افسوس اس بات کاکہ جن پرا ڈکٹس
کا ہم اپنے ملک میں با ئیکاٹ کررہے تھے یہاں خریدنے پر مجبور تھے۔بکراہت
استعمال کرنی پڑیں کہ ضروری اشیاء بوجھ اور ممانعت کے خوف سے اپنے ہمراہ نہ
لائے تھے۔ بلڈنگ کے نیچے ہی ہوٹل تھے جہاں گرما گرم چائے اور پاکستانی
ناشتہ اور کھانا دستیاب تھا۔
اگلے دن سے ہمارا شیڈول یہ رہا کہ تہجد اور فجر کی ادائیگی خواتین اپنے
کمروں میں جبکہ حضرات قریبی مسجد میں ادا کرتے ۔ اگرچہ حرم کی اذان ہمیں
اپنے کمرے میں صاف سنائی دیتی مگرجانا....؟ فجرسے فارغ ہوکرسحر خیز افراد
تو ناشتے کے بعد تیاری میں مصروف ہوجاتے جبکہ کچھ لوگ اپنی نیند پوری کرکے
ناشتہ کرتے۔اس کے بعد حرم کو روا نگی ہوتی ا ور واپسی عموماً مغرب یا عشاء
یا کبھی عصر کے وقت ہوتی عموماً ہم پانچ افراد(جس میں ہم تین ایک گھر کے
تھے)ایک ٹیکسی کے مسافر بن کر سفر کرتے۔
کچھ ذکر اپنے گروپ کا ہو! عمروں اور مزاجوں کے فرق، مختلف ذہنی سطح اور رہن
سہن کے باوجود بہترین ہم آہنگی پیدا ہو گئی تھی جس کے باعث لگتا تھا کہ ہم
سب ایک ہی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ! کسی بھی ایشو پر یکسو نہ ہونا ہمارا
قومی مزاج ہے، جس کا مظاہرہ گھروں تک میں ہوتا ہے یہاں بھی نظر آیا!کچھ کے
خیال میں خواتین کا گھر میں نماز ادا کرنا افضل ہے جبکہ دیگر کا کہنا تھا
کہ لاکھوں کا اجر یہاں بیٹھ کر کیوں ضائع کریں؟ کچھ قصر پڑھنے پر مصر تھے ،کچھ
کے مطابق مکہ میں ہمارا قیام ایک ماہ کا ہے لہٰذا مقیم کی حیثیت سے پوری
نماز وا جب .! کچھ اپنی توانائیاں حج جیسی عظیم عبادت کے لیے اسٹور کررہے
تھے،تو کچھ یہاں کے ہر لمحے کو کشید کرتے ہوئے طواف اور عمروں میں اپنی جان
کھپا رہے تھے .......وغیرہ وغیرہ مگر ساری باتیں اور بحثیں کسی تلخی کے
بغیر! ہر ایک اپنی نیت پر ہے! بندے کا رب سے تعلق چیک کرنا ہمارا منصب نہیں
!
تیاری کے نام پر نہادھو کر یا وضو کرکے گلے میں شناختی لاکٹ، ہاتھوں میں
بریسلٹ،انگلی میں طواف کے چکروں کی گنتی کے لیے پہنی گئی انگوٹھی والی
تسبیح، پیٹھ پر جوتے کی تھیلی، کندھے پر ہلکا سا بیگ جس میں تھوڑا بہت
کھانے کا سامان(پانی توزم زم ہے نا!) بس اس سازوسا مان کے ساتھ ہر ایک ،جانب
حرم ہوتا ! مکہ کی ٹریفک بہت تیز ہے اور بائیں طرف کی ہے ،جس کی وجہ سے بڑا
محتاط رہنا پڑتا ہے۔ یہاں کی گہماگہمی کا کیا کہنا؟ اپنے جاننے والوں میں
سیکڑوں لوگ موجود ہیں مگر کیا مجال جو نظر آجائیں!خود اپنے گروپ میں سے
کوئی شاذ ونادر ہی حرم میں ملتا ہے ،الا یہ کہ باقاعدہ جگہ اور وقت کا تعین
کریں تاکہ واپس ساتھ آسکیں ! چھوٹے بڑے سو دروازے ہیں اور چاہنے کے باوجود
ہم سب میں نہ جاسکے! صحن میں اونچائی پر دو کھڑکیاں رسول اﷲﷺ پر کوڑا
پھینکنے والی جگہ کا پتہ دیتے ہیں!واش رومز کی جگہ پر ابوجہل کا گھر تھا!
