قارئین کرام : السلام علیکم و
رحمتہ اللہ ! گذشتہ سال اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس
کی یادیں محفوظ کرلیں تھیں جو کہ قبل ازیں کراچی کے ایک میگزین میں (مکتب
نمبر اکیاون ) کے نام شائع ہوچکی ہیں۔ اس سال حج کے موقع پر ہم ہماری ویب
کے قارئین سے اپنے اس سفر کی یادیں شئیر کررہے ہیں۔ اس امید پر کہ اگر اس
تحریر سے کسی کا تھوڑا سا بھی بھلا ہوجائے تو ہمیں بھی ثواب ملے گا۔آپ کے
تبصرے ہماری رہنمائی کریں گے۔
’’آپ کا مکتب نمبرکیا ہے؟‘‘یہ تیکنیکی سوال ہراس فرد نے ہم سے کیا جوپہلے
حج کرچکا تھا یا اس سال کرنے والا تھا اورجس کا جواب ہمیں اپنی روانگی سے
دو روز قبل ملا جی ہاں! مکتب نمبر۱کیاون !
’’........النز ھۃ!!جناب پوش ایریا ہے! دو دوریال میں جا اور آسکتے
ہیں!بسیں بھی چلیں گی اسکے علاوہ گروپ بنالیں تو بڑے اطمینان سے حرم تک
پہنچ سکتے ہیں...........‘‘
رہائش گاہ کے سوال پرہمارے حج گروپ کے منتظم نے تسلی دی، تو یہ تھی خوش
خبری جس کے ساتھ ہم نے سفرحج کا آغاز کیا تھا!مگرنہیں!ابتدا تواسی دن ہوگئی
تھی جس دن ہم نے اپنا پاسپورٹ ری نیو کروایا جو سال کے اختتام پر ایکسپائر
ہونیوالا تھا اگرچہ دل میں یہ خیال تھا کہ ہمارے ایسے نصیب کہاں ؟؟اس کے
باوجود پہلا قدم تو اٹھانا ہی تھا! اور شاید یہ ہی وہ لمحہ تھا جب رب
کائنات نے مسکراتے ہوئے اپنے مہمانوں کی لسٹ میں ہمارا نام بھی لکھ لیا جس
کے بعد ہمیں اتنی توفیق ہوئی کہ اگلے ہفتے ہم حج فارم جمع کروارہے تھے!
پھر امید اورخوف کا ایک نیا سفر شروع ہوا!کبھی سوچتے ’’قرعہ اندازی میں نہ
رہ جائیں...‘‘ فوراً خیال آتا’’.......مہنگائی اور سیلاب کی وجہ سے
درخواستیں کم آرہی ہیں لہٰذا نام آہی جائے گا.......‘اوربالآخر ان تمام
سوچوں کو کنارا مل گیا ! جی ہاں ! ماہ رمضان کا چاند اور ہماری درخواست کی
کامیابی کا ا علان ایک ہی وقت ہوا! فوراً شکر ادا کیا اور رحمتوں کے سائے
میں آگئے مغفرت کا مہینہ جو آگیا تھا!!۔
رمضان کا پورا مہینہ تیاری کے حوالے سے تھا ! روح کی بالیدگی کے لیے ہرسو
مواقع تھے! کچھ کامیابی اور کچھ تشنگی کے ساتھ وقت گزرا۔اس دوران تربیتی
نشستوں کا بھی اہتمام رہا جن میں حج اور عمرے کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ
انتظا می امور پر بھی رہنمائی دی گئی۔ عیدالفطرکے بعد اس میں اضافہ
ہوا۔حاجی کیمپ کا چکربھی لگانا پڑاجہاں ٹیکے اور انجیکشن لگوانے کے ساتھ
ساتھ دواؤں کی پیکنگ کروائی۔ مشوروں اور نصیحتوں کے ہارگلے کی زینت بنتے
