پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی کا حصول اور چیلنجز

آج کے دور میں کسی بھی ملک کی ترقی اس کی علمی اور فنی مہارتوں پر منحصر ہے، اور جدید ٹیکنالوجی اس میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال دفاعی، صنعتی، اقتصادی، سماجی، اور ثقافتی ترقی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اور تحقیق و ترقی (R&D) کے ذریعے ہی ٹیکنالوجی میں جدت لائی جا سکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے تحقیق و ترقی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے، جس کے نتیجے میں انہوں نے اپنی معیشت کو مستحکم کیا اور عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنایا۔ اس کے برعکس، ٹیکنالوجی کی جدت کے بغیر صنعتی ترقی اور معاشی استحکام ممکن نہیں۔

حقِ دانش یا پیٹنٹ (Patent) کا نظام موجدین کو اپنی نئی ایجادات پر قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے، جس سے وہ اپنی ایجادات کےمالک بن سکتے ہیں اور ان کا تجارتی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ نظام جدید ٹیکنالوجیز اور خدمات(Services)کی ترقی میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور معاشرتی فلاح و بہبود اور اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے، کیونکہ پیٹنٹ سرمایہ کاری کو فروغ دیتا ہے اور نئی صنعتیں اور ملازمت کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس طرح، پیٹنٹ موجدین کی محنت کا غیر قانونی استعمال روک کر انہیں مالی فوائد بھی پہنچاتا ہے۔

پاکستان کی تقریباً 240 ملین آبادی میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو ملک کی ترقی کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔ ان نوجوانوں میں بے پناہ تخلیقی صلاحیتیں اور جدید خیالات کو اپنانے کا جذبہ موجود ہے، لیکن ان صلاحیتوں کو مؤثر طریقے سے بروئے کار لانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں جدید ٹیکنالوجی تک رسائی اور قانونی تحفظ فراہم کیا جائے۔

اگر ہم پاکستان کا موازنہ چین، امریکہ، جاپان اور دیگر ممالک سے کریں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہم پیٹنٹ فائلنگ کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ چین، امریکہ، جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک پیٹنٹ فائلنگ میں عالمی سطح پر سبقت حاصل کر رہے ہیں۔ چین نے 2023 میں سب سے زیادہ، یعنی 69,610 پیٹنٹ درخواستیں دائر کیں، جبکہ امریکہ نے 55,678 اور جاپان نے 48,879 درخواستیں جمع کروائیں۔ دیگر اہم ممالک میں جنوبی کوریا نے 22,288، جرمنی نے 16,916، فرانس نے 7,916، برطانیہ نے 5,586، سوئٹزرلینڈ نے 5,382، سویڈن نے 4,323، اور نیدرلینڈز نے 4,258 درخواستیں دائر کیں۔ مجموعی طور پر، ان دس ممالک نے عالمی پیٹنٹ درخواستوں کا 88.3 فیصد حصہ فراہم کیا۔ پاکستان نے صرف 5 پیٹنٹ درخواستیں دائر کیں، جبکہ بھارت نے 3,791 درخواستیں دائر کرتے ہوئے 11ویں پوزیشن حاصل کی۔ یہ اعدادوشمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ ترقی پذیر ممالک، خاص طور پر بھارت، جو 2022 میں 2,622 پیٹنٹ درخواستیں دائر کر چکا تھا، پیٹنٹ فائلنگ میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، جبکہ پاکستان اسی عرصے میں 2 درخواستوں سے صرف 5 پر پہنچا ہے[1, 2]۔

پاکستان کو ٹیکنالوجی میں خود کفالت حاصل کرنے کے لیے تحقیق و ترقی (R&D) میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ ہم عالمی سطح پر اپنی ترقی کی رفتار کو تیز کر سکیں۔پاکستان میں پیٹنٹ کا نظام کئی مشکلات کا شکار ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ عوامی شعور کی کمی ہے۔ موجدین کو پیٹنٹ فائلنگ کے عمل میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے کہ درخواست کے عمل میں سُستی، قانونی پیچیدگیاں اور کنسلٹنسی کے مد میں بھاری رقم کا مطالبہ۔ موجودہ حالات میں موجدین کو پیٹنٹ حاصل کرنے کے عمل میں اس قدر دشواری کا سامنا ہوتا ہے کہ وہ اکثر اپنی ایجادات کو پیٹنٹ نہیں کروا پاتے۔

ممکنہ حل اور تجاویز
1. پیٹنٹ کے فوائد اور اس کے طریقہ کار کے بارے میں عوامی شعور بڑھایا جائے تاکہ موجدین کو اس کے فوائد کا علم ہو سکے۔
2. موجدین کے لیے پیٹنٹ فائلنگ کا عمل آسان اور تیز ہونا چاہئے تاکہ وہ بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی ایجادات کو محفوظ بنا سکیں۔
3. پیٹنٹ کے عمل کو ڈیجیٹلائز (Degetlized)کیا جائے تاکہ موجدین کو درخواست کے ہر مرحلے پر خودکار طریقے سے آگاہی حاصل ہو سکے اور انہیں کسی درمیانی فرد کی ضرورت نہ پڑے۔
4. حکومت اور نجی شعبہ کو تحقیق و ترقی میں مزید سرمایہ کاری کرنی چاہئے تاکہ نئی ایجادات کو فروغ مل سکے۔
5. تحقیقی اداروں کو پیٹنٹ کے عمل میں موجدین کی مدد کے لیے مالی معاونت فراہم کی جائے۔
6. موجدین کی حوصلہ افزائی کے لیے مختلف منصوبے شروع کرنے چاہئے تاکہ وہ اپنی ایجادات کو پیٹنٹ کروا سکیں۔
7. مختلف علاقوں میں تحقیق و ترقی کے مراکز قائم کرنے چاہئے تاکہ موجدین کو اپنی ایجادات کو پیٹنٹ کرنے کے لیے ضروری سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
8. پیٹنٹ کو برقرار رکھنے کی فیس کو کم کیا جائے تاکہ موجدین کو مالی بوجھ سے بچایا جا سکے ۔
9. حکومت کو پیٹنٹ کے عمل میں رشوت کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات کرنے چاہئے۔
10. بین الاقوامی سطح پر پیٹنٹ کے عمل میں تعاون کے لیے مختلف ممالک کے ساتھ معاہدے کرنے چاہئے تاکہ پاکستانی پیٹنٹس کو عالمی سطح پر فروغ مل سکے۔
11. پاکستانی پیٹنٹس کو بین الاقوامی پلیٹ فارمز جیسے کہ "گوگل پیٹنٹ" پر دستیاب کیا جانا چاہئے تاکہ دنیا بھر کے لوگ ان ایجادات کو دیکھ سکیں ۔ اس اقدام سے نہ صرف پاکستانی موجدین کو عالمی سطح پر پہچان ملے گی بلکہ ملکی معیشت کو بھی فائدہ ہوگا۔

پاکستان کے پاس ترقی کی بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ اگر حکومت، نجی شعبہ، اور عوام مل کر کام کریں تو ہم اپنے پیٹنٹ نظام کو عالمی معیار کے مطابق بنا سکتے ہیں اور ٹیکنالوجی کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک مضبوط، شفاف، اور کرپشن سے پاک پیٹنٹ سسٹم نہ صرف ہمارے موجدین کی تخلیقی صلاحیتوں کو محفوظ بنائے گا بلکہ ملکی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔ ہمیں صرف ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے موجدین کو آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔

 

Engr. Dr. Ali Azam
About the Author: Engr. Dr. Ali Azam Read More Articles by Engr. Dr. Ali Azam: 7 Articles with 3434 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.