رسول اﷲﷺ کی جائے پیدا ئش لائبریری میں بدل دی گئی ہے(حج کے مو قع پربند
تھی)! ان سب جگہوں کو دیکھتے ہوئے دل کا حال عجیب ہوجاتاکہ آپﷺنے کتنی
تکالیف میں وقت گزارا اور ہم کتنے امن اور سکون سے یہاں گزر رہے ہیں!!
یہاں کے لوگوں کی بے مہری پر کیا کہیں ؟ یہ انہی لوگوں کی اولادیں ہیں نا
جنہوں نے رسول اﷲکو بڑا ٹف ٹائم دیا حتیٰ کہ وہ ہجرت پر مجبور ہوئے مگر اس
کے باوجود یہاں کی محبت رسول اﷲ ﷺ کے دل سے کم نہ ہوسکی،لہذا ہم بھی ان
لوگوں کی ہجو کرنے سے معذور ہیں ! لیکن جہاں زم زم کا چشمہ بہہ رہا ہو وہاں
اﷲکے مہمانوں سے پانی کی بوتل (غیرملکی) کے دو ریال وصول کرنا کس زمرے میں
آئے گا ؟؟ حضرت ابراہیم ؑ کی دعائے برکت کے ثمرات سمیٹتے ہوئے اس میں
مسافروں کو شریک نہ کرنا آداب میزبانی کے خلاف تو نہیں ؟؟کون بتائے؟
حقیقت یہ ہے کہ کمرشلائزیشن کے جن نے حج وعمرے کو خوب اچھی طرح ٹارگٹ کیا
ہے!! اس کا اندازہ حرم کے گرد اسکائی اسکریپرز کو دیکھ کر ہوتا ہے۔کچھ
لوگوں کے خیال میں چمک دمک سے آنے والی دنیا کی تو جہ یہاں مبذول کرنے کے
لیے اس جگہ کو اتناپرکشش بنایا جارہا ہے ! جبکہ اصل رونق تو اس چوکور سیاہ
عمارت کی ہے، جس کے گرد دنیا کے ہر طول و عرض سے آنے والا بے اختیار طواف
کرنے پر مجبور ہے!ہر عمر ہرحلیے،ہر زبان ،ہر رنگ،ہر طبقہ فکر،ہر نسل........!
الفا ظ احاطہ کرنے سے قاصر ہیں لوگوں کی اقسام بتانے کے لیے! جس نے ایک
دفعہ آپ کے ساتھ ایک نماز ادا کی ، دوبارہ نظر نہ آیا !! یہ کون لوگ ہیں؟
کس کی طلب ان کو یہاں لائی ہے؟ رب کی رضا!!جوق در جوق پروانے کی طرح
منڈلانے والے !لگتا ہے روٹھے ہوئے رب کو مناکر ہی چھوڑیں گے!!مگر شیطان کو
یہ کہاں گوارا ؟ اس وقت بھی نقب لگانے کو تیار!! کبھی انا کی ضرب ، کبھی
دھکا لگنے کی تکلیف پر بے صبرا پن .......جیسے جیسے وقت گزرنے کے سا تھ
ساتھ رش بڑھ رہا ہے ،نزلہ ،فلو بھی عام ہورہا ہے بالکل اسی طرح سے صبر اور
اطمینان کے لگائے گئے ٹیکے بھی اپنا اثر ختم کرکے بے چینی اور اضطراب کی
وبا پھیلا رہے ہیں!! حج کی شرائط میں حلال کمائی کا تو خیال پھر بھی رکھ
لیا جاتا ہے مگر حقو ق العباد کا باب نظروں سے اوجھل ہی رہتا ہے عموماً!!