گئے جو لوگوں کی محبتوں کا مظہرتھے!کسی نے حج کے سفرنامے پڑھنے کو کہا تو
کسی نے سیرت کے مطالعے پرزوردیا۔ہم سب کو آمناوصدقنا کہتے رہے مگر وقت کی
کمیابی نے کسی بھی سرگرمی کوبھرپور طریقے سے ادانہ کرنے دیا!دلچسپ بات تواس
وقت ہوتی جب ایک کا مشورہ دوسرے کا متضاد ہوتا اور ہم ہونق ہوجاتے ! بالآخر
یہ طے کیا کہ اپنے حالات کی روشنی میں حکمت عملی کا تعین کریں گے!! حج
آپریشن کے سولہویں دن ،دو پہر بارہ بجے ،پی آئی اے کی فلا ئٹ سے ہماری
روانگی تھی۔ امید اور وسوسے لیے صبح سات بجے ہم گھر سے روانہ ہوئے ۔یہ
خدشات سامان کی چیکنگ اور فلائٹ کے لیٹ ہونے سے لے کر رہائش کی خرابی تک
پھیلے ہوئے تھے۔کچھ لوگ حکومت کی اسکیم کے تحت جانے پرتشویش کا اظہار کررہے
تھے جبکہ کچھ کا خیال تھا کہ جس گروپ کے ساتھ ہم جارہے ہیں وہ کھانے کی
تیاری میں ہمارا بہت سا قیمتی وقت ضائع کریگا۔ان وسوسوں میں گھر ے جب ہم
ٹھیک چار بجے جدہ ائیر پورٹ پرپہنچے تو کچھ خدشات تودور ہوچکے تھے مگر ابھی
تو سفر شروع ہی ہواہے!!!
خیال یہ تھا کہ یہاں ہمارا بہت وقت صرف ہوگا،مگرسب سے پہلے پولیو ڈراپس پلا
کر ہمارا استقبال ہوا اس کے بعد انتہائی سرعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ا
میگریشن کا کام مکمل ہوا ۔لوگوں کو واش روم سے بلوا کر بسوں میں چڑھایا اور
مکہ روانہ کردیا گیا ۔اتنی جلدی !!ہم سب انگشت بدنداں تھے!کچھ حیرت، کچھ
مسرت کے جذبات لیے ہم نے جدہ چھوڑا! اس موقع پر ہمارا گروپ مختلف بسوں میں
چڑھنے کی وجہ سے ایک دو سرے سے جدا ہوگیا! اﷲرحم کرے! گروپ ایکشن تو اس وقت
ہی شروع ہونا تھا،اس سے پہلے کی کارروائی تو انفرادی تھی۔خیر! ہم سب آسانی
کی دعا مانگتے ہوئے جانب مکہ ہوئے!دل پگھل رہاتھا! کیا ہماری اوقات اورکیااﷲکی
مہمانی! ہمارے پاسپورٹ لے کرہمیں شناختی لاکٹ اور بریسلٹ وغیرہ دیے گئے۔
بس میں ہی عصراور مغرب کی نماز ادا کی،لنچ باکسز اور زم زم دیاگیا۔اس سے
پہلے جہاز کے عملے نے بھی ناشتہ دیاتھا۔گویا ضیافت توخوب ہورہی ہے! رحل (
وہ مقام جہاں سے آگے غیرمسلم داخل نہیں ہوسکتے)سے گزرے تو عجیب سا احساس
ہوا ! کتنا شکرہے رب کا کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا ورنہ ہم اس سے آگے نہ
جاسکتے تھے!مکہ آنے سے بہت پہلے ہی دنیا کا سب سے بڑا کلا ک نظر آگیاہے! اﷲاکبر!!!آ
ٹھ بجے کے قریب ہم اپنی منزل تک پہنچ گئے۔ پہلے ہمیں معلم کے دفتر لے جایا
گیا یہاں بھی تواضع ہوئی مگر اترے بغیر!کچھ منٹ بعد ہم اپنی رہا ئش گا ہ
پرتھے۔ اب ایک ماہ کے لیے یہ ہی ہمارا ٹھکانہ ہوگا!
