمنٹ اسلامی مدرسہ ہائی سکول میں خود کار
طریقہ سے داخلہ مل گیا۔ بہت سارے اہل محلہ کی سرگوشیوں اور سکول سے پڑنے
والی مار کا سن کے دن رات دعا تھی کہ استاد محمد شریف صاحب کی کلاس میں
داخلہ نا ملے باقی جس مرضی استاد صاحب کی کلاس میں بٹھا دیں لیکن شاید قسمت
میں مزید ٹیوننگ لکھی تھی کہ جس لسٹ میں نام آیا اس کلاس کے انچارج استاد
شریف صاحب تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|