حرم کی وسعتوں کا اندازہ نہیں ہے مگر نماز کے اوقات میں وہ بھی تنگیء داماں
کا شکار نظر آتا ہے ’’استوع‘‘ کی صدا کے ساتھ ہی حد نگاہ تک صفیں ہی صفیں !
دنیا میں دستیاب ہر زبان کے بولنے والے موجود مگر دعا سب کی ایک!کیا اتنی
بڑی قوت کا سرمایہ ہونے کا احساس ہمیں ہے؟؟ نہیں !ہرگز نہیں!(ہاں البتہ
ہمارے دشمن کو خوب ہے ،جبھی تو وہ ہمیں ایک نہیں ہو نے دیتا!تقسیم در
تقسیم!! ) ۔ سنا ٹے میں آیا مجمع صرف اﷲکی بڑا ئی کے آگے اپنا سرجھکا دیتا
ہے،اس قدر عاجزی اور فرمانبرداری!!مگر سلام پھیرتے ہی وہی بے چینی! ایک
متاثرکن منظر، اتنی جلدی بیزارکن ہوجاتاہے جب شیطانی آلہْ جلدبازی ‘اپنا
اثر دکھاتا ہے۔
ہمیں مکہ پہنچے ایک ہفتہ ہوا تھاکہ ایک دن عصر کی نماز کے بعد زبردست بارش
ہوئی۔گرج چمک کے سا تھ! ایک خوبصورت منظر تھاجب حطیم میں میزاب سے سنہرا
پانی گررہا تھا۔ اس وادی میں ایک قدرتی نکاسی کا انتظام ہے ۔چنانچہ سڑکیں
بالکل صاف! بارش کے بعد موسم بہت اچھا ہوگیا۔ ویسے موسم تو اﷲکا شکر ہے کہ
ہمیں بہت ہی اچھا ملا ہے۔نہ گرمی نہ سردی! ہاں مزاجوں اور طبیعت کی خرابی
اے سی بند کرنے یا نہ کرنے پر وجہ بحث بنتی مگر کبھی کبھی!!
دسویں دن زیارتوں کے لیے گئے۔غار ثور،جبل رحمت پر خاصہ رش تھا۔لوگ پکنک کی
طرح منا رہے تھے۔ حالانکہ وہاں سختی سے ممانعت لکھی تھی مگر لوگ اپنی
بدعتوں میں سرشار کہاں ان باتوں کا نوٹس لیتے ہیں؟منٰی اور عرفات کے میدان
کے قریب بھی گئے۔جمرات دور سے دکھایا۔ یہ سب جگہیں حاجیوں کے لیے تیار کی
جارہی ہیں! اور غار حرا تو بس گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی دیکھا۔ اوپر لوگ
نقطے کی طرح نظر آرہے تھے! پیارے نبیﷺکس طرح اتنی بلندی پر تشریف لے جاتے
تھے؟ یہ سارے مقامات رسولﷺ کے قدموں تلے رہتے تھے! اس خیال نے صدیوں پیچھے
اس دور میں پہنچا دیا جب ذات گرامیﷺ اﷲکی دعوت لوگوں کو دینے کے لیے دنیا
جہاں کی تکالیف اٹھا رہے تھے! انہوں نے تو اپنا کام کردیا، اب ہماری ذمہ
داری ہے! حوصلوں کی کمی،نہ وہ اخلاق نہ وہ کردار ! نہ وہ دل سوزی ہے نہ
صبر! جبھی تو امت کا یہ حال ہے؟ ؟؟؟ نماز ظہر کا وقت ہو رہا تھالہٰذا واپس
ہوئے۔
جاری ہے |