نئی اور جدید طرز کی نو منزلہ عمارت میں کشادہ کمرے اورواش رومز،ہرفلور
پردو کچن اور ڈائننگ ہال تھے،بڑے بڑے لاؤنج جن میں بآسانی فیملی میٹنگز کی
جاسکتی ہیں ۔ شکر ہے کہ خراب رہائش کا خوف بھی دور ہوا !!!!۔ہمیں چوتھی
منزل پرچار کمرے الاٹ کیے گئے جن میں دو خواتین کے حصے میں آئے۔ہمارا گروپ
بائیس افراد پر مشتمل ہے جس میں تیئس سال کی خاتون سے لے کر اسّی سال تک کے
بزرگ ہیں ۔زیادہ تر لوگ تیس سے پچاس سال کے درمیان ہیں جن میں ایک باپ
بیٹی،ایک بھائی بہن اور دوماں بیٹے کے علاوہ باقی میاں بیوی تھے۔ہمارے کمرے
میں سات جبکہ دوسرا کمرہ نسبتا چھوٹا ہے وہاں چار خواتین ٹھہرائی گئیں۔یہ
ہی صورت حال مردوں کے ساتھ تھی۔
فریش ہونے اور نماز عشاء ادا کرنے کے بعد تھوڑا آرام کیاگیا اس کے بعد معلم
کی طرف سے فراہم کردہ کھانا البیک کھایا گیا۔رات بارہ بجے کے قریب جب ہم
عمرے کے لیے روانہ ہورہے تھے تو اﷲکی مہربانی پر دل شکر ادا کررہا تھا۔کتنی
آسانی مہیا کررہا ہے! سب کا یہ ہی خیال تھا کہ گھر سے نکلنے کے بیس بائیس
گھنٹے بعد ہی ہم رہائش گاہ تک پہنچ سکیں گے جبکہ محض بارہ گھنٹے بعد ہم
عمرہ کررہے تھے!
پہلی پہلی حاضری تھی ، دل بہت ڈرا ہوا تھابہت سی باتیں تھیں جو رب کے در
پرجا کر کہنی تھیں مگر جب وہ جلوہ سامنے آیا تو زبان گنگ تھی !الفاظ کھوچکے
تھے ۔ایک اس بچے کی مانند جو درباری آداب بالائے طاق رکھ کر یک ٹک بادشاہ
کو ہی گھورے چلا جائے ! جب دل ونگاہ ٹھہری تو اپنی اوقات کا خیا ل
آیا!مگرہم کوئی معمولی نہیں تیرے مہمان ہیں !آداب مہمانی ادا کرتے ہوئے
طواف مکمل کیا۔کچھ یاد نہیں! لب پہ کیا تھا اور دل میں کیا سوچا تھا ؟وہ تو
سب جانتا ہے بس زبان سے کہلوا کر ہمارے ہی اجر بڑھاتاہے! کیا لطف وکرم
ہے!!رات کے اس لمحے چونکہ رش کم تھا لہذا بہت آرا م سے اور قریب سے طواف
کرنے کا موقعہ ملا۔
طواف کے بعد سعی کا مرحلہ تھا ! خیال آیا ہمارے چکروں کی تعداد تومتعین ہے
حضرت حاجرہ کو توکچھ پتہ نہ تھا کس طرح اپنے بچے کی پیاس بجھانے کو دوڑی
تھیں،بس رب کا بھروسہ کہ وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا! اس یقین کو اﷲ نے اتنا
پسند کیا کہ اپنی شعار میں شامل کرلیا ! سبحان اﷲ! سبز لائٹوں پر مردوں کے
قدم تیزہوئے،گویاکانو ں میں اسمٰعیل ؑ کے رونے کی آواز گونجی ہو!عورتوں کی
طرف سے تو حاجرہ دوڑ ہی چکی ہیں ! کیا اعزازہے! الحمداﷲ! حلق کے بعد عمرہ
مکمل ہوا تو تقریبا تین بجنے والے تھے ہم مسجد کی سیڑھیوں پربیٹھے بیت اﷲکو
تکتے رہے۔ یہ بھی عبادت ہے ! کیا شان ہے تیرے گھرکی!زم زم سے سیراب ہوئے کہ
منافقین کی فہرست میں شامل ہوناپسندنہیں !!
