مشورہ کریں لیکن ہر کسی سے نہیں!

کہتے ہیں کہ مشورہ دیوار سے بھی کر لینا چاہیے لیکن جو خود شکستہ ہو اس سے کیا مشورہ کرنا۔
مشورہ بچے سے بھی لے لینا چاہیے ، لیکن اس کی عمر کے حساب سے ۔
مشورہ دینا چاہیے۔ اس وقت جب آپ کو اس کا تجربہ ہو

مشورہ کرو، یہ سنت نبوی بھی ہے اور سیکھنے کا بہترین ذریعہ بھی۔ لیکن آج کل ہر دوسرا شخص مفت مشورہ کا سٹور کھول کے بیٹھا ہے ۔ ضرورت و بلا ضرورت ہر جگہ مشورے پھینکتا چلا تا ہے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ دوسرے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بات کرنے والا کرکے گزر جاتا یا اپنی دھن میں کرتا چلا جاتا لیکن سامنے والے کو کس الجھن میں، تنہائی میں اور پریشانی میں چھوڑ کر جا رہا اس کا کبھی احساس نہیں ہوتا۔

ہم بھی ہر کس و ناقص کے سامنے اپنے دکھڑے لیکر بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر وہ دکھی ہے تو آپ کو مزید دکھی کر دے گا۔ اگر وہ آسودہ ہے تو آپ کی پرواہ نہیں کرے گا۔ اگر وہ مال دار ہے تو آپ کی غربت سے اس کو کیا لینا دینا۔ کچھ لوگ تو محض یہ سن کر کہیں سیدھے راستے پر چلتے ہوئے کل کو یہ میرے ہی سٹیٹس تک نا آجائے اسے اچھا مشورہ دیتے ہی نہیں یا یکسر ہی اسے ڈی ٹریک کر دیتے ہیں۔

اکثر سننے میں آتا کہ فلاں شہر کے لوگ درست راستہ نہیں بتاتے، اس کی بڑی وجہ ہوتی کہ وہاں لوگوں کا شدید رش ہوتا ہے اور لازمی نہیں کہ ہر بندہ ہر جگہ سے واقف بھی ہو۔

کچھ لوگوں کا تجربہ کسی اور فیلڈ کا ہوتا اور اسی تجربہ کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ دوسری فیلڈ میں اپنے مشورہ کا پنکچر لگا رہے ہوتے ۔ جیسا کہ کہتے ہیں کہ کسی گاؤں میں سیانا رہتا تھا۔ لوگ اس کو محض سیانا اس وجہ سے کہتے کہ کچھ مہینے وہ شہر میں گزار کر آیا ہوا تھا۔ ایک دن ایک لڑکا کھجور اتارنے کیلئے کھجور کے بلند و بالا درخت پر چڑھ گیا اور اوپر ہی تازہ کھجوریں توڑ توڑ کر کھاتا رہا۔ جب نیچے اترنے کی باری آئی اور بلندی سے نیچے دیکھا تو سر چکرانے لگا۔ اب ہمت نہیں ہو رہی تھی نیچے اترنے کی تو شور مچا دیا کہ مجھے نیچے اتارو۔ لوگ جمع ہوگئے اور بھانت بھانت کے مشورے دینے لگے۔ کسی نے کہا کہ بلاوجہ پریشان ہو رہے ہو اپنے گاؤں میں سیانا جو موجود ہے چلو اس کے پاس چلتے ہیں۔ سیانے نے مشورہ دیا کہ ایک مضبوط رسی اوپر پھینکو اور اس نوجوان سے کہو کہ اپنی گمر میں کس کے باندھ لے ، پھر چار پانچ لوگ مل کر رسی کو کھینچو بندہ نیچے آجائے گا۔

قصہ مختصر مشورہ سیانے کا تھا لوگوں نے من عن عمل کیا۔ رسی پھینکی، اس نے کمر میں باندھی لوگوں نے مل کر زور لگایا اور دھڑام سے وہ نوجوان درخت سے نیچے گرا ، گردن ٹوٹ گئی اور موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ گھر والوں کو شدید غصہ آیا کہ ہمارا بچہ اس سیانے نے مروا دیا ہے ۔ پوری برادری اور گاؤں والے لوگ جمع ہوکے اس سیانے کے پاس گئے کہ تمہارے مشورہ کی وجہ سے ہمارا نوجوان مر گیا ہے تو وہ انتہائی مطمئن انداز میں بولا اس کی تقدیر میں مرنا لکھا تھا اور آج اس کا وقت پورا ہوگیا ہم کیا کہہ سکتے ہیں ورنہ کچھ دن پہلے ساتھ والے گاؤں کا ایک نوجوان کنویں میں گر گیا تھا، اسی طرح رسی باندھ کے آٹھ دس لوگوں نے کھینچا تو وہ بحفاظت باہر آگیا تھا۔