اب تہجد کا وقت تھا ،رب سے سرگوشی کاموقع ! مگر توجہ نہیں ہو پارہی تھی
کیونکہ کم ازکم تین افراد حلق کے دوران اپنے گھروالوں سے بچھڑچکے تھے جن کے
آنسو تشویش کا باعث بن رہے تھے۔ان کو تسلی دی گئی یہ اﷲکا گھر ہے یہاں کوئی
نہیں کھوسکتا۔ فجر سے فارغ ہوئے تو بچھڑے ہوئے مل گئے ۔کچھ لوگ تو اگلے دن
ہی مل پائے۔دراصل حجام کی دکان کے باہر اپنی خواتین کو کھڑاکرکے بال کٹوانے
گئے اتنی دیر میں رش بڑھنے کی وجہ سے ان کو اپنی جگہ سے ہلا دیا گیا ۔نیا
نیا معاملہ تھا ۔موبائل آن نہ ہوئے تھے لہذا یہ پریشانی ہوئی۔بہرحال اس میں
بھی خیرتھا کیونکہ بقول ایک متاثرہ فرد کہ دعا میں خشوع اور عاجزی نہیں تھی
مگر اس وجہ سے پیدا ہوگئی۔سبحان اﷲ!بچھڑنا بھی مبارک ثا بت ہوا!مگر بہرحال
قیادت کے فقدان اور اجتماعیت میں اعتماد کی کمی کا شدت سے احساس ہوا جو
پورے سفر میں رہا۔یہ تومن حیث القوم ہمارا المیہ ہے!
صبح ہوچکی تھی، لہٰذا واپس جانے کے لیے اسٹاپ پرپہنچے اور ٹک شاپ سے چائے
پی۔اسی دوران گا ڑی کا انتظام ہوگیا اور ہم رہائش گاہ واپس پہنچے توفاصلے
کا اندازہ ہوا اورپوش ایریا کی حقیقت پتہ چلی!!! جی ہاں ! اگرپوش کی تعریف
یہ ہے کہ کوئی مقام مرکزی جگہ سے دور ہو اور پبلک ٹرانسپورٹ سے محروم ہو،تو
ہم سو فی صد ایسے ہی علا قے میں تھے! بلڈنگ سے تقریباً دس منٹ کی واک کے
بعد بس اسٹاپ تھا جہاں سے حرم جانے کی بس ملتی تھی جس کو حاصل کرنارش
اوربھگدڑ کی وجہ سے جوئے شیر لانے کے برابر تھاجس کی ہم میں نہ ہمت تھی اور
نہ پھرتی ! لہٰذا ایک دودفعہ کے علاوہ حرم آمد ورفت کے لیے ٹیکسی کا سفر
کیا ،جس کا کرایہ ابتدا میں دو ریال فی فردہی تھا مگر بعد میں بڑھتے بڑھتے
دس تک پہنچ گیا تھا۔ (یہ ہی تو کمائی کا موقع ہے! اس سلوگن پر مَکے کا ہر
فرد عمل کرتا نظر آیا)۔یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ اگر ہماری بلڈنگ الاٹ
ہوئی تھی توبس یہاں تک کیوں نہیں آتی تھی ؟ تقریباً ساڑھے چھ سو افراد
روزانہ دھینگا مشتی کرتے یا اپنی جیب ڈھیلی کرکے حرم آتے اور جاتے تھے اور
اسی میں خوش تھے کہ یہاں مشقت کرنا اور خرچ کرنا اجر ہے! بلڈنگ کے دفتر میں
ٹرانسپورٹ کی شکایت کے حوالے سے سرکلرزلگے ہوئے تھے جن پردل جلوں
نے249سفیدجھوٹ ، لکھ مارا تھا جس کا قطعاً برا نہ مانا گیا ورنہ ایکشن نہ
لے لیا جاتا؟
ہرحال اس ایک بات کے علاوہ ہم سب اپنی رہائش گاہ سے مطمئن تھے۔صاف ستھرا
علاقہ! دو برق رفتار لفٹ ہر وقت تیار!ضرورت کی ہر چیز بلڈنگ سے اترتے ہی
دستیاب ہوتی۔لگتا کہ اپنے ہی گھر میں شاپنگ کررہے ہیں۔افسوس اس بات کاکہ جن
پراڈکٹس کا ہم اپنے ملک میں بائیکاٹ کررہے تھے یہاں خریدنے پر مجبور
تھے۔بکراہت استعمال کرنی پڑیں کہ ضروری اشیاء بوجھ اور ممانعت کے خوف سے
اپنے ہمراہ نہ لائے تھے۔ بلڈنگ کے نیچے ہی ہوٹل تھے جہاں گرما گرم چائے اور
پاکستانی ناشتہ اورکھانا دستیاب تھا۔ |