ہم نے کاروبار کرنا ہوتا ہے اور مشورہ کسی نوکری پیشہ فرد سے کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم نے سیر کرنے کیلئے جانا ہوتا ہے اور مشورہ اس سے کر رہے ہوتے جو کبھی گھر سے نکلا ہی نہیں۔ ہم آگے پڑھنا چاہتے اور مشورہ اس سے کر رہے جو خود سکول سے ہی تعلیم چھوڑ چکا ہے۔ ہم نوکری کرنا چاہتے اور مشورہ دوکاندار سے کر رہے ہوتے۔ یہ تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے خراب گاڑی ہوئی ہے اور مشورہ ڈاکٹر سے کرنے چل دیے۔ اب تو کسی شخص کا کچھ دن کچہریوں میں آنا جانا ہو جائے تو وہ لوگوں کو فوجداری مقدمات پر فل بریفنگ دے رہا ہوتا۔ کسی کو بخار ہو تو فٹافٹ پیناڈول کا مشورہ دے دیتے یہ جانے بغیر کہ اس کو بخار تو بجلی کا بل زیادہ آنے کی وجہ سے چڑھا ہوا ہے۔

بعض حساس معاملوں میں ہم ٹانگ اٹکا لیتے ہیں جن کے بارے ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا۔ اپنا اور دوسروں کا وقت برباد کرتے رہتے ہیں، کچھ لوگوں کو سیاست کا خبط ہوتا خود کبھی محلہ کا کونسلر بھی نہیں بنے ہوتے اور تبصرہ وزراء اور سی ایس ایس آفیسرز پر جھاڑ رہے ہوتے۔ بالکل اس تماشائی کی طرح جو اسٹیڈیم کی سب سے آخری کرسی پر بیٹھ کر وکٹ پر کھیلنے والے کو مشورہ دے رہا ہوتا کہ اس کو چھکا لگاؤ یہ جانے بغیر کہ جو وکٹ پر موجود ہے اس کے ساتھ کیا بیت رہی ہے یہ وہی جانتا ہے ۔

سنا ہے کہ ایک دن حضرت واصف علی واصف علیہ الرحمہ کے سامنے کوئی شخص سیاست کا، ملکی حالات کا ، معیشت کا رونا رونے لگا تو آپ نے فرمایا کہ کیا آپ ان حالات کو درست کر سکتے ہو؟ اس نے جواب دیا نہیں۔ پوچھا کیا تمہاری بات ایوان بالا تک پہنچتی ہے ؟ اس نے جواب دیا ن ہیں۔ فرمایا کیا اس سب کے تم ذمہ دار ہو؟ اس نے جواب دیا نہیں۔۔۔۔۔ تو آپ مسکرائے اور فرمایا پھر تم چائے پیو جو سامنے پڑی ہے اور ٹھنڈی ہو رہی ہے ۔

کچھ لوگوں نے انٹرنیٹ کو ہی اپنا استاد مان لیا اور بھانت بھانت مشورے سنتے چلے جاتے ہیں حالانکہ لوگوں کو صرف میرا چینل سب سکرائب کریں اور گھنٹی کا بٹن دبا دیں سے مطلب ہوتا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر آپ اپنی زندگی سنوارنا چاہتے ہیں، کچھ کرنا چاہتے ہیں یا کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں تو آج سے نئی زندگی کی شروعات کریں، جس فیلڈ کا مشورہ درکار ہو اسی فیلڈ کے بندے سے پوچھیں۔ جیسے کرکٹ کھیلنے کا مشورہ پائلٹ سے، فٹ بال کھیلنے کا مشورہ کان کن سے ، مویشی منڈی کا مشورہ بینکر سے ، دینی معاملات کا مشورہ الیکٹریکل انجینئر سے، بلڈنگ انجئنئرنگ کا مشورہ عالم و مفتی سے کرنا چھوڑیں۔ جس فیلڈ کا مشورہ ہو اسی فیلڈ کے ماہر بندے سے پوچھیں۔ مایوس لوگوں سے مناسب فاصلہ رکھیں اور جرات مند، حوصلہ مند اور چیلنچ کو قبول کرنے والے لوگوں سے مشورہ کریں آگے بڑھیں ۔۔۔۔۔۔۔ گاؤں کے سکول کی دیوار پر لکھا ہوا یہ جملہ کتنی گہرائی رکھتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ محنت اتنی خاموشی سے کہیں کہ تمہاری کامیابی شور مچا دے ۔
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 13 Articles with 3